بھارت کی شمال مغربی پہاڑی ریاست ہماچل پردیش کی سرکار نے بندر کو موذی جانورقرار دیا ہے۔ فرمان میں کہا گیا ہے کہ بندروں کی گنتی بہت بڑھ گئی ہے، ہر جگہ اودھم مچا رکھا ہے۔ گھر ہویا بازار، جیون نشٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ جہاں دیکھو مارڈالو۔ انعام ملے گا۔ انعام کے اعلان کے بعد بندروں کی شامت آ گئی ہے۔ کو ئی دو چار بھی مارلے تو دن بھر کی چائے پانی کا بندوبست ہو جاتا ہے۔ بندر ہندوئوں کا بھگوان ہے اور بھگوان بھی چھوٹا موٹا نہیں، مہا بلی بلوان بھگوان ہنومان۔ وہی جس نے بھگوان رام کی سہاتیا کی تھی جب انہوں نے لنکا پر چڑھائی کی تھی۔ ان کی استری سیتا دیوی کا اپہرن راجہ راون نے کرلیا تھا اور ہنومان جی ہمالے سے بڑے بڑے پتھر اٹھا کر ڈیڑھ ہزار میل دور لے گئے تھے پھر انہی پتھروں کی بارش کر کے لنکا ڈھا دی تھی۔ اب انہی مہابلی کو سرکار نے پہلے تو جانور کہا پھر موذی اور سرکار بھی کس کی۔ بی جے پی کی جس کے مکھیہ نیتا جے رام ٹھاکر مہامنتری ہیں۔ جے رام جی کی۔ سوچئے، ایسا کوئی فتوی، دیو بند یا بریلوی کے دارالافتا سے جاری ہوا ہوتا کہ بندر موذی ہو جائے تو مار ڈالنا جائز ہے تو کیا ہوتا؟ بی جے پی کے دھرم سیوک ہنومان بنے، مگدر کندھوں پر اٹھائے، پٹرول کے ٹین ہاتھوں میں پکڑے مسلم بو، مسلم بو کرتے گلیوں بازاروں میں نکل آتے۔ مسلمانوں کو ان کے مکانوں کے اندر ہی جلا ڈالتے۔ ٭٭٭٭٭ ہماچل کے مغرب میں کشمیر ہے اور مشرق میں اترا کھنڈ۔ یہ سارا علاقہ ہمالیہ پہاڑ کا ہے اور سلسلہ مشرق میں یوپی بہار سے ہوتا ہوا، بنگال کو شمال سے پھلانگتا ہوا آسام تک جا پہنچا ہے۔ ایک بلند و بالا دیوار، وہی جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا ع اے ہمالہ، اے فصیل کشور ہندوستان یہ فصیل چین کوبھارت پر حملہ آور ہونے سے روکتی ہے لیکن اب اسی فصیل کے اندر سے اتنے بندر نکل کر پورے بھارت پر یلغار کر رہے ہیں کہ کسی کو اندازہ ہی نہیں تھا۔ بندر اتنے بڑھ گئے ہیں کہ بھارت ان سے بھر گیا ہے۔ ہندو انہیں بھگوان سمجھ کر جان سے تو نہیں مارتے لیکن لاٹھی پکڑ کر پیچھے ضرور دوڑتے ہیں۔ کیسا منظر ہوتا ہوگا، آگے آگے بھاگتا بھگوان، پیچھے پیچھے لٹھ پکڑے اے ہنومان بھگت۔ اب ہماچل والوں نے جان سے مارنے کی پہل کردی ہے۔ ٭٭٭٭٭ یہ تو بھگوان ہنومان کے بارے میں خبر ہے۔ ایک خبر ان سے بھی بڑے بھگوان کے بارے میں بھی ہے یعنی بھگوان جگن ناتھ جی کے بارے میں۔ جگن ناتھ کا مطلب ہے، کائنات کا پراجہ لارڈ آف دی یونیورس۔ ان کے مندر بھارت بھر میں ہنومان جی کے مندروں سے بہت کم ہیں حالانکہ یہ ان سے کہیں بڑا بھگوان ہے۔ دہلی کے محلے ’’پورنیا‘‘ میں بھی ان کا ایک مندر ہے جو پورے بھارت میں مشہور ہے۔ کسی اور وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے کہ مندر کے جگن ناتھ جی ہر سال پندرہ دن کے لیے بیمار ہو جاتے ہیں۔ انہیں بخار ہو آ جاتا ہے۔ پھر ڈاکٹر آتے ہیں، تاپمان (تھرما میٹر) سے بھگوان کا تاپ ماپتے ہیں۔گولیاں تجویز کرتے ہیں، کھانے کے لیے مونگ کی دال کا پانی دیتے ہیں۔ پتھر کے بھگوان منہ کہاں کھولتے ہوں گے، ڈاکٹروں کو زبردستی کرنا پڑتی ہوگی۔ اتنے برسوں سے بخار کا سلسلہ چل رہا ہے تو ضرور ’’کرانک‘‘ (مزمن) بیماری ہو گی۔ پجاریوں کو چاہیے، انہیں ولایت لے جائیں۔ کون جانے کیا روگ اندر ہی اندر کس کس انگ کی جڑوں میں بیٹھ گیا ہو۔ ایسا نہ ہو، بخار ہی میں چل بسیں، پھر جگ کی پالن ہاری کون کرے گا۔ ٭٭٭٭٭ بھارت میں سینکڑوں دیوتا ہیں (کتابوں میں لکھا ہے، 35 کروڑ ہیں لیکن نام ہزار بھی نہیں ہیں) ان کے علاوہ بہت سی دیویاں ہیں جن کو ماتا (ماں) کہا جاتا ہے۔ مثلاً پاربتی دیوی (گنیش جی کی ماتا)۔ پھر یہی پاربتی دیوی جب اپرسن ہوتی ہے (غصے میں آتی ہے) تو کالی ماتا بن جاتی ہے۔ ہزا وچن نہ جائے خالی، کالی کلکتے والی۔ پاربتی جی کو شیروں والی ماتا بھی کہا جاتا ہے۔ ایک دیوی لکشمی جی ہیں جو لکشمی رہتی ہیں۔ ایک سرسوتی یعنی علم و دانش کی دیوی جن کی آج بھارت میں کوئی نہیں سنتا۔ ایک چیچک کی دیوی سیتلا جی ہیں، آج کل فارغ بیٹھی ہیں۔ اسی طرح اور بہت سی ہیں اور سب تصوراتی لیکن ایک ماتا جی جیتی جاگتی بھی ہیں یعنی گکو ماتا۔ ٭٭٭٭٭ گائے طب (میڈیسن) میں بھی سب سے مقدس جانور ہے۔ اس کا دودھ سب سے بڑھ کر شفا دیتا ہے۔ اس کا گوبر جراثیم کش۔ کبھی لوگ اسے گھروں میں پوتتے تھے۔ اس کا پیشاب دوائوں کی مضرت ختم کر کے شفا کی تاثیر بڑھاتا ہے۔ ویدک دوائوں اور کشتوں میں زہریلی اور تیز اثر دوائوں کو گائے کے پیشاب میں شدھ (مدبر) کیا جاتا ہے۔ اس کا گوشت پوری دنیا میں سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ گائے کا گوشت جادو ٹونے میں بھی کام آتا ہے اور روحانی عملیات میں بھی۔ بنی اسرائیل میں ایک ممتاز شخص قتل ہوگیا۔ قاتل کاسراغ نہیں ملتا تھا۔ پھر وحی نازل ہوئی کہ اس رنگ اور انگ کی گائے تلاش کرو، اسے کاٹو، اس کی ران مقتول کی لاش سے چھوائو، وہ اٹھ بیٹھے گی اور قاتل کا نام بتا دے گی۔ یہ واقعہ تفصیل سے بنی اسرائیل روایات میں ملتا ہے اور قرآن پاک میں بھی مختصر ذکر اس کا سورۃ البقرہ میں ہے۔ گائے کو امتیازی حیثیت ہر جگہ ہے لیکن محض مفید جانور کے طور پر، اسے ماتا کوئی نہیں مانتا اور اس کے لیے انسانوں کو بھی کوئی نہیں مارتا۔ ہندو دھرم میں بھی انسانوں کو مارنے کی بات نہیں ہے لیکن ہندو سماج میں ہے۔ گائے کا نام لے کر مسلمانوں کو مارنے کا رواج بی جے پی کے دور میں تو بہت ہی بڑھ گیا۔ اب بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جسٹس مرکنڈے کاٹجو نے اس کے خلاف بغاوت کردی ہے۔ کہتے ہیں گائے کوئی ماتا واتا نہیں ہے، گھوڑے بلی کی طرح کا ایک جانور ہے۔ اس کے نام پر مسلمانوں کو کاٹ ڈالنا جہالت ہے اور ظلم ہے۔