ملک کے حکمران رہنے والے سیاستدانوں اور ان کے خاندان کی زندگیوں کو سیاست کے تعصب سے ہٹ کر دیکھنا ہم کالم نگاروں کے لئے ذرا مشکل ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہم ان کی کارگزاریوں سے واقف ہوتے ہیں اور اسی پر لکھتے رہتے ہیں پھر ہمارے سامنے ان کی عیش اور آسودگی سے بھری ذاتی زندگیوں کے مقابل ملک کے غریب خاک بسر لوگوں کی ادھڑی ہوئی زندگیوں کا احوال ہوتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی کچھ معاملے ایسے بھی ہو جاتے ہیں جو سیاست کی تمام تر الائشوں سے اوپر اٹھ کر بالکل انسانی سطح پر آ کر ہمارے احساس پر دستک دیتے ہیں۔ جیسے نواز شریف کے طرز حکومت اور سیاست کا ناقد ہونے کے باوجود جب بیگم کلثوم نواز شریف دیار غیر میں اپنے شوہر کا انتظار کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہوئیں تو اس سارے واقعے میں حالات واقعات کی ترتیب اور انسانی رشتوں کے درمیان جذبوں کی شدت نے جو ٹریجڈی پیدا کی، میں نے اس پر بھی خالص انسانی حوالی سے کالم لکھا تھا اور آج بھٹو کی نواسی بے نظیر بھٹو کی لاڈلی بیٹی بختاور کی رخصتی ہے تو مجھے سیاست کے تمام تعصب اور الائشوں سے ہٹ کر بس ایک آنگن دکھائی دیتاہے جہاں ایک بیٹی زندگی کے اس نئے سفر پر اپنی بچھڑی ہوئی ماں کو بے طرح یاد کرتی ہے۔ برسوں کے بعد گھر کے آنگن میں بجنے والی شہنائی میں اداسی ایسے گھلتی جاتی ہے جیسے شام ڈھلے کا منظر ہو۔ ایسے آنگن میں جو ماں یا باپ کے وجود سے خالی ہو تو خوشیوں کے ایسے موقع اپنے ساتھ یادوں کی بارات لے کر اترتے ہیں، ڈھولک کی پہلی تھاپ پڑتی ہے تو جدائی کی کسک دل کو مٹھی میں لے لیتی ہے ملن کا سماں ہے شادی بیاہ کے گیت اور ٹپے رنگین تتلیوں کی طرح اڑتے پھرتے ہیں۔ اماں میرے بابا کو بھیجوری کہ ساون آئیو۔ اماں میرے بھیا کو بھیجوری کہ سا ون آئیو ۔کبھی تان ابھرتی ہے۔ مدھانیاں ‘ ہائے اومیریا ڈاہڈیا ربا کنہاں جمیاں کنہاں نے لے جانیاں۔دھرتی سے جڑے ہوئے ان ٹپوں میں ہمارے رشتوں سے جڑی روایتوں کی تہہ در تہہ کہانیاں ہیں۔ شادی کی تیاریاں مکمل ہیں ،کسی چیز میں کمی ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر جو کمی تقدیر نے ماں کے نہ ہونے کی صورت میں رکھی ہے ،وہ کمی شادی کے سارے منظر نامے پر چھا جاتی ہے۔ سو بیٹی کے دل کا ماں کی انگنت یادوں سے لبریز ہونا اور دولت عیش اور آسودگی کی فراوانی میں اک ماں کی کمی کو محسوس کرنا عین فطری ہے ۔گھر میں شادی کا ہنگامہ جاگ اٹھا ہے تو ماں کہاں ہے کیوں دکھائی نہیں دیتی ۔ڈھولک کی تھاپ پر پھر اک تان ابھرتی ہے۔ قمیضاں چھیت دیاں ملتانوں آئیاں نیں تے ماواں اپنیاں جنہاں ریجھاں لائیاں نیں ایسے کتنے ہی منظر میرے دل پر بیتے ہیں جب ڈھولک کی تھاپ سماعتوں میں اترتی ہے تو دل ماں کی جدائی کی کسک میں جیسے مسلا جا رہا ہو!ہماری زندگی کا باب نئے عنوان لکھنے کو تیار تھا کہ امی جان زندگی کے دھڑکتے ہوئے ہنستے مسکراتے منظر نامے سے اوجھل ہو گئیں ہم جیسے متوسط گھرانے اپنے رشتوں میں اتنے پیوست اور گندھے ہوئے ہوتے ہیں کہ ماں کی صورت گھر کے نیو کلیئس کا اوجھل ہو جانا زندگی کی بنیاد ہلا جاتا ہے ۔فصل تیار تھی اور فصل کے باغباں کا ایک ساتھی بچھڑ گیا۔ ماں باپ دونوں فصل کو پروان چڑھاتے یہ دو باغباں دو ہو کر بھی ایک ہوتے ہیں۔ سو ایک کے بچھڑنے سے دوسرا ادھورا رہ گیا۔یوں زندگی میں ایک ادھورا پن ہمیشہ کے لئے سرایت کر گیا۔ خوشیوں کی بارات جدائی کی کسک کو اور بھی مہمیز کرتی ہے۔ مایوں مہندی کے شگن ،سہرا بندیاں، بارات کی روانگی کے لمحے یا پھر شادی میں رخصتی کے پل ،شادی بیاہ کے دوران محض لمحے نہیں ماں کی یاد کے صحرا تھے جو ادھورے پن، بوجھل دل اور نم آنکھوں سے پار کیے۔ ہم بہن بھائی اور ابو جان ایک دوسرے سے نظریں چراتے ر ہتے اور اپنے اندر یاد کے جوار بھاٹے سے الجھتے رہتے ۔کبھی کبھی تو ضبط کے بندھن ٹوٹ بھی جاتے۔ میں نے برسوں پہلے ایک شادی میں شرکت کی۔ دلہن کے والدین میں سے کوئی حیات نہیں تھا ۔شادی کا سارا منظر نامہ مکمل تھا۔ زرق برق لباس، بہترین کھانے، پھولوں اور روشنیوں سے سجا ہوا شادی ہال، مگر جب رخصتی ہوئی تو ایک عجیب سا سناٹا پورے ماحول پر چھا گیا۔ دلہن کے والدین کی عدم موجودگی نے مہمانوں کے ہجوم میں بھی ایک خلا سا پیدا کر دیا۔بھٹو خاندان کی وراثت میں ان کی زندگی زندگیوں میں خوشیوں سے زیادہ حادثوں اور جدائیوں کا بسیرا ہے۔ بلاول ہائوس میں بختاور کی شادی کا ہنگامہ جاگ اٹھا ہے۔آج بختاور کا نکاح اور رخصتی ہو گی ۔ماں نہیں مگر ماسی صنم بھٹو اپنے بھانجے بھانجیوں کے درمیان اس خوشی کے موقع پر موجود ہے اور اس وقت صنم بھٹو کس کس کو یاد نہیں کر رہی ہوں گی ۔باپ ذوالفقار بھٹو، ماں نصرت بھٹو ،بہن بے نظیر، بھائی ذوالفقار، چھوٹا بھائی شاہنواز جدائیوں کا ایک دشت ہے۔ یاد کا ایک جنگل ہے وہ جس میں سے گزری ہوں گی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی ٹریجڈیز سے بھری ذاتی زندگی میں خوشیوں کو بس چند وقفوں کی صورت ہی دیکھا ۔بچوں کی پیدائش، دوبئی میں ان کے ساتھ گزرا ہوا وقت ،پاکستان آمد شہادت اور لمبی جدائی۔ آج ان کی لاڈلی بیٹی کی شادی پر ہر دل اس کمی کو محسوس کر رہا ہے۔ عیش آسودگی اور دولت کی فراوانی ہے۔ رنگ، روشنی، خوشبو ،جھلملاتے لباس شادی کے زرق برق ماحول میں ڈھولک کی تھاپ پر ایک تان اتھرتی ہے ماواں اپنیاں جنہاں ریجھاں لائیاں نیں۔