اپنے قلمکار ساتھی عامر خاکوانی کی والدہ کے انتقال کی خبر پڑھی تو مجھے اپنی ماں یاد آگئی۔میری ماں بھی مجھے سرائیکی میں لوری دیتی تھی۔جب سندھ میں موسم گرما کی رات آنکھوں سے نیندچھین لیتی تھی۔ جب ہوا رک جاتی تھی۔ جب آسمان میں ستارے اس طرح نظر آتے تھے جیسے گرم توے پر مکئی کے دانے پھوٹ کر سفید نظر آتے ہیں۔ تب میری ماں ہاتھ کا پنکھا لہرا کر مجھے سلاتی تھی۔ میری ماں میٹھے سر میں لوری گاتی تھی۔ اس لوری میں وہ نیند کو بلاتی تھی۔ اماں کے بلانے سے نیند آجاتی تھی۔ اب جب بھی مجھے نیند نہیں آتی تب مجھے میری ماں بہت یاد آتی ہے۔ا ب جب بھی مجھے بخار ہوجاتا ہے اور میرا جسم تپ جاتا ہے تب مجھے غنوگی کے عالم میں محسوس ہوتا ہے کہ میری ماں میرے سرہانے بیٹھی ہے اور وہ شفیق انگلیوں سے میرے بالوں کو سہلا رہی ہے۔ جب زندگی کے حالات گرم دھوپ کی طرح میرے پیروں کے تلوے جلانے لگتے ہیں تب مجھے شدت سے میری ماں یاد آتی ہے۔ اس وقت مجھے لگتا ہے کہ وہ مجھے گود میں اٹھالے گی اور اپنے نرم ہاتھوں سے میرے گرم پیروں کو سہلائے گی۔جب تک ماں کا سایہ ساتھ ہوتاہے تب تک انسان اپنے آپ کو کبھی بھی تنہا محسوس نہیں کرتا۔ جب ماں چلی جاتی ہے تب تنہائی کا ایک پہاڑ سر پر گر جاتا ہے۔ تب ایسا لگتا ہے کہ یہ ساری دھرتی ایک گھنا جنگل ہے اور اس جنگل میں انساں اکیلا ہے۔ جب ماں موجود ہوتی ہے تو اس کا احساس ہر طرح سے ہوتا ہے مگر جب ماں چلی جاتی ہے تب وہ ٹھنڈی ہوا بن جاتی ہے۔ وہ نظر نہیں آتی مگر اس کی ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے۔ انسان جب چھوٹا ہوتا ہے تو اس کو بڑے ہونے کی بڑی تمنا ہوتی ہے مگر اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ بڑے ہونے میں بڑے نقصان ہوتے ہیں۔ بڑے ہونے میں سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ماں ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔انسان ان ہاتھوں سے محروم ہوجاتا ہے کہ جن کی لمس سے اس کا پورا وجود آشنا ہوتا ہے۔ جس کی خوشبو روح کی گہرائی میں بسی ہوتی ہے۔ جس کے آنچل کا سایہ زندگی کی کڑی ھوپ میں ہمیشہ ٹھنڈک کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ جب ماں ساتھ ہوتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ کبھی ساتھ نہیں چھوڑے گی۔ وہ کبھی دور نہیں جائے گی۔ مگر جب وہ چلی جاتی ہے تو پوری ذات کو سنسان کر جاتی ہے۔ماں کی جدائی خدائی کی سب سے بڑی اذیت کا نام ہے۔ یہ اذیت انسان کو جھیلنا پڑتی ہے۔ ماں کے جسد خاکی کا بوجھ ہمالیہ سے بھی زیادہ بھاری ہوتا ہے مگر یہ بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔کتنا مشکل ہے اس ہستی کو کندھے پر اٹھانا جس ہستی نے بچپن کے دوراں گود میں اٹھایا تھا۔ وقت بہت بے رحم ہے۔ یہ ہمیشہ چلتا رہتا ہے۔ حالانکہ کچھ سانحات کے دوراں دل شدت سے چاہتا ہے کہ وقت رک جائے۔ ماں کی جدائی بھی ایسا سانحہ ہوتی ہے۔ ماں صرف اس لیے اہم نہیں ہوتی کہ اس نے ہمیں جنم دیا ہے۔ ماں اس لیے اہم ہوتی ہے کہ کائنات کی ساری محبت اس کے وجود میں سمٹ جاتی ہے۔ جس طرح خالص سونا ہوتا ہے۔ وہ خالص سونا جس کو کندن کہتے ہیں۔ اس طرح ماں کی محبت بھی سچے سونے کی طرح ہوتی ہے۔ ایسی محبت جس میں کوئی لالچ نہ ہو۔ ایسی محبت جو اس لیے نہیں کی جائے کہ واپسی میں محبت حاصل ہو۔ ایسی محبت جو مکمل طور پر غیرمشروط ہوتی ہے۔ ایسی محبت جیسی محبت اور کوئی نہیں کرسکتا۔ ہر محبت کی کوئی نہ کوئی حد ہوتی ہے۔ یہ صرف ماں کی محبت ہے جو کائنات کے مانند لامحدود ہوتی ہے ۔ اس لیے جب ماں نہیں رہتی تب انسان اس کو یا اپنے سلگتے ہوئے سینے میں تلاش کرتا ہے یا اس نیلے آسمان میں جس میں رات کو بہت سارے ستارے کنول کے پھولوں کی طرح کھل اٹھتے ہیں ۔ انسان ان انگنت ستاروں میں ایک ستارے کے روپ میں اپنے ماں کو تلاش کر لیتا ہے۔ روشنی کی سفید چادر میں لپٹی ہوئی۔ محبت بھری آنکھوں سے تکتی ہوئی۔ بہت دور رہتی ہوئی مگر پھر بھی دعا دیتی ہوئی۔ اردو زباں کے حساس اور انسان دوست کالم نگار منو بھائی نے ایک بار کہا تھا کہ ساری دنیا میں سب اس کو منو بھائی کہہ کر بلاتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ نام اس نے اتنی بار سنا ہے کہ اب وہ اپنے اصل نام کو بھول سا گئے ہیں۔ انہوں نے ہنستے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی شریک حیات بھی ان کو منو بھائی کے نام سے بلاتی ہیں۔ یہ کہتے ہوئے اچانک ان کی آواز بھر آئی ۔ ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کی نمی سی ابھر آئی۔ انہوں نے لرزتے ہوئے لہجے میں کہا تھا کہ اس دنیا میں ایک ہستی ایسی تھی جس نے مجھے کبھی منو بھائی کہہ کر نہیں بلایا۔ اس نے جب بھی بلایا مجھے ’’منیر،، کہہ کر بلایا۔ وہ میری ماں تھی۔ اب دنیا میں مجھے ’’منیر،، کہہ کر بلانے والا کوئی نہیں رہا۔ جب ہمارے ساتھی عامر خاکوانی والدہ کی ابدی جدائی سے گذرے تومیرے دل نے اس وقت کہا کہ میں ان کو فون کروں مگر میں یہ سوچ کر خاموش ہوگیا کہ میں انہیں کیا کہوں گا؟ روایتی ہمدردی والے الفاظ اس سانحے کی شدت سے سہم جاتے ہیں۔ پھر میں نے سوچا کہ میں عامر خاکوانی صاحب کی والدہ پر کالم لکھوں گا۔ جب کالم لکھنے کے لیے قلم اٹھایا تو کاغذ پر میری ماں کی مورت ابھر آئی۔ پھر میں نے سوچا کہ اپنی ماں پر لکھتاہوں۔ مگر کچھ دیر تک قلم پکڑے سوچتا رہا تو اچانک یہ خیال آیا کہ ماں تیری میری ہوتی ہے کیا؟ ماں تو ماں ہے۔وہ ماں کسی کی بھی ہو۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہر ماں محبت کی علامت ہوتی ہے۔ ہر ماں اس گھنے پیڑ کی طرح ہوتی ہے جو سورج کی ساری دھوپ اپنے دامن میں سمیٹ کواولاد کو چھاؤں دیتا ہے۔ اس لیے تو کہتے ہیں کہ ’’ماواں ٹھنڈیا ں چھاواں،، کیا ان تین الفاظ سے زیادہ کسی زبان میں کسی ادیب نے ماں کی ہستی کو جامع انداز سے بیان کرنے کا کمال کیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا کہ ماں کے بارے میں یہ الفاظ کس نے کہے ہیں؟مگر جس نے بھی کہے ہیں اس نے کہنے کا حق ادا کردیا ہے۔ اس نے یہ الفاظ اس وقت کہے ہونگے جب عامر خاکوانی کی طرح اس کی ماں اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلی گئی ہوگی اور وہ اپنے آپ کو پوری دنیا میں تنہا محسوس کرتا ہوگا۔ اس کے پیروں میں جوتے بھی ہونگے تب بھی اس نے اپنے تلوے جلتے محسوس کیے ہونگے۔ وہ آگ اگلتے سورج کے نیچے اپنے آپ کو جلتا محسوس کرتا ہوگا۔ اس کیفیت میں اس کے ہونٹوں سے یہ الفاظ چشمے کی طرح پھوٹ کر نکلے ہونگے ’’ماواں ٹھنڈیاں چھاواں،،