شمالی وزیرستان میں پی ٹی ایم کے چند کارکنوں کا پاک فوج کی چیک پوسٹ پر حملہ کی خبر تشویشناک ہے۔ تفصیلات کے مطابق بویہ کے علاقے میں خاڑکمر چیک پوسٹ پر سکیورٹی اہلکاروں نے ایک شخص کو دہشت گردوں کا سہولت کار ہونے کے شبہ میں گرفتار کیا تو پی ٹی ایم کے کارکنوں نے رکن قومی اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ کی سربراہی میں چیک پوسٹ کے سامنے پہلے احتجاج کیا اور پھر سکیورٹی اہلکاروں سے مشکوک شخص کو چھڑوانے کے لئے حملہ کر دیا۔ دونوں طرف سے فائرنگ ہوئی۔ جس میں تین حملہ آور ہلاک اور 10زخمی ہوئے جبکہ 5سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے۔ واقعہ کے بعد ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ چند افراد اپنے مذموم مقاصد کے لئے لوگوں کو تشدد پر اکسا رہے ہیں۔ پی ٹی ایم کے معصوم کارکنوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر دو ٹوک انداز میں کہا کہ بہادر قبائلیوں نے قیام امن کے لئے جو قربانیاں دی ہیں۔ انہیں رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔ پی ٹی ایم کی جانب سے سکیورٹی چیک پوسٹ پر حملے کی خبر جونہی منظر عام پر آئی افغانستان کے ذرائع ابلاغ نے اس کے بارے میں من گھڑت اور جعلی اطلاعات چلانا شروع کر دیں۔ بعدازاں جب یہ معلومات غلط ثابت ہوئیں تو افغان میڈیا نے جعلی تصاویر جاری کرنے پر معذرت کر لی۔ پی ٹی ایم کے حامی افراد سوشل میڈیا پر اپنی اس کارروائیوں کے ذریعے کم معلومات رکھنے والے سادہ لوح افراد کو ریاست کے خلاف اشتعال دلانے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم سوشل میڈیا صارفین کی بڑی تعداد نے پی ٹی ایم کا موقف مسترد کرتے ہوئے ریاست کے محافظ اہلکاروں پر حملے کی مذمت کی ہے۔ بلا شبہ قبائلی علاقے ایک طویل عرصہ سیاسی نمائندگی ‘ تعمیر و ترقی کے عمل اور بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کے حوالے سے حکومتوں کی عدم توجہی کا شکار رہے ہیں۔ اس غفلت کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہاں کے لوگ قانون کی پابندی اور ریاست کے سامنے اپنی طاقت سرنڈر کرنے کے اس سوشل کنٹریکٹ سے لاعلم اور ناواقف ہیں جسے آئین کہا جاتا ہے۔ ان علاقوں کی آئینی حیثیت وفاق کے زیر انتظام علاقوں کی رہی مگر عمران خان سے پہلے یہاں ایک دو وزر اعظم نے ہی دورہ کیا۔ ان علاقوں میں سڑکیں نہیں‘ ہسپتال نہیں‘ تعلیمی ادارے نہیں۔ روزگار کے مواقع نہیں۔ عمران خان نے چند برس قبل قبائلی علاقوں کو کے پی کے میں ضم کرنے کی تجویز دی۔ اکثر سیاسی جماعتوں نے ان کے موقف کی تائید کی۔ صرف مولانا فضل الرحمن نے اس تجویز کی مخالفت کی۔ قبائلی علاقے اب خیبر پختونخواہ کا حصہ بن چکے ہیں۔ گزشتہ 10ماہ کے دوران عمران خان لگ بھگ 6بار قبائلی اضلاع کا دورہ کر چکے ہیں۔ ان علاقوں میں سالانہ 100ارب روپے خرچ کئے جا رہے ہیں۔ نئی سڑکیں‘ مارکیٹس‘ کھیلوں کے سٹیڈیم ‘ تعلیمی ادارے اور ہسپتال بنائے جا رہے ہیں۔ عام قبائلی اس صورت حال سے مطمئن ہے۔ مگر یہاں ایسے لوگ موجود ہیں جو تعمیر و ترقی کے اس عمل کو روکنے کے درپے ہیں۔ قبائلی اضلاع کی پسماندگی کی ایک داخلی وجہ یہاں کے شہریوں کے ساتھ قومی قائدین اور سیاسی رہنمائوں کا مکالمہ نہ ہوناہے۔ یہ علاقے پہلے افغان جہاد اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے مسلسل جنگی تصادم سے متاثر رہے ہیں۔ عسکریت پسندی یہاں روزگار کے طور پر عام ہوئی۔ اگر سیاسی جماعتیں یہاں کام کرتیں اور ان لوگوں کو قومی دھارے میں لانے کی تدبیر کرتیں تو عسکریت پسندی اور قومیت پرستی کے نام پر یہاں ایسے مسائل پیدا نہ ہوتے جو ریاست کی سلامتی کے لئے چیلنج بن رہے ہیں۔وزیرستان چیک پوسٹ پر پی ٹی ایم کارکنوں کے حملے کے بعد بھی یہ افسوسناک صورت حال برقرار ہے۔ پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اس سارے واقعے کے ذمہ داروں کو معصوم قرار دے رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز اور اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی بھی سکیورٹی فورسز کی بجائے دوسری جانب کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ کیا سیاست اتنی خودغرض ہو سکتی ہے کہ معمولی مفادات کے لئے ریاست کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا جائے اور پھر سودے بازی کا راستہ تلاش کیا جائے۔ ایک بات عسکری اور سیاسی قیادت جان چکی ہے کہ پاکستان حالت جنگ میں ہے۔ پاکستان کو تجارتی اور مالیاتی ضابطوں کے ذریعے جکڑا جا رہا ہے۔ مالیاتی تعاون کو انتظامی اور سیاسی فیصلوں کے ساتھ منسلک کیا جا رہا ہے۔ ایک کڑی سے دوسری کڑی ملتی جا رہی ہے۔ یہ بات اب صاف ہو جانی چاہیے کہ جنگ لڑنے اور بیرونی سازشوں سے نمٹنے کا فریضہ اب تک صرف سکیورٹی اداروں نے ادا کیا ہے۔ کچھ سیاسی شخصیات اس راہ میں شہید ہوئیں مگر سیاسی جماعتوں نے فیصلہ کرتے وقت ہمیشہ مصلحت کوشی سے کام لیا۔ سندھ میں رینجرز کو کام کرنے میں توسیع کا معاملہ ہو‘ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع ہو یا دہشت گردی کے خلاف فوجی آپریشن ہو سیاسی جماعتیں اپنا اختلاف ضرور ظاہر کرتی ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ چیک پوسٹ پر ڈیوٹی دینے والے جوان شہریوں کے تحفظ کے لئے کھڑے ہیں۔ یہ اگر کسی کو مشکوک سمجھ کر روکتے ہیں تو انہیں تسلی سے اپنے معصوم اور امن پسند ہونے کا بتایا جا سکتا ہے۔ ان اہلکاروں کے رویے سے اگر شکایت ہے تو ان کے اعلیٰ افسران سے بات کی جا سکتی تھی۔ یہ طریقہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہو سکتا کہ اراکین اسمبلی چند لوگوں کے ساتھ چیک پوسٹ پر حملہ کر دیں۔ قوم الطاف حسین اور بیت اللہ محسود جیسے تجربات سے دوبارہ نہیں گزرنا چاہتی۔ حکومت اس معاملے کو حل کرنے کے لئے کوششیں کر رہی ہے تمام سیاسی قوتوں کو متحد ہو کر اس صورت حال کو سنگین بننے سے روکنا چاہیے۔