مسلمانوں کا ایک فرقہ خوارج یا خارجی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ایک عرب ملک ایسا ہے جہاں اس فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی اکثریت ہے۔ یہ سینتالیس لاکھ آبادی کا ملک عمان ہے جہاں معتدل قسم کے خارجی مسلک سے تعلق رکھنے والے عربوں کی اکثریت ہے۔ انہیںعبادی بھی کہا جاتا ہے۔ عمان ہمارے ہمسایہ میں واقع ہے کیونکہ بحیرۂ عرب کے مشرق میں پاکستا ن واقع ہے اور مغرب میں عمان،سمندر کے اس حصہ کو بحیرۂ عمان بھی کہتے ہیں۔ ہمارے ساحلی شہرگوادرسے عمان کے دارلحکومت مسقط کی بندرگاہ تقریباً چار سو کلومیٹر کے فاصلہ پرہے۔ گوادرانیس سو پچاس کی دہائی کے اواخر تک عمان کی ملکیت میں تھا۔ وزیراعظم فیروز خان نون نے تیس لاکھ ڈالر کے عوض اسے عمان سے خرید کر پاکستان کا حصہّ بنایا تھا۔ پاکستان اور عمان نسلی رشتوں میں بھی بندھے ہوئے ہیں۔بلوچوں کی بڑی تعداد عمان میں آباد ہے جو بہت عرصہ پہلے ہجرت کرکے وہاں چلے گئے تھے۔۔ اسکی آبادی کا اچھا خاصا حصہ سندھی نژاد بھی ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے بعد جن ملکوں کے بارے میں عام خیال ہے کہ وہ جلد اسرائیل کو تسلیم کرکے اس سے سفارتی تعلقات قائم کرلیں گے ان میں سر فہرست عمان کا نام ہے۔گزشتہ ہفتہ وائٹ ہاؤس میں اسرائیل ‘ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے درمیان معاہدہ پر دستخط کی جو تقریب منعقد ہوئی اس میںعمان حکومت کا نمائندہ بھی شامل تھا۔ مسقط کی حکومت نے بحرین کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فیصلہ کا فوراًخیر مقدم کیا۔اسرائیل اور عمان کے وزرائے خارجہ نے ٹیلی فون پر ایک دوسرے سے بات چیت بھی کی۔ عمان کے اسرائیل سے کھلم کھلا تعلقات کی تاریخ کم سے کم سولہ سال پرانی ہے۔ مرحوم بادشاہ سلطان قابوس کے زمانہ سے ہی مسقط نے اسرائیل سے غیررسمی تعلقات استوار کرلیے تھے۔ انیس سو چورانوے میںاسرائیلی وزیراعظم اضحاک رابن نے عمان کے بادشاہ کی دعوت پرمسقط کا دورہ کیا تھا۔ انیس سو چھیانوے میں اسرائیلی وزیراعظم شمعون پیریز نے عمان کے مغربی شہرصلالہ کا دورہ کیا تو دونوں ملکوں نے باہمی تجارتی معاہدہ پر دستخط کیے۔ اس دورہ کے دوران میںصلالہ ائیرپورٹ پر اسرائیل کا جھنڈا لہرایا گیا اور قومی ترانہ پڑھا گیا۔ دو سال پہلے اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنی بیوی کے ہمراہ مسقط کا دورہ کیا تھا تو انکا سربراہ مملکت کے طور پرشاندار استقبال کیا گیا تھا اور عمان کے سرکاری میڈیا نے انہیں عزت مآب کہہ کر پکارا تھا۔سلطان قابوس پچاس برس حکومت کرکے اس سال جنوری میں انتقال کرگئے تو حیثم بن طارق بادشاہ بنے۔ انہوں نے بھی اپنے پیشرو کی پالیسی کو جاری رکھا۔ عمان ایک ایسا عملیت پسند ملک ہے جس نے اسرائیل اور ایران دونوںملکوں سے دوستانہ تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں حالانکہ مشرق وسطیٰ کی سیاست میں دونوں ایک دوسرے کے حریف سمجھے جاتے ہیں۔ مسقط کا ایران سے فوجی تعاون کا معاہدہ موجود ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ عمان کے سعودی عرب اور قطر سے بھی اچھے مراسم ہیں گو کہ ان دونوں ملکوں کی ایک دوسرے سے سخت عداوت ہے۔