مائنس تھری کا تصور کس نے پیش کیا تھا؟ اس سوال کا جواب کوئی نہیں جانتا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ تصور کسی نے پیش نہیں کیا۔ کسی مقام اور کسی ادارے میں یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ پاکستان کی سیاست کو ان تین افراد سے الگ کرنا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں صرف ان تین لیڈروں کی وجہ سے گڑبڑ نہیں ہے۔ اصل مسئلہ افراد کا نہیں۔ اصل مسئلہ سسٹم کا ہے۔ سیاسی جماعتیں ملکی سسٹم پر دوش دیتی ہیں۔ مگر انہوں نے کبھی اس بات پر نہیں سوچا کہ یہ سسٹم کئی جماعتوں سے شروع ہوتا ہے۔اس وقت ایم کیو ایم ٹکڑوں میں تبدیل ہوچکی ہے۔ کیا اس کا سبب صرف اسی کا بانی تھا؟ ایم کیو ایم کے زوال کا سبب اس پارٹی کا سسٹم تھا۔ اگر اس کے بانی کی مٹھی میں پارٹی قید تھی تو اس کا سبب بھی وہ سسٹم تھا جس سسٹم کی وجہ سے ایم کیو ایم متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود بھی وہ منزل حاصل نہ کرسکی جس منزل پر وہ پہنچ سکتی تھی۔ اس وقت ایم کیو ایم ایک منظم اور جمہوری قوت نہیں بن پا رہی۔ ایم کیو ایم کا اصل مسئلہ بانی جماعت نہیں وہ سسٹم تھا جس نے اسے ایسا بنایاتھا۔ جس نے کراچی کو قتل گاہ میں تبدیل کیا۔ جس نے مہاجروں کو منزل دینے کے بجائے مقتل میں کھڑا کیا۔ جس نے ایک بہت بڑے شہر کو یرغمال بنا دیا۔ جس نے تعلیم کو تباہ کیا۔ جس نے اردو ادب اور زبان کی ترقی کا راستہ روک دیا۔ جس نے جرم اور سیاست کے درمیان والی سرحد کو ختم کردیا۔ وہ سسٹم آج بھی ایم کیو ایم کی شکستہ وجود میں آخری سانسیں لے رہا ہے۔ ایم کیوایم کی طرح مسلم لیگ ن بھی ایک مخصوص سسٹم کی اسیر ہے۔ یہ کیسی جمہوری پارٹی ہے جو ایک خاندان کے گرد گردش کر رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کو پاکستان کے عوام نے ایک طاقت عطا کی۔ مسلم لیگ ن کو پاکستان کے عوام نے ایک عزت عطا کی۔ پاکستان کے عوام نے مسلم لیگ ن کو اتنا مینڈیٹ دیا کہ مسلم لیگ ن تین بار اقتدار میں آئی اور اس سسٹم کی وجہ سے تینوں بار وزارت عظمیٰ کے مسند پر میاں نواز شریف براجمان ہوئے۔ کیا اس پارٹی میں میاں صاحب کے علاوہ اور کوئی باصلاحیت شخص نہیں تھا۔ اگر پچھلی بار میاں نواز شریف کے بجائے وزیر اعظم چودھری نثار کو بنایا جاتا تو آج مسلم لیگ ن کے حالات ایسے نہ ہوتے۔ آج شریف خاندان کے دونوں چشم و چراغ جیل میں ہیں ۔ اور مسلم لیگ ن پورے سیاسی دھارے سے کٹی ہوئی ہے۔ اس کا سبب وہ سسٹم ہے جس سسٹم نے ایک جمہوری پارٹی پر ایک خاندان کو مسلط کردیا۔ اگر میاں نواز شریف نااہل قرار دیے جاتے ہیں تو پارٹی کی سربراہی میاں شہباز شریف کے سپرد کی جاتی ہے۔