اے پی این ایس کے جنرل سیکرٹری جناب سرمد علی کی والدہ ماجدہ انتقال فرما گئیں، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ مرحومہ کی وفات پر صدر ، وزیر اعظم، گورنر، وزراء اعلیٰ اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے تعزیت اور صدمے کا اظہار کرتے ہوئے مرحومہ کی مغفرت اور لواحقین کے صبر و جمیل کیلئے دعا کی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ صدمہ ہم سب کا مشترکہ صدمہ ہے کہ مائیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ ماں رب کا روپ ہے، ماں مر کر بھی زندہ رہتی ہے۔ البتہ ماں کے چلے جانے سے آفات سے بچائو کی ڈھال ماں کی دعائوں سے انسان محروم ہو جاتا ہے۔ حضرت موسیٰؑ کا مشہور واقعہ ،کہ آپؑ خداوند کریم سے ہمکلامی کیلئے کوہ طور پر جاتے تھے جب حضرت موسیٰؑ کی والدہ ماجدہ وفات پا گئیں تو فرشتہ حضرت موسی ؑ کے پاس آیا اور کہا کہ اب سنبھل کر جانا ہے کہ دعائوں کی وہ چھت آپ کے سر پر نہیں رہی جو ماں کی صورت میں موجود تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ عورت پیغمبر نہیں ہوتی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عورت پیغمبر کی ماں ضرور ہوتی ہے۔ ہم سرائیکی میں اکثر پڑھتے ہیں ’’ماواں ٹھنڈیاں چھاواں‘‘ یہ صرف کہاوت نہیں بلکہ کی اصل حقیقت ہے۔ سرائیکی شاعر سعید ثروت کہتے ہیں خدائی دی دولت خدا دی دولت خلوص الفت وفادی دولت دعا دی دولت شفا دی دولت ملی جنہاں کوں ہے ماء دی دولت بات صرف سرمد علی ، عزاد علی اور سید علی کی نہیں اس صدمے سے سب گزرے ہیں، ماں وہ ہستی ہے جو سلگتی دھوپ میں ٹھنڈی چھائوں ہے، جو ایسی ماں ہے جو بے زبان کو زبان سکھاتی ہے، ماں وہ ہستی ہے جو بیٹے کا انتظار کرتی ہے، آج کون کسی کا انتظار کرتا ہے؟ ماں ہی ہے کہ رات گئے تک بیٹے کی منتظر رہتی ہے اور اُسے اس وقت تک نیند نہیں آتی جب بیٹا گھر نہیں آجاتا، وہ آئے تو بسم اللہ کہتی ہے اور وہ جائے تو فی امان اللہ کہتی ہے، ماں جیسی مہربان ہستی کوئی ہو ہی نہیں سکتی، اگر انسان کی عمر 100 سال ہو اور 100 سال کی زندگی کا ہر پل ماں کی خدمت میں گزرے تب بھی اُس کے احسانات کا ایک پل ادا نہیں ہو سکتا، ماں سے جتنی محبت اور عقیدت کی جائے کم ہے، سرائیکی شاعر شبیر طاہر حمایتی کہتے ہیں اساں تیڈی عظمت تے قربان تھیسوں اساڈی جند جان تیڈے نانویں اساڈا خون حاضر ہے تیڈی ردا توں اماں! اساں جیندے ہیں تیڈے پساویں ماں وہ عظیم ہستی ہے کہ جو اپنی جان پر بڑے سے بڑا صدمہ برداشت کر جاتی ہے۔ پر اس کے کسی جگر کے گوشے کو ذرا بھی تکلیف پہنچے تو وہ تڑپ جاتی ہے۔ماں۔۔۔ایک لفظ کس قدر مقدس اور شہد سے میٹھا ہے کہ جسے بولتے ہی منہ میٹھا میٹھا ہو جاتا ہے۔یہ لفظ بہت سے معنی، مطلب،احساس اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ ممتا، پیار، محبت، خلوص، لگن، سچائی، پاکیزگی، سکون، خدمت، محنت، عظمت، دعا، سایہ، دوست، ہمدرد، رہنما، استاد، بے غرض، معصومیت، عبادت، ایمان، دیانت، بردباری، برداشت، جذبہ، جنت یہ سب تو صرف ایک ماں کی خوبیوں کی ایک جھلک ہے ورنہ اس عظیم ہستی کی خوبیاں تو اس قدر ہیں کہ لفظ ختم ہو جائیں مگر ماں کی تعریف ختم نہ ہو گی۔ ماں۔۔ ایک ایسا موضوع کہ قلم بھی جس کا احاطہ نہیں کر پاتا۔اس موضوع پر کافی کتب تو لکھی جا سکتی ہیں مگر ماں کے احسانات،احساسات اور چاہتوں کا بدلہ تب بھی نہیں چکایا جا سکتا۔ماں۔۔محض ایک لفظ نہیں بلکہ محبتوں کا مجموعہ ہے۔