چند سال پہلے کی بات ہے ۔میں اس وقت ایک ہسپتال میں الرجی کا ٹیسٹ کروا رہا تھا جب اچانک خبر چلنے لگی کہ حنیف محمد انتقال کر گئے۔ تمام ٹی وی چینلز یہی خبر دے رہے تھے۔ حنیف محمد پاکستانی کرکٹ کا بڑا نام تھا ، دکھ ایک فطری امر تھا، میں نے ایک تعزیتی ٹویٹ کر دیا۔ اتنے میں کراچی سے ایک دوست کا فون آ گیا کہ حنیف محمد زندہ ہیں۔ کچھ وقت گزرا میں جنگل سے نکل کر پارکنگ میں پہنچا اور موبائل فون اٹھایا تو سوشل میڈیا پر عطاء اللہ عیسی خیلوی کی موت کی خبر چل رہی تھی۔کتنی ہی دیر میں دکھ میں سر پکڑ کر بیٹھا رہا۔ پھر خیال آیا کہ خبر جھوٹی بھی تو ہو سکتی ہے۔ میں نے خوف اور امید کی ملتی جلتی کیفیت میں لالے کا نمبر ملایا۔ جیسے ہی لالہ نے فون ریسیو کیا ، میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور لائن کاٹ دی۔ خوشی کی ایسی کیفیت تھی کہ بات کرنا ممکن نہ رہا۔ آج صبح اٹھا تو عثمان کاکڑ صاحب کی وفات کی خبر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی۔ ایک صاحب کا دعوی تھا کہ یہ خبر کنفرم ہے وہ وفات پا چکے ہیں اور ایک دوسرے صاحب کا اصرار تھاکہ ان کی ابھی ہسپتال میں ان کے اہل خانہ سے بات ہوئی ہے وہ بتا رہے ہیں کہ عثمان کاکڑ زندہ ہیں، ان کے لیے دعا کی جائے۔ بیٹھا یہی سوچتا رہا کہ کسی کی موت کی خبر محض افواہ ثابت ہو یا بعد میں وہ سچ نکلے ، ہر دو صورتوں میں سوال یہ ہے کہ کسی کی موت کی خبر دینے میں لوگوں کو جلدی کیا ہے۔ کیا یہ کسی بھی فرد کے اہل خانہ کا حق نہیں کہ ان پر سانحہ گر چکا ہو تو وہ یہ خبر خود دیں۔ ہمارے ارد گرد پھیلے’’ موت کے خبری ‘‘ کیوں اتنے بے چین پھر رہے ہوتے ہیں کہ کسی کے انتقال کی خبر ’’ سب سے پہلے‘‘ اپنے قارئین اور ناظرین تک پہنچا کر فرائض منصبی ادا کر سکیں۔ ہمارے رویوں کی تہذیب کب ہو گی؟ اور پھر خبر تواتر کے ساتھ آنے لگی کہ عثمان کاکڑ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ امید کے جو تنکے تھام رکھے تھے وہ ٹوٹ گئے۔ عثمان کاکڑ سے دوستی تو نہ تھی لیکن ایک تعلق خاطر ضرور تھا۔ وہ میرے متعدد ٹاک شوز میں شریک ہوئے ۔ان کے خیالات سے تو آپ واقف ہی ہوں گے البتہ میری ان کے بارے میں رائے یہ تھی کہ وہ قومیت کے دائرے میں سکڑ کر رہ گئے ہیں اور اس تنگ نظری نے نہ صرف ان کی فکر کو محدود کیا ہے بلکہ اس میں ضرورت سے زیادہ تلخی بھی بھر دی ہے۔انہیں میری رائے سے اتفاق نہ تھا اور ان کے خیال میں میری رائے ناقص تھی۔ ان کی رائے بڑی واضح اور دوٹوک ہوتی تھی۔ گاہے کسی سوال کا ایسا جواب دے جاتے کہ معاملے کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ۔ میں پروگرام کے بعد ان سے عرض کرتا کہ آپ کا مخاطب پورا ملک نہیں اس کی صرف ایک پاکٹ ہوتی ہے اورآپ کہیں کہیں بلا ضرورت تلخ ہو جاتے ہیں کیونکہ ایسا کرنا آپ کی اس پاکٹ سیاست کی ضرورت ہے۔ وہ جواب میں، وہیں کھڑے کھڑے میری فرد جرم میرے ہاتھ میں پکڑا دیتے جس میںسر محضر یہ ہوتا تھا کہ یا تو تم بزدل ہو یا تمہیں حالات کا پتا نہیں۔ عثمان کاکڑ مشکل مہمانوں میں شمار ہوتے تھے۔ سوچ سمجھ کر سوال کرنا پڑتا تھا۔ اس بات کو وہ بھی جان گئے تھے۔ دو تین ٹاک شو تو وہ مروتًا اس وکٹ پر کھیل گئے لیکن اس کے بعد وہ میرے سوال کو ایک طرف رکھ دیتے تھے کہ اس پر بعد میں بات کرتے ہیں پہلے یہاں سے آغاز کرتے ہیں۔ میں ہنستا کہ آپ میرے سوال کا نہیں اپنے ہی سوال کا جواب دیتے رہتے ہیں۔ ایک دن کہنے لگے : میری باتیں تمہیں اچھی نہیں لگتی تو بلاتے کیوں ہو؟ میں نے کہا آپ کی باتوں کو تھوڑی بلاتا ہوں ، آپ کو بلاتا ہوں۔آپ تو اچھے لگتے ہیں۔ عثمان کاکڑ کی پارٹی نظریات اور ان کے قائد محترم کے افکار سے میرے جیسا طالب علم کبھی متفق نہیں رہا۔ اچکزئی صاحب کا تو میں مختلف مواقع پر سخت اور شدید ناقد رہا ہوں۔ یہ بات عثمان کاکڑ صاحب کو بھی معلوم تھی لیکن یہ اختلاف اس تعلق خاطر کی راہ میں حائل نہ ہو سکا۔ ہم اپنے اپنے اختلافات کے ساتھ ملتے ، بات کرتے اور چل دیتے۔ عثمان کاکڑ ایک قوم پرست سیاست دان تھے۔ ایسی سیاست کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں جو آدمی کا دائرہ فکر و عمل محدود کر دیتے ہیں۔ یہی حادثہ عثمان کاکڑ پر بھی بیت گیا ۔ میں اکثر سوچتا کہ ایسا کیا ہوا اور کیوں ہوا کہ عثمان کاکڑ جیسے لوگ قومی سیاست کی آواز بننے کی بجائے ایک محدود قومی اور لسانی دائرے کے ہو کر رہ گئے۔ اپنی پشتون شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے انہیں قومی سیاست میں ایک کردار ادا کرنا چاہیے تھا لیکن وہ قوم پرست سیاست تک محدود رہے۔ ایسا کیوں ہوا۔ ہمارا دائرے پھیلنے کی بجائے سکڑتے کیوں گئے؟ ہم میں سے کس کس سے کہاں کہاں کیا غلطی ہوئی کہ ہم سب اپنے اپنے دائروں کے ہو کر رہ گئے اور ان سے باہر نہ آ سکے؟ قوم پرست طرز سیاست نے مجھے کبھی متاثر نہیں کیا لیکن میں اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ قوم پرست سیاست دان مجھے اچھے لگے۔ وہ بی این پی کے سینیٹر جہانزیب جمالدینی ہوں ، ثناء بلوچ ہوں یا عثمان کاکڑ۔سب ہی اچھے لگے۔ اور ایک ہی سوال بار بار سے لپٹتا رہتا ہے کہ یہ قومی سیاست کی آواز کیوں نہیں بن سکے۔یہ سوال آج بھی اپنی پوری معنویت کے ساتھ موجود ہے اور ہمیں بطور قوم دعوت فکر دے رہا ہے۔ عثمان کاکڑ کی خدا قبر منور کرے۔ مجھے اس بات سے اتفاق نہیں کہ یہ صرف پشتون قوم کا دکھ ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ سارے پاکستان کا دکھ ہے۔میں پشتون نہیں نہ ہی مجھے پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کی پالیسیوں سے اتفاق ہے لیکن مجھے عثمان کاکڑ کے یوں چلے جانے کا دکھ ہے۔ یہ سکھ سانجھا ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے دائرے ہمیں پاٹنا ہوں گے۔ یہ سفر کیسے ممکن ہو گا ، یہ سب کے سوچنے کا مقام ہے۔