میاں نواز شریف اپنی زندگی میں اپنی بیٹی کو اپنی جگہ پر دیکھنے کی کوشش میں پارٹی کو بند گلی میں لے جاتے ہیں اور ان کو کوئی روکتا نہیں ہے۔ یہ کیسی پارٹی ہے۔ہے تو پارٹی مگر وہ پارٹی کی طرح کام نہیں کرتی۔ یہ پارٹی کم اور ایک بزنس زیادہ ہے۔ جس پارٹی کا لیڈر اس بزنس فرم کا باس ہے۔ وہ سفید و سیاہ کا مالک ہے۔ اس کی مرضی ہے کہ وہ پارٹی کے لیے کوئی بھی فیصلہ کرے۔ مسلم لیگ ن کے اندر موجود سسٹم کی وجہ سے آج مسلم لیگ ن اقتدار سے باہر ہے اور میاں برادران جیل کے اندر ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی اس سسٹم کی اسیر ہے جس سسٹم نے نہ پارٹیوں کو مضبوط بننے دیا اور نہ جمہوریت کو مستحکم کرنے میں کوئی مدد کی۔ پیپلز پارٹی پر آج بھی وہی سسٹم راج کر رہا ہے جس سسٹم کے باعث پیپلز پارٹی پاکستان سے سکڑ کر سندھ کی پارٹی بن کر رہ گئی ہے۔ پیپلز پارٹی پر ایک خاندان کا قبضہ بھی اس سسٹم کی وجہ سے جس سسٹم نے پیپلز پارٹی کو ایک جمہوری پارٹی بننے سے روک کر رکھا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں نام کے علاوہ اور کوئی خاص فرق نہیں۔ دونوں جماعتوں کے کام ایک جیسے ہیں۔ دونوں جماعتوں کا کردار ایک جیسا ہے۔ اس کا سبب وہ سسٹم ہے جس سسٹم نے دونوں پارٹیوں کو جکڑ رکھا ہے۔ جو سسٹم دونوں پارٹیوں کو کمزور کر رہا ہے۔ اگر پیپلز پارٹی بھی چاہتی ہے کہ وہ اس بحران سے باہر آئے تو اس کو اس سسٹم کو توڑنا ہوگا۔ جس سسٹم کی اسیری نے جمہوری سیاست کرنے والی جماعتوں کو مکمل طور پر غیر جمہوری جماعتوں میں تبدیل کردیا ہے۔ اس وقت نہ صرف سندھ بلکہ پورے پاکستان میں سیاسی مبصر اس سوال پر سوچ رہے ہیں کہ آصف زرداری کب گرفتار ہونگے؟ ا ب اس سوال سے یہ سوال بھی جڑنے لگا ہے کہ آصف زرداری گرفتار ہونگے یا نہیں ؟ کیوں کہ مخصوص حلقوں میں یہ بحث بھی چل نکلی ہے کہ زرداری اور اسٹیبلشمنٹ میں کوئی سمجھوتہ ہو رہا ہے۔ وہ سمجھوتہ ہوگا یا نہیں ہوگا؟ اس سوال سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا زرداری کسی سمجھوتے کی وجہ سے اب تک باہر ہیں؟ یہ معاملہ افراد کا نہیں۔ یہ معاملہ سسٹم کا ہے۔ اس سسٹم کا جس سسٹم کی وجہ سے زرداری پیپلز پارٹی کی قیادت پر قابض ہیں۔ حالانکہ آصف زرداری کا پیپلز پارٹی سے وہ رشتہ نہیں ہے جو رضا ربانی کا ہے مگر ہمارے مخصوص سسٹم نے زرداری کو آگے کردیا ہے اور رضا ربانی جیسے سینئر اور تجربہ کار سیاستدان کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ پاکستان میں جب بھی اس سسٹم کے خلاف بات ہوتی ہے تو فوری طور پر ایشیا کے ان ممالک کا حوالہ پیش کیا جاتا ہے جن میں خاندانی سیاست کا سکہ چلتا ہے۔ کبھی بھارت میں کانگریس کی بات کی جاتی ہے اور کبھی بنگلادیش میں عوامی لیگ کی مثال پیش کی جاتی ہے۔ کبھی سری لنکا تو کبھی برما اور پھر بات امریکہ کے بش خاندان تک بڑھ جاتی ہے۔ انگریزی میں کہتے ہیں کہ ’’دو غلط مل کر ایک درست نہیں کرسکتے‘‘ اگر دونہیں بلکہ دس بھی غلط ہوں تو غلط ہی ہونگے۔ پاکستان کے موجودہ حالات ہمیشہ کی طرح بحران کا شکار ہیں۔ ابھی تحریک انصاف کی حکومت کو چار ماہ بھی نہیں گذرے اور حکومت گرانے کے لیے پاکستان کے مخصوص کردار سرگرم ہوگئے ہیں۔ یہ اس سسٹم کے چوکیدار ہیں جس سسٹم کی وجہ سے پاکستان کی سیاسی سرزمین میں جمہوریت جڑ نہیں پکڑ سکی۔ اس وقت اقتدار میں عمران خان ہیں مگر بلاول بھٹو زرداری کے لیے نئے سیاسی آغاز کی راہ نکل سکتی ہے۔ اگر آصف زرداری اپنے بیٹے کو کھل کر کھیلنے دیں تو وہ نہ صرف اپنا شاندار سیاسی کریئر بناسکتا ہے بلکہ اپنے والد کو بھی قید و بند کی صعوبتوں سے بچا سکتا ہے۔ مگر افسوس کہ پیپلز پارٹی کے اندر موجود مخصوص سسٹم آصف زرداری کو اس بات کے لیے راضی نہیں کرسکتا کہ وہ اپنے بیٹے کی ترقی کی راہ سے ہٹ جائیں۔ عمران خان کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ حکومت گنوانا پسند کریں گے مگر نہ میاں نواز شریف سے ہاتھ ملائیںگے اور نہ آصف زرداری کا ہاتھ تھامیں گے۔ عمران خان کی اس مجبوری کو پیپلز پارٹی میں موجود سمجھدار لوگ اچھی طرح سے سمجھ رہے ہیں ۔ مگر مخصوص سسٹم کی وجہ سے ان کی زباں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔ وہ پارٹی کی اہم اجلاسوں میں کھل کر اس بات کا اظہار نہیں کرتے کہ اگر آصف زرداری وقتی طور پر سیاست سے الگ ہوجائیں تو عمران خان بلاول بھٹو زرداری سے ملنے کے لیے خود زرداری ہاؤس آئیں گے۔ عمران خان اپنے اصولوں کے اسیر ہیں۔ انہوں نے پوری قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار بچانے کے لیے وہ ہاتھ نہیں تھامے گے جو ہاتھ کرپشن کی وجہ سے گندے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں چیف جسٹس نے بھی کہا ہے کہ وہ معصوم ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ ابھی تک کرپشن میں گندے نہیں ہوئے۔ بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ صاف ہیں۔ پیپلز پارٹی کو بلاول بھٹو زرداری کے صاف ہاتھوں کا فائدہ حاصل کرنا چاہئے۔ پیپلز پارٹی کو چاہیے کہ وہ آصف زرداری کو پیچھے کرے اور بلاول کو آگے لائے۔ عمران خان او ربلاول بھٹو کے صاف ہاتھ نہ صرف حکومت بلکہ ملک کو بھی مضبوط کر سکتے ہیں۔ مگر اس بہت بڑی پیش رفت میں وہ مخصوص سسٹم رکاوٹ بنا ہوا ہے جس سسٹم کی اسیری میں ہماری سیاست کے بال سفید ہوگئے ہیں مگر اس کو ابھی تک سمجھ نہیں آئی۔