اندیشہ ہے کہ خلا باقی رہا اور اب کی بار دھماکہ ہوا توبہت زوردار ہوگا ۔ کون جانے پھر کیا ہو ۔ مانو نہ مانو جانِ جہاں اختیار ہے ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں سال رواں کے آخر میں بلدیاتی الیکشن بہر حال ہونا ہیں۔ سرکاری پارٹی مگر شش و پنج میں ہے اور دوسری جماعتیں بھی۔ شنید ہے کہ لاہور میں قومی اسمبلی کے ارکان سے وزیر اعظم کی ملاقات میں،اس موضوع کا ذکر ہوا تو گھبراہٹ سارے میں پھیل گئی۔ بیک آواز سب کے سب بول اٹھے کہ یہ خطرناک ہو گا۔ کامیابی کا امکان دور دور تک نہیں۔ یہ کہتے ہوئے خان چلے گئے کہ الیکشن تو ہو کر رہیں گے، آپ لوگ تیاری کریں۔ اراکینِ اسمبلی کی پریشانی کا سبب فقط یہ نہیں کہ مہنگائی اور بے روزگاری کے طوفان نے پارٹی کی مقبولیت دھندلا دی ہے ۔ فقط یہ بھی نہیں کہ تنظیم میں ابتری ہے ۔ ان گنت گانٹھیں لگی ہیں ، کسی طرح جو کھولی نہیں جا سکتیں۔ فکر مندی یہ بھی ہے کہ بلدیاتی ادارے، ضلعی حکومتیں اور ذیلی شہری ادارے بروئے کار آئے تو ان کی اہمیت کم ہوتی جائے گی ۔ ان کے گرد جمع ہونے والے ہجوم چھٹتے چلے جائیں گے، امیدیں نئے با اختیار لوگوں سے وابستہ ہوتی جائیں گی ۔ پاکستان کی پوری تاریخ میں بلدیاتی اداروں کی اہمیت کا پوری طرح کبھی ادراک نہیں کیا گیا ۔ کبھی کچھ کام ہوا بھی تو فوجی حکمرانوں کے دور میں، بالخصوص جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں سنجیدگی سے ریاضت کی گئی ۔ اختیارات بھی بڑھا دیے گئے ۔ شکوک و شبہات کے سائے مگر ان پر دراز رہے ۔ دراز کہ اصل میں یہ عسکری حکمران کی توسیع ہیں ۔ سیاسی جماعتیں بہرحال اس میدان میں کبھی کوئی کارنامہ انجام نہ دے سکیں ۔ کچھ ہوا تو وردی والوں کے دور میں ۔ کامل اس فرقہ ء زہادمیں اٹھا نہ کوئی کچھ ہوئے بھی تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے بظاہر یہ ایک پیچیدہ سوال ہے کہ سیاسی پارٹیاں طاقتور بلدیاتی ادارے کیوں نہیں چاہتیں۔ صدارتی یا پارلیمانی ،دنیا بھر میں جہاں کہیں جمہوریت کی کوئی بھی موثر صورت رائج ہے ، بلدیاتی ادارے اس کی اہم ترین بنیاد ہوتے ہیں ۔ ہمارے لیڈر ان سے کیوں چڑتے ہیں ۔ ان سے بھاگتے اور گریز پا کیوں رہتے ہیں ۔ اس سوال کا کوئی جواب اس کے سوا نہیں ہو سکتاکہ وہ اپنے اختیارات سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے ۔ احساسِ عدمِ تحفظ کے مارے ہوئے لوگ۔ اٹھارویں ترمیم کی تشکیل وہ مرحلہ تھا ، جب یہ کام سہولت سے نمٹایا جا سکتا۔ ایک ایک چیز پر اتفاقِ رائے ہو گیا ۔ نواز شریف کے تیسری بار وزیرِ اعظم بننے کی راہ ہموار ہو گئی ۔ سرحد کا نام بدل کر خیبر پختون خوا رکھ دیا گیا ۔ہر چند کہ ہزارہ ڈویژن والے چیختے رہے ۔ ہر چند کہ اباسین ایسے خوبصورت نام نظر انداز کر دیے گئے مگر خاندانی لیڈر اپنی راہ ہموار کرنے پر تلے تھے۔ ادھر افتادگانِ خاک کا وہی عالم تھا جو کسی مجروح و مجبور عاشق کا۔ ترسے ہیں ایک بوسۂ پا کو بھی عمر بھر ویران جنگلوں میں اگی گھاس کی طرح صوبوں کے اختیارات میںاضافہ ہوا اور بے محابا اضافہ ۔ اتنا کہ فیڈریشن پر کنفیڈریشن کا گمان ہونے لگا۔ صوبوں کی استعدادِ کار میں اضافہ کیے بغیر ہر ممکنہ چیز انہیں سونپ دی گئی ۔ ڈاکٹر عاصم نے میڈیکل کالجوں کا اتوار بازار لگایااور کہا جاتاہے کہ سینکڑوں ارب سمیٹ لیے۔ نہ سنی گئی تو بلدیاتی اداروں کی نہ سنی گئی ۔ جو جمہوری نظام کی بنیاد ، اس کا تخم ، اس کا ثمر اور اس کا پرچم ہیں ۔ اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد زرداری صاحب کی صوبائی حکومت کے بارے میں ایک چیف سیکرٹری نے کہا تھا : اس کے چار بنیادی طریق ہیں ۔ کوئی تبدیلی اور تعیناتی ادائیگی کے بغیر نہیں ہوگی ۔ ثانیاً کوئی نوکری معاوضے کے بغیر عطا نہیں کی جائے گی ۔ ثالثاً ترقیاتی بجٹ کا کم از کم ایک تہائی پہلے ہی وصول کر لیا جائے گا ۔ رابعاًکراچی اور حیدر آباد سمیت بڑے شہروں میں کوئی قیمتی ’’جائیداد‘‘ شاہی خاندان کی مرضی کے بغیر خرید و فروخت کے مراحل طے نہ کرے گی ۔ ایک وزیرِ اعلیٰ یاد آتے ہیں ۔ ان کے سیکرٹریٹ سے گزر ہوا تو اتفاقاً آمنا سامنا ہو گیا۔ میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے دفتر میں لے گئے ۔ کسی وجہ سے کچھ ناراض تھے ۔ اب مگر ان کی آرزو ماحول بہتر بنانے کی لگی ۔ ناچیز کی خواہش بھی یہ تھی کہ تلخی کم ہو جائے کہ ذاتی جھگڑا تو کوئی ہے نہیں ۔ حال پوچھا تو بولے : سب سے بڑا دردِ سر تو بلدیاتی ادارے ہیں ۔ انہیں کس طرح ساتھ لے کر چلا جائے ۔ باہر لائونج اور ڈرائنگ روم میں ان کے درجنوں ملاقاتی جون کے آگ برساتے موسم میں سکنجبین کی بجائے آڑو کا رس پی رہے تھے ۔ دیواروں کے پردے ایسے کہ نگاہ خیرہ ہوتی۔ جدھر نگاہ اٹھتی ، مرعوب کر دینے والے قیمتی قالین نظر آتے۔ ادھر اس غم میں وہ مبتلا تھے کہ اختیارات کا بھرپور لطف نہ اٹھایا تو حصولِ اختیار کی جاں گسل جدوجہد کا فائدہ کیا۔ اتفاق سے ایک نیا الیکشن کمیشن ابھی ابھی قائم ہوا ہے ۔ اتفاق سے اس کا سربراہ ایک نیک نام سول سرونٹ ہے ۔معجزانہ طور پر جسے چن لیا گیا ۔ اتفاق سے وزیرِ اعظم بلدیاتی اداروں کے قائل ہیں ۔ایک صوبے میں جس کا وہ تجربہ کر چکے اور اس پر شاد ہیں ۔ بلدیاتی اداروں کی تشکیل کے لیے یہ ایک سنہری موقع ہے ۔ آئے دن اقوام کو تاریخ ایسے مواقع مہیا نہیں کرتی ۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہم بدقسمتی کا شکار ہوں گے، ارکانِ اسمبلی اگر رکاوٹ بن گئے۔ نہیں ، اسے وہ روک نہیں سکتے ۔اس لیے کہ ایک بار سپریم کورٹ واضح طور پر حکم دے چکی ۔ ظاہر ہے کہ دوسری بار بھی ایسا ہوگا ۔ اندیشہ یہ ہے کہ وہ انہیں بے معنی اور بے ثمر کرنے کی کوشش کریں گے ۔ جیسا کہ شہباز شریف کے دور میں ہوا تھا ۔ عدالتِ عظمیٰ کی قطعی ہدایت کے باوجود بلدیاتی الیکشن ٹالتے رہے ۔ عدالت کے حتمی حکم پر کرانا پڑے تو صرف کونسلر چنے۔عہدیداروں کا انتخاب ایک سال تک موخر کرتے چلے گئے ۔ پھر ان کے بیشتر اختیارات چھین لیے ۔ بے بس و لاچار کر دیا ۔ سیاسی جماعتوں کو ادراک نہیں کہ جس کھیل میں وہ مصروف ہیں ، ایک بار پھر بہت خطرناک نتیجہ اس کا نکل سکتا ہے ۔ شاید پہلے سے بھی زیادہ بھیانک ۔ بقا ان کی جمہوریت سے وابستہ ہے اور اسی کے وہ درپے رہتے ہیں ۔ یا تو خاندانی پارٹیاں ہیں ، جن کے ارکان و جوارح مستقل طور پر لوٹ مار پہ لگے رہتے ہیں ۔ یا ایک دیوتا ہے ، جسے اپنے آپ سے کبھی فرصت نصیب نہیں ہوتی ۔ جو ہمیشہ اپنے کارنامے گنوانے اور اپنی ستائش میں لگا رہتا ہے۔ اس کا بس نہیں چلتا کہ خود اپنی تصویر کو سجدہ کرے ۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ زندگی کے کسی دائرے میں کوئی خلا تادیر باقی نہیں رہتا ۔ دیر تک حبس قائم رہے تو آندھی اٹھتی ہے اور کون جانتا ہے کہ آندھی کیا کچھ اڑا لے جائے۔ اندیشہ ہے کہ خلا باقی رہا اور اب کی بار دھماکہ ہوا توبہت زوردار ہوگا ۔ کون جانے پھر کیا ہو ۔ مانو نہ مانو جانِ جہاں اختیار ہے ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں