کیا ہم سب بھاگتے بھاگتے تھک نہیں گئے؟ پرانی بات ہے کہ چلے چلو کہ منزل ابھی نہیں آئی۔ کیوں؟ کیونکہ ہم بھاگ رہے ہیں، سرابوں کے پیچھے، کہانیوں کے سنگ۔ کبھی مائنس قائداعظم… اور کبھی مائنس لیاقت علی خان۔ پھر پلس ایوب خان سے مردِ مومن مردِ حق او رپھر مائنس بھٹو اور پھر اور پھر … وہی پرانی کہانی اور وہی پرانا ’’دی اینڈ‘‘۔ رات ملا تھا ناصر مجھ کو تنہا اور اُداس … وہی پرانی باتیں اس کی، وہی پرانا روگ۔ کئی نسلیں آئیں اور تھک کے مر گئیں۔ زوال کا سفر… مسلسل زوال … زوال آ بھی چکا اور پورے کمال سے آیا۔ مسئلہ یہ نہیں کہ کون کون آیا اور کیا کیا کر گیا۔ الجھن یہ ہے کہ بار بار ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم مسلسل کنویں سے پانی نکال رہے ہیں مگر کنویں کے اندر کوئی مرد جانور ہے جو ہمارے پانی کو مسلسل گدلا اور گندا کر رہا ہے؟ کیا ہم بدعائے ہوئے ہیں؟ میں میٹرک میں تھا جب بھٹو کو ہٹانے کے لیے پاکستان قومی اتحاد (نو ستارے) احتجاج کر رہا تھا۔ ٹارگٹ کیا تھا؟ بھٹو نے الیکشن میں دھاندلی کروائی ہے۔ الیکشن دوبارہ ہوں۔ پھر بات نئے الیکشن سے سارے ملک میں اسلام نافذ ہونے تک دراز ہوتی چلی گئی۔ بھٹو کا مزاج اُسے طے شدہ راستے کی طرف لے جارہا تھا۔ منیر نیازی کے مطابق: کجھ شہر دے لوک وی ظالم سَن … کجھ سانوں مرن کا شوق وی سی۔ بھٹو خود کو سیاست کا میکائولی اور ہنی بال سمجھتے تھے۔ مگر پاور پلے کی بدلتی رُتوں کا ادراک نہ کرسکے اور بچھی ہوئی بساط پر وہ شہ مات کھا گئے کہ کوئے یار سے نکلے تو سوے دار چلے! مگر ان کے کوئے یار اور سوئے دار نے پاکستان کو کیا دیا؟ کوئی کہے گا غریب کو زبان دی، کوئی ایٹم بم کی بات کرے گااور کوئی کچھ لیکن غور سے دیکھو تو یہ بھی بدلتی رتوںمیں پرانا موسم تھا۔ اس وقت بھی حرکت تیز تر تھی مگر سفر آہستہ آہستہ۔ تب بھی اور اب بھی۔ دائروں کا سفر ہے، رائیگانی کا سفر ہے۔ ضیاء الحق آئے اپنی یادگاری شیلڈز دے گئے اور پھر بے نظیر، نواز شریف … بی بی اور بابو۔ پھر وہی سرے محل اور ایون فیلڈ نوٹ چھاپنے کے لیے سائنٹفک جوگاڑ۔ کسی کے پاس آصف زرداری تھا اور کسی کے پاس سلمان شہباز۔ ایک دوڑ تھی … امیتابھ بچن کے پروگرام کون بنے گا کروڑ پتی جیسی۔ مگر ہمارے ہاں یہ دوڑ تھی کہ کون بنے گا ارب پتی۔ سنگل Digit سے ڈبل Digit ارب پتی بننے کی۔ جب وہ ان ستونوں کو بھی کھوکھلا کرنے لگے جن پر ریاست کی عمارت کھڑی تھی تو کچھ کوارٹرز میں کان کھڑے ہوگئے۔ پھر طے پایا کہ یہ جو لاٹ تھی سیاستدان اس سے جان چھڑائی جائے۔ خان دودہائیوں سے شدید جدوجہد کر رہا تھا مگر بات تھی کہ ’’لینا ایک نہ دینے دو‘‘ سے آگے نہیں بڑھ رہی تھی۔ مگر کچھ پنڈت جو بی بی اور بابو سے استفادہ کرنے والوں میں نہیں تھے ان میں سے ایک نے ’’تھرڈ فورس‘‘… یعنی تیسری قوت کا آئیڈیا ڈراپ کیا۔ مگر تب یہی بات لگتی تھی … بہت دور کی بات۔ ہر دیش کی طرح ہمارے ہاں بھی ایک اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے جو خود کو قومی مفاد کا ’’گارڈین‘‘ قرار دیتی ہے۔ کیوں نہ دے، اگر یہ نہ ہو تو ہمارے سیاستدان پورا ملک بیچ دیں اور رقم سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں جمع کروا کر خود جیلوں میں بیٹھ کر نیب کی انکوائریاں بھگتیں اور مظلوم تصور ہونے لگیں۔ اسی اسٹیبلشمنٹ نے تیسری قوت کے سر پر دست شفقت رکھا اور ہم تھوڑا سا اور آگے آگئے۔ تھیوری یہ تھی کہ اگر ٹاپ مین فنانشل اعتبار سے کرپٹ نہ ہو تو اس کا ٹرکل ڈائون اثر نیچے تک جاتا ہے۔ اس کی ٹیم اور بیوروکریسی کرپشن کی جرأت نہیں کرتی اور رفتہ رفتہ بات کوبکو پھیل جاتی ہے۔ مگر یہ کون سی نیوٹن، گلیلیو یا آئن سٹائن کی تھیوری تھی بساط پر یہ آتے ہی سر کے بل کھڑی ہوگئی۔ اس کی تعمیر میں مضمر تھی صورت خرابی کی۔ اس کی ناتوانیوں کو انرجی بخشنے کے لیے اس میں بھان متی کا کنبہ بھرتی کروایاگیا۔ خان مردم شناس نہیں ہے۔ سیاسی بھرتی ہی کچھ کم تابناک نہ تھی کہ مشیروں کی شکل میں ٹیکنوکریٹس بھی آگئے۔ جب رزاق دائود، ندیم بابر … اور خسرو پرویز جیسے لوگ اِردگرد ہوں؛ پالیسی سازی میں پیش پیش ہوں اور پھر سونے پر سہاگہ بیوروکریسی کا انتخاب … مزید نورانی فیصلہ… پنجاب اور کے پی کے میں کمزور مہرے۔ دو سال گزر گئے۔ تجربہ ناکام ہوگیا۔ اب یہاں سے کہاں جائیں ہم۔ آصف زرداری سے آل شریف تک آپشنز کا جواب فی الحال ’’نو‘‘ میں ہے۔ خان مسکرا کر اسمبلی میں کہتا ہے ’’میرے علاوہ چوائس ہی کوئی نہیں… اور یہ بھی کہ مائنس ون ہو بھی گیا تو احتساب ہوتا رہے گا‘‘۔ سب پنڈت شروع ہوگئے۔ اگر یہ گیا تو کون آئے گا؟ تبدیلی اندر سے آئے گی یا باہر سے؟ سارا میڈیا اور پنڈت غلط دروازوں پر دستک دے رہے ہیں۔ بات زلف کی نہیں ڈیئرز بات رخسار کی ہے۔ آپ کو بھی پتہ ہے اور دیگر کو بھی۔ یہ جمہوریت نہیں ہے۔ ڈکٹیٹر شپ بھی نہیں ہے۔ یہ مرد بھی نہیں اور عورت بھی۔ تو پھر یہ امتزاج ہے دونوں کا۔ اس لیے ڈلیور نہیں کر رہا۔ ضرورت ہے ایک نئے معاہدہ عمرانی کی۔ ایک نئے روڈ میپ کی۔ ایک واضح نظام کی۔ آئوٹ آف باکس سوچ کی۔ 72 سال کا گوشوارہ بنائو۔ سوال وہی ہیں مگر جواب آج تک غلط ہیں۔ کیوں؟ بس اتنا سا میرے ملک کا گوشوارہ ہے … حساب نکال کر دیکھو تو بس خسارہ ہے۔ ناصرہ زبیری صاحب کے شعر کو قتل کرنے کی پیشگی معذرت۔ مگر آج جہاں پاکستان کھڑا ہے کورونا، ورلڈ بینک، اقتصادیات، آبادی، جہالت، لیڈرشپ کا قحط، سب انڈے بچے ہیں اس گلے سڑے نظام کے جو مر چکا ہے مگر ہم اس کے منہ سے وینٹی لیٹر ہٹانے سے جھجھک رہے ہیں۔ مزید حکایت پھر سہی۔