سیدنا امام حسن علیہ السلام ، جن کی کنیت ابو محمد اور القاب’ سیّد‘(سردار ) ’ سبط رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘ اور’ مجتبیٰ ‘ہیں۔ ہجرت کے تیسرے سال پندرہ رمضان المبارک یوم الجمعۃ مدینہ منورہ میں سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے بیت الشرف میں آپ کی جلوہ گری ہوئی ۔ مولائے کائنات علیہ السلام نے ’’ حرب ‘‘نام رکھنا چاہا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کا نام ’’ حسن ‘‘ تجویز فرمایا کیوں کہ یہی منشاء الٰہی تھی۔ امام سیوطی علیہ الرحمۃاپنی سند سے ایک روایت لائے ہیں جس میں ہے کہ :’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے حسن اور حسین دونوں ناموں کو پردہ میں رکھا اور یہاں تک کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دونوں نام اپنے بیٹوں کے رکھے ۔‘‘ (تاریخ الخلفاء ) حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’ یہ دونوں میرے اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں اے اللہ میں انہیں محبوب رکھتا ہو ں تو بھی ان کو محبوب رکھ اور اس کو بھی محبوب رکھ جو ان کو محبوب رکھے ۔‘‘(سنن ترمذی) آپ علیہ السلام سر اپا مبارک کے بارے میں مورخین نے لکھا کہ آپ علیہ السلام کا جسم پاک نازک ، غایت درجہ ملائم ، سفید سرخی مائل ، آنکھیں سیاہ اور بڑی خوشنما ، رخسار پتلے ،کتابی خط و خال کے ، سینہ چوڑا ، پھیلتی ہو ئی گھن دار داڑھی مبارک ، گردن بلند اور روشن گویا چاندی کی صراحی، شانے اور بازو گد گدے اور بھرے بھرے ، بال گھنگھر یالے ، قد میانہ ، بدن خوبصورت اور شکل و صورت زیبا اور نہایت ہی حسین و نور انی تھی۔ آپ علیہ السلام شکل و صورت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بالائی حصے سے مشابہت رکھتے تھے جب کہ سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیریں حصہ سے سیدنا امام حسین علیہ السلام مشابہت رکھتے تھے ۔ حسنین کریمین کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نہ صرف ظاہری مشابہت تھی بلکہ باطنی اعتبار سے بھی مکمل مشابہت رکھتے تھے ۔ آپ علیہ السلام کی سیرت و شخصیت ، عظمت و اہمیت اور عزت و توقیر میں حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عبد اللہ ابن زبیر، حضرت ابن عباس، حضرت بر ا بن عازب رضو ان اللہ تعالی علیہم اجمعین وغیرھ سے بکثرت احادیث مروی ہیں۔ مروی ہے کہ ایک دن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز عصر کے بعد مسجد سے نکلے اس وقت ان کے ساتھ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم بھی تھے ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدنا حسن علیہ السلام کو بچوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا ، آپ نے سیدنا حسن علیہ السلام کو پیار سے کندھوں پر اٹھا لیا اور فرمایا : میرا باپ قربان ہو یہ حسن! نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بہت مشابہت رکھتا ہے اور علی شیرخدا کے ساتھ کم مشابہت رکھتا ہے اور علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم مسکرانے لگے ۔( صحیح بخاری ، مشکوٰۃ) حضرت امام حسن علیہ السلام کی سب سے بڑی عظمت تو یہی ہے کہ آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر سواری کی ۔ سینہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کھیلے ۔ صبح وشام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہوں میں رہتے اور آپ کی پرورش و تربیت خود حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ علیہ السلام جنتی نوجوانوں کے سردار کہلائے ۔سیدنا حسنین کریمین سلام اللہ علیہما کو دنیا و آخرت کی سیادت کل عطا کی گئی۔ آپ علیہ السلام حد درجہ صلح جو، اَمن پسند اور شرافت کے پیکر تھے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امام حسن علیہ السلام کے متعلق فرمایا : میرا یہ بیٹا سردار ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے فریقوں میں صلح کروائے گا۔آپ در گزر کرنے والے انتہائی حلیم اور بردبار تھے ۔ کسی بھی شخص کی بڑی سے بڑی بھول او ر خطا کو بھی معاف کردیتے تھے ۔ آپ کو کو ئی بُرا بھلا کہتا تو کمال تحمل کے ساتھ برداشت کرتے تھے کہ اپنی لالچی اور قاتل بیوی ’’ جعدہ بن اشعث بن قیس ‘‘ کا نام بھی حالت ِنزع میں اپنے بھائی حضرت امام حسین علیہ السلام سے مخفی رہنے دیا اور اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا کہ وہ ذات سب سے بہتر انتقام لینے والی ہے ۔ آپ متواضع اور خلیق ہونے کے ساتھ نہایت درجہ سخی بھی تھے ۔ آپ کی سخاوت کسی سے پوشیدہ نہ تھی۔ مشہور ہے کہ آپ ایک ایک شخص کو دس ہزار درہم تک دے دیتے تھے ۔ یہاں تک کہ کئی بار اپنے گھر کا سارا سامان راہ خدا میں خرچ کردیا ۔ آپ علیہ السلام کے پاس جو ہو تا مخلوق خدا کی دل جو ئی اور بھلائی کیلئے خرچ کردیتے تھے ۔ حضرت امام حسن علیہ السلام حکمت و معارف کا خزانہ تھے ان کے ہر جملے اور ہر لفظ میں حکمت و دانائی کا بحر بیکراں تھا۔ آپ کا فرمان ہے : ’’ تین برائیوں سے لوگ تباہ و برباد ہوجاتے ہیں وہ یہ ہیں تکبر ، حرص اور حسد۔ تکبر سے دین مٹ جاتا ہے اسی وجہ سے ابلیس ملعون قرار پایا اور حرص انسان کی جان کا دشمن ہے اور حسد برائی کا پیغام لانے والا ہے اسی سبب سے قابیل نے اپنے حقیقی بھائی ہابیل کو قتل کیا۔‘‘سیدنا داتاعلی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :اِن کوطریقت میں نظر کامل عطا ہوئی اور تصوف کے مسائل حل کرنے اور اُس کے دقائق بیان فرمانے میں آپ کو بڑا حصہ ملا ہے ۔آپ علیہ السلام نے فرمایا : تمھیں اپنی اندرونی اَسرار کا محفوظ رکھنا لازمی ہے ، اِس لیے کہ اللہ ضمیروں کے حال کا جاننے والا ہے ۔( کشف المحجوب )آپ پانچویں خلیفہ راشد ہیں۔ آپ علیہ السلام کی خلافت کا زمانہ بہت کم تھا ۔ امام سیوطی کے مطابق آپ علیہ السلام کی خلافت 6ماہ اور 5دن ہے ۔آپ سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے امین اور ان کے داعی ہیں ۔ سلطنت دنیا کی حکومت پر سلطنت قلوب کی حکومت کو ترجیح دی ۔اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے کیا خوب کہاہے : وہ حسن مجتبیٰ ،سیدالاسخیاء راکب ِ دوش عزت پہ لاکھوں سلام