حال ہی میں جب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے قطر کی ناکہ بندی کی مسقط نے قطر کو اپنی بندرگاہوں سے تجارت کرنے کی اجازت دی جس سے قطر پر ان پابندیوں کا منفی اثر کم ہوگیا۔یمن کی خانہ جنگی میں بھی عمان نے فریقین میں مذاکرات کرانے کا اہتمام کیا۔ دو ہزار تیرہ میں عمان نے امریکہ اور ایران میں ایٹمی پروگرام کے معاملہ پر خفیہ بات چیت شروع کروائی جسکے نتیجہ میں تین برس بعدایران کاچھ مغربی ملکوں کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا۔ عمان عرب دنیا میں ایک غیرجانبدارملک کے طور پر اپنی پہچان رکھتا ہے جس نے دشمنیاں پالنے کی بجائے سب ممالک سے بہتر رشتے بنائے رکھنے کی پالیسی اختیار کی ہے۔ ایران اور عراق کے درمیان انیس سو اسی کی دہائی میں ہونے والی آٹھ سالہ جنگ کے دوران میںعمان نے غیرجانبدار رہنے کی پالیسی اختیار کی حالانکہ اسکے ایران سے دیرینہ اچھے تعلقات تھے۔البتہ جب اُنیس سو نوّے میں امریکہ نے عراق پر پہلی بار حملہ کیا تو عمان نے امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک کی مدد کی اور انہیں اپنی سرزمین پر فوجی اڈے فراہم کیے۔ عمان ایساملک ہے جسکی بحری تجارت کے اعتبار سے بہت اہمیت ہے۔ اسکے جنوب میں بحر ہند ہے اور مشرق میں بحیرہ عرب اور آبنائے ہرمز۔خلیج فارس میں آبنائے ہرمز وہ تنگ سمندری مقام ہے جسکے مشرق میں ایران واقع ہے اور یہ خطرہ موجود رہتا ہے کہ تناؤ بڑھنے کی صورت میں ایران اس تنگ سمندری مقام میں بحری تجارت اور دنیا کو تیل کی ترسیل بند کرسکتا ہے۔ اسی لیے امریکہ اور اسکے اتحادی آبنائے ہرمز کے کنارے عمان پراپنی موجودگی ضروری سمجھتے ہیں تاکہ وہاں سے فوجی کاروائی کرکے ایران کو اس بحری راستے میں رکاوٹ ڈالنے سے روک سکیں۔ عمان بحر ہند پر واقع دقم کے ساحلی شہر کو ایک صنعتی مرکز کے طور پر ترقی دے رہا ہے۔ برطانیہ اور جنوبی کوریا نے اس بندرگاہ کو بنانے میں مدد کی ہے۔ چین یہاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے۔ ایران یہاں کار بنانے کا پلانٹ لگارہا ہے۔ سعودی عرب کی بھی اس شہر میں سرمایہ کاری ہے۔ اگر توقع کے مطابق مسقط کے بادشاہ اسرائیل کو تسلیم کرکے اس سے سفارتی تعلقات قائم کرلیتے ہیں تو اسرائیل کے لیے بھی یہاں سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ عمان کی دو تہائی قومی دولت تیل پر مشتمل ہے لیکن اسکے ذخائربہت تیزی سے کم ہورہے ہیں۔ اس لیے مسقط کے بادشاہ اپنے ملک کو صنعتی ترقی کی طرف لیجانا چاہتے ہیں۔ عمان اور یمن دونوںبحر ہند سے متصل شمال میںساتھ ساتھ واقع ہیں۔ ایک ملک خوشحال اور دنیا کے تمام ملکوں سے اچھے تعلقات کی مثال ہے جبکہ دوسرا ملک خانہ جنگی اور غربت کا شکار۔عمان نے اپنے جغرافیائی محل وقوع کا جس طرح فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی آزادی اور غیرجانبداری قائم رکھی ہے اُس میں پاکستان کے لیے بڑا سبق ہے۔ ہم بھی خطہ کے دوسرے ملکوں کی عداوت میں فریق بنے بغیراور کسی ایک ملک پر مکمل انحصار کیے بغیر اپنی آزادی ‘خود مختاری اور معاشی ترقی کے راستے کو اختیار کرسکتے ہیں۔