دنیاوی علائق اور ترکِ دنیا کے حوالے سے علماء اور صوفیاء کے عجیب و غریب واقعات ہیں،لیکن امام غزالیؒ کی یہ بے تعلقی بالکل انوکھی اور منفرد نوعیت کی تھی،بغداد کے مدرسہ نظامیہ کا صدر نشین ہونا ،اس عہد کا سب سے بڑا علمی اعزاز تھا،جوآپ کومحض 34سال کی عمر میں میسر آگیا،حالانکہ اس دور کے بعض بڑے بڑے صاحبانِ فکر و فن نے اس کی آرزو میں اپنی عمریں صَرف کر دی،لیکن وہ اس منصب کی حسرت۔۔۔دل کی دل میں لے کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔اس عظیم ذمہ داری کو سنبھالنے کے بعد،اس منصب پر آپ کے علم وفضل کا یہ اثر ہوا کہ اراکینِ سلطنت اور بالخصوص سلجوکی وزراء اور امراء کی چمک دمک بھی آپ کے سامنے ماند پڑ گئی اور اہم ریاستی اموربھی آپ کی منشاء کے بغیر انجام نہ پاتے اور صرف سلجوق ہی نہیں آلِ عباس کے ہاں بھی آپ کا از حد احترام تھا،لیکن جب یہ سب کچھ چھوڑنے کا ارادہ کیا۔تو آپ اپنی روحانی سرگذشت "Spiritual Auto Biography" ’’اَلْمَنْقِذُ مِنَ الضَّلال‘‘ یعنی ’’تلاشِ حق‘‘میں تحریر فرماتے ہیں کہ:نفس کسی طرح بھی گوارا ہ نہ کرتا تھا کہ ایسی بڑی عظمت و جاہ سے دست بردار ہو جائے۔ان ترددّات میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ زبان رُک چلی اور درس دینا بند ہوگیا،رفتہ رفتہ ہضم کی قوّت جاتی رہی،آخر طبیبوں نے علاج سے ہاتھ اُٹھا لیا اور کہہ دیا کہ ایسی حالت میں علاج کچھ سودمند نہیں ہوسکتا۔بالآخر میں نے سفر کا قطعی ارادہ کر لیا۔علماء اور ارکانِ سلطنت کو جب یہ خبر ہوئی تو سب نے نہایت اصرار کے ساتھ روکا اور حسرت سے کہا کہ ’’یہ اسلام کی بدقسمتی ہے۔ایسی نفع رسانی سے آپ کا دست بردار ہونا شرعاً کیونکر جائز ہو سکتا ہے‘‘۔تمام علماء و فضلا یہی کہتے تھے لیکن میں اصل حقیقت کو سمجھتا تھا،اس لیے آخر سب چھوڑ،چھاڑ کر دفعتاً کھڑا ہوا اور شام کی راہ لی۔سچ ہے یہ شعر: ’’کوئی بھی کام خواہ کتنا ہی درست کیوں نہ ہو ، بغیر سوچ و بچار کے اچھا نہیں،لیکن ۔دنیا سے دامن چھڑانے کیلئے کسی غورو خوض کی ضرورت نہیں۔‘‘ ابن خلکان کی روایت کے مطابق امام صاحبؒ ذوالقعدہ 488ھ،عجب ذوق اور وارفتگی کی حالت میں بغداد سے نکلے،وہ بھی پُرتکلف اور قیمتی لباس کے بجائے بدن پر کمبل تھا اور لذیذ غذاؤں کے بدلے ساگ پات پر گزران تھی۔بعض روایتوں میں ہے کہ امام صاحب مدت سے ترکِ دنیا کا ارادہ کر رہے تھے،لیکن تعلقات کی بندشیں چھوٹ نہیں رہیں تھیں۔ ایک دن وعظ کر رہے تھے کہ اتفاق سے ان کے چھوٹے بھائی امام احمد غزالیؒ جو صوفی اور صاحبِ حال تھے،آنکلے اور یہ اشعار پڑھے،ترجمہ:’’تم دوسروں کو ہدایت کرتے ہو مگر خود ہدایت نہیں پکڑتے اور دوسروں کو وعظ سناتے ہو لیکن خود نہیں سنتے۔ اے سنگِ خاراں!تو اُتنے تک لوہے کو صیقل کرتا جا۔۔۔یہاں تک کہ اس میں کاٹ پیدا نہ ہو جائے‘‘۔ غرض امام صاحب ؒ نے بغداد سے نکل کر شام کا رخ کیا اور دمشق پہنچ کر مجاہدہ و ریاضت میں مشغول ہوئے۔روزانہ یہ شغل تھا کہ جامع اموی کے غربی مینار پر چڑھ کر دروازہ بند کر لیتے اور سارا سارا دن مراقبہ اور ذکر و شغل کیا کرتے۔ مسلسل دو برس تک دمشق میں قیام رہا،اگرچہ زیادہ اوقات مجاہدہ و مراقبہ میں گزرے،تاہم علمی اشغال بھی ترک نہیں ہوئے۔جامعہ اموی جو دمشق کی یونیورسٹی تھی۔اس میں غربی جانب جو زوایہ تھا وہاں بیٹھ کر ہمیشہ درس دیا کرتے تھے۔امام صاحبؒ نے تصریح کی ہے کہ’’خلوت اور ریاضت کا طریقہ میں نے تصوف کی کتابوں سے سیکھا تھا‘‘لیکن چونکہ یہ علم کتابوں سے نہیں آتا،اس لیے ضرورت کسی شیخ کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی۔تمام مؤرخین بالاتفاق لکھتے ہیں کہ امام صاحبؒ شیخ ابو علی فارمدی(افضل بن محمد بن علی) سے بیعت تھے،جو کہ بہت عالی رتبہ صوفی تھے،نظام الملک ان کا اس قدر احترام کرتا تھاکہ جب وہ دربار میں تشریف لے جاتے تو تعظیم کے لیے کھڑا ہوجاتا اور ان کو اپنی مسند پر بٹھا کر خود مؤدب سامنے بیٹھتا ۔ امام صاحبؒ نے دو برس کے بعد دمشق سے بیت المقدس کا رُخ کیا۔علامہ ذہبیؒ نے لکھا ہے کہ جب امام صاحبؒ دمشق میں تھے تو ایک دن مدرسہ امینیہ میں تشریف لے گئے،مدرس نے جو امام صاحب کو پہچانتا نہ تھا،سلسلہ تقریر میں کہا کہ ’’غزالی نے یہ لکھا ہے‘‘۔ امام صاحبؒ اس خیال سے کہ یہ امر عجب اور غرور کا سبب ہوگا،اسی وقت دمشق سے نکل کھڑے ہوئے،بہر حال دمشق سے نکل کر بیت المقدس پہنچے ،یہاں بھی یہ شغل رہا کہ’’قبۃ الصخرا‘‘کے حجرے میں داخل ہو کر،دروازہ بند کر لیتے اور مجاہدہ کیا کرتے ۔ بیت المقدس کی زیارت سے فارغ ہو کر مقام خلیل گئے جہاں حضرت ابراہیمؑ کی قبر ہے،پھر حج کی نیت سے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کا قصد کیا۔اسی سفر میں مکہ، مصرواسکندریہ پہنچے اور اسکندریہ میں مدت تک قیام رہا۔ غرض دس برس مسلسل مقامات متبرکہ میں پھرتے رہے۔اکثر ویرانوں میں نکل جاتے او رچِلّے کھینچتے،اس دلچسپ سفر کے بعض واقعات بھی تاریخ میں مرقوم ہیں،جیسا کہ امام صاحبؒ کو ایک شخص نے بیابان میں دیکھا۔۔۔اس وقت ایک خرقہ بدن پر تھا اور ہاتھ میںپانی کی چھاگل تھی،وہ ان کو چار سو شاگردوں کے حلقہ میں دیکھ چکا تھا،حیرت زدہ ہو کر پوچھا کہ کیا درس دینے سے یہ حالت بہتر ہے،امام صاحب نے حقارت کی نظر سے اس کی طرف دیکھا اور اس کی بات کو قابلِ اعتنا نہ سمجھا۔ امام صاحبؒ 499ھ میں جب مقام خلیل میں پہنچے تو حضرت ابراہیمؑ کے مزار مبارک پر حاضر ہو کر تین باتوں کا عہد کیا: ۱۔کسی بادشاہ کے دربار میں نہ جاؤں گا۔۲۔کسی بادشاہ کا عطیہ نہ لوں گا۔۳۔کسی سے مناظرہ او رمباحثہ نہ کروں گا۔ چنانچہ مرتے دم تک ان باتوں کے پابند رہے ۔ایک لمبی اور پُر مشقت جدوجہد کے بعد،امام صاحبؒ نے اپنی متاعِ گم گشتہ کو پالیا۔اس روحانی سفر سے واپسی پر امام غزالیؒ نے اپنے ذہنی قلق و فکری اضطراب کی داستان کو اپنی مشہور کتاب ’’المنقذ من الضلال‘‘میں لکھا۔اس طرح آپ نے ان راستوں کو روشن کر دیا جو’’تلاش حق‘‘کے لیے مستند اور معتبر ہیں۔ اپنی اس کتاب میں امام صاحبؒ نے دنیا پر واضح کیا کہ اگرچہ اس کائنات میں عمل کی بادشاہی ہے،لیکن وہ اکیلی حق کا سراغ نہیں پا سکتی ہے۔زندگی میں ایسے حقائق موجود ہیں جن کا ادراک صرف انسانی وجدان اور صوفیانہ ذوق ہی کر سکتا ہے۔امام صاحبؒ نے اپنی اس مختصر کتاب میں فلسفیوں اور اہل کلام کی کمزوریوں کی نشاندہی کی اور اپنے وسعت مطالعہ،بصیرت اور ذاتی تجربے کی بناء پر اپنے خیالات اور جذبات کو بیان کرنے میں انتہائی کامیاب رہے۔امام غزالیؒ فرماتے ہیں: ’’دس برس اسی حالت میں گزر گئے،ان تنہائیوں میں مجھے جو انکشافات ہوئے اور جو کچھ مجھے حاصل ہوا،اس کی تفصیل اور اس کا استقصاء تو ممکن نہیں،لیکن جاننے والوں کے نفع کے لیے اتنا ضرور کہوں گا کہ مجھے یقینی طور پر یہ معلوم ہو گیا ہے کہ صوفیاء ہی اللہ کے راستے کے مالک ہیں، ان کی سیرت بہترین سیرت،ان کا طریق سب سے زیادہ مستقیم اور ان کے اخلاق سب سے زیادہ تربیت یافتہ اور صحیح ہیں۔ اگر عقلاء کی عقل، حکماء کی حکمت اور شریعت کے رمز شناسوں کا علم مل کر بھی ان کی سیرت و اخلاق سے بہتر لانا چاہیے تو ممکن نہیں،ان کی تمام ظاہری اور باطنی حرکات و سکنات،مشکوٰۃِ نبوت سے ماخوذ ہیں اور نورِ نبوت سے بڑھ کر روئے زمین پر کوئی نور نہیں جس سے روشنی حاصل کی جائے‘‘۔