ماں کا لفظ سنتے ہی ایک ٹھنڈی چھائوں اور ایک تحفظ کا احساس اجاگر ہوتا ہے۔ایک عظمت کی دیوی اور سب کچھ قربان کر دینے والی ہستی کا احساس اجاگر ہوتا ہے۔ انسانی رشتوں میں سب سے زیادہ پیار و محبت کرنے والی ہستی ماں کی ہے۔ماں خدا کی عطا کردہ نعمتوں میں افضل ترین نعمت ہے۔والدین کے احسانات کے بارے میںسوچا جائے تو سوچ بھی ان کے احسانات کے مقابلے میں بہت پیچھے دکھائی دیتی ہے۔ جناب سرمد علی صاحب ! صدمے کے اس موقع پر ماں کے حضور عقیدت کے چند پھولوں کے سوا ہم کیا پیش کر سکتے ہیں کہ ماں ایک ہستی جو محبتوں کا پیکر ہے ، جس کا ایک ایک لفظ مٹھاس لئے ہوئے ہے، جس کی بات ہی بے مثال ہو،جس کی دعا ہر چیز سے قیمتی ہو، جو سراپا محبت و افتخار ہو،جو قدرت کا شاہکارہو،جس کے آنسو موتی ہوں،جس کی نگاہ میں امید کے دیئے جلتے ہوں، جو تپتی دھوپ میں چھائوں کا بیش قیمت احساس ہو،جس کی ہر دعا اپنے لئے نہ ہو۔ جس کا دل ہر غرض سے پاک ہو،جس کی عظمت کو عرش بھی سلام کرتا ہو وہ ہے ماں۔ اپنی اولاد کی تکلیف کو اپنے اندر سمونے والا،کتنا حسین احساس ہے،ہر دھوپ میں ایک ٹھنڈی چھائوں جیسا احساس۔تازہ بھولوں کی شگفتگی،نرم کلیوں کی تازگی،چادہویں کے چاند کی چاندنی اور دنیا بھر کے حسین رشتوں کی محبت کو جمع کر کے بھی اگر ایک اکیلی ''ماں'' سے اس کا مقابلہ کیا جائے تو اس کا رتبہ سب سے بلند ہو گا اور کیوں نہ ہو،ماں نام ہی ایسے حسین رشتے کا ہے کہ اس کے آگے دنیا کی ہر شے ہیچ ہے۔تمام تر پریشانیوں،مصیبتوں کا بوجھ اٹھانے کے باوجود وہ اپنے بچوں کے لئے ایک کومل احساس ہے۔ایک بے انتہا پر سکون اور آرام دہ شجر کی مانند،جس میں پناہ گزین ہو کر اولاد خود کو دنیا میں سب سے زیادہ محفوظ تصور کرتی ہے۔ماں ہمیں بچپن سے لے بڑے ہونے تک شفقت سے پالتی ہے۔ ماں ہی ہمیں زندگی گزارنے کی تربیت دیتی ہے۔صحیح و غلط کی پہچان کر واتی ہے۔زندگی کے تمام نشیب و فراز سے آگاہ کرتی ہے۔ماں اولاد کیلئے جو قربانی دیتی ہے اور کوئی نہیں دے سکتا۔ قرآن پاک میں جہاں بھی اللہ کی توحید کا ذکر ہوا ہے وہاں ماں باپ کی فرمانبرداری کا ذکر بھی لازمی آیا ہے۔ماں کی نافرمانی شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ (مفہوم)اپنے ماں باپ کو اُف تک نہ کہو۔اسی طرح آپؐ نے فرمایا کہ (مفہوم)کتنا بد نصیب ہے وہ جس کے والدین زندہ ہوں اور وہ ان کی خدمت کر کے جنت نہ حاصل کر سکے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ہماری زندگی صرف بناتی ہی نہیں بلکہ بہت احسن طریقے سے سنوارتی بھی ہے یعنی کہ ماں ایک بہترین معلمہ ہے۔ اسلام نے بھی ماں کی محبت،وقار اور احترا م کا اعتراف کیا ہے اس کی اطاعت اور خدمت کو جنت کے حصول کا ذریعہ قرار دیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے جب ماں کی تخلیق کی تو اسے رحمت کی چادر،پاکیزہ شبنم،دعائوں کے خزانوں،زمین و آسمان کی وسعتوں، جذبوں،چاہتوں،چاند کی رحمت، خلوص، رحمت، راحت، برکت، عظمت، حوصلے اور ہمت کے تمام رنگوں سے مزین کیا یہاں تک کہ اس کے قدموں میں جنت ڈالی۔محسنِ انسانیت نبی آخرالزماں حضرت محمدؐکی صاحبزادی خاتون جنت فاطمۃ الزہرہ ماں کی حیثیت سے ایک زندہ کردار ہیں۔دنیا کی عظیم ترین ہستی ماں کی ہے۔اس کادوسرا نام جنت ہے۔ماں کے بغیر کائنات نامکمل ہے۔ماں کی آغوش انسان کی پہلی درسگاہ ہے۔ ماں وہ ہستی ہے جو ہمیشہ زندہ رہتی ہے، بابا بلھے شاہ سئیں نے سچ فرمایا ہے ’’بلھے شاہ اساں مرنا، نا ہیں، گور پیا کوئی ہور‘‘ ۔