احترام آدمیت کا نہ ہونا بدنصیبی ہے لیکن مال پرریجھ جانا اور کسب مال کے لیے آخری حد تک چلے جانا اور سب کچھ کر گزرنا بدبختی بھی ہے اور بدترین صورت حال بھی۔ پوری دنیا اس وقت مال کے فتنے میں گرفتار ہے۔ چین جیسے منظم اور قانون پسند ملک میں دو افراد کو ٹھیکوں میں کمیشن لینے پر پھانسی کی سزا دی گئی ہے۔ کئی مغربی ملکوں میں صاحبان اقتدار پر کرپشن کے الزامات میں مقدمات چل رہے ہیں۔ سری لنکا میں جو عوامی ردعمل سامنے آیا اور ملک کھوکھلا ہوگیا۔ اس کی وجہ بھی حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ اور مال سے محبت ہی تھی۔ اکثر ملکوں میں جس میں ہمارا ملک بھی شامل ہے سیاست و اقتدار کو عوامی خدمت کے بجائے مال کی کمائی کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ عام آدمی کی ساری زندگی بھی مال ہی کے حصول کے تگ و دو میں گزر جاتی ہے۔ اس لیے کہ مال و دولت زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہیں۔ ہر ضرورت روپے پیسے سے ہی پوری ہوتی ہے۔ ایسے معاشرے جہاں لوگوں کو آسانی کے ساتھ سامان معیشت میسر نہ ہو روٹی روزی کمانے اور زندگی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے منصفانہ ذرائع میسر نہ ہوں تو آدمی ناجائز ذرائع اختیار کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ ہیر پھیر کرتا ہے۔ مال کے لیے جائیداد کے جھگڑے میں پڑ کر بھائی‘ بھائی کا گلا کاٹتا ہے۔ رشک و حسد کے جذبوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر دوسرے سے مقابلہ بازی کرتا ہے۔ ہل من مزید کی رٹ اسے چوہوں کی دوڑ میں حصہ لینے پر مجبور کرتی ہے اور یوں پورا معاشرہ نفسا نفسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ بے سکونی، بے اطمینانی‘ لڑائی جھگڑے‘ تنازعات اور تصادم زندگی کو انتشار و افراتفری سے عبارت بنا دیتے ہیں۔ ایسے میں مبلغوں اور مصلحوں کی اصلاحی تقریریں اور خطبات قرآن و حدیث کے احکامات اور ان کی یاددہانی سننے کی حد تک تو قابل قبول ہوتی ہے لیکن کوئی قناعت‘ توکل اور شکر گزاری کی نصیحتوں پر عمل کرنے میں خود کو قادر نہیں پاتا۔ کچھ ایسا لگتا ہے کہ مال کی محبت اور ضرورت ہوا میں چ بس گئی ہے۔ ہمارے گھروں کے دروازے‘ کھڑکیاں اور دہلیز اس انتظار میں کھلے رہتے ہیں کہ ان راستوں سے مال داخل ہو جائے۔ کتنے وزراء اور سرکاری افسرہمارے ہی ملک میں ایسے گرفتار ہوئے جن کی الماریوں‘ بستروں کے نیچے اور فرش پر نوٹوں کے انبار لگے تھے‘ نوٹوں کی گڈیاں تہ بہ تہ رکھی تھیں۔ اتنے نوٹ اور اتنی گڈیاں کہ انہیں گننا دشوار تھا۔ ہاں یہ خوبی یا خرابی بھی مال ہی میں ہوتی ہے کہ اس سے محبت ہو جائے تو جی نہیں بھرتا۔ سونے کا ایک پہاڑ ایک وادی مل جائے تو ایسے ہی ایک اور پہاڑ‘ ایک اور وادی کی تمنا خواہشوں کے پیچھے دوڑائے پھرتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس مسئلے اور اس بحران کا حل کیا ہے؟ نصیحتوں او رفضیحتوں سے اصلاح ہوتی نظر نہیں آتی۔ اصلاح ممکن ہوتی تو ہو چکی ہوتی۔ کچھ ایسا لگتا ہے کہ نظام حکومت و معیشت کو مکمل طور پر بدلے بغیر اور نہیں نئے سرے سے مرتب کئے بغیر معاشرے کو ہم کوئی ایسی تہذیب و ثقافت فراہم ہی نہیں کرسکتے جس میں توکل ،اور قناعت کے لوگ باگ عادی ہو سکیں۔ عدل و انصاف کا نظام‘ صلاحیت کے مطابق یکساں مواقع اور زندگی میں سکون و اطمینان اسی وقت میسر آئیں گے جب ہم ایک نئے معاشرے کی تعمیر کرسکیں۔ لیکن یہ تو ایک خواب ہے جس کی تعبیر فی الوقت تو دور دور نظر نہیں آتی۔ نہ نومن تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی۔ تو پھر کیا ہو؟ ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور جو کچھ گردوپیش ہورہا ہے اس کا تماشا دیکھتے رہیں۔ ملک پہلے ہی اقتصادی بحران میں مبتلا ہے۔ مانگے تانگے کی امداد اور قرضوں سے ملکی معیشت کا پہیہ حرکت میں رکھنے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ ایک خوفناک سیلاب نے پورے ملک کے نظام کو تہہ و بالا کر دیا۔ مہنگائی پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہی تھی، سیلاب کے بعد اب یہ مہنگائی ہفت افلاک سے باتیں کرنے لگی ہے۔ آئندہ سال فصلوں کے برباد ہونے اور دیہی زندگی کے تہہ و بالا ہونے کی وجہ سے اشیاء کے بحران اور قحط سے بھی سامنا نہ ہو۔ اس کا بھی اندیشہ ہے۔ ان ناگفتہ بہ حالات کے اوپر ایک اور مصیبت سیاست دانوں کے اختلافات اور تنازعات کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔۔ ناسمجھی کے بیانات اور طاقت کا عاقبت نا اندیشانہ مظاہرہ نے اداروں کو جڑ بنیاد سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ سمجھنا اور اندازہ لگانا دشوار ہے کہ یہ ساری صورت حال مل جل کر ہمیں کس بندگلی میں دھکیل دے گی اور ہم اذیتوں کا درماں کہاں اور کیسے تلاش کریں گے‘ اس کا اندازہ لگانا ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے۔ ایسے میں اپنے اجتماعی گناہوں کی معافی چاہنا اور توبہ کی نمازیں پڑھنے کی صلاح دینا بھی نیکی کی بات تو ہے لیکن بڑی سادہ دلی کی بات۔ جب تک ہمارے اجتماعی اور انفرادی معاملات درست نہ ہوں‘ اپنی اصلاح احوال کی کوشش نہ کریں۔ خداوند تعالیٰ کو کیا پڑی ہے کہ وہ محض ہماری توبہ تلاسے ہمارے معاملات کو درست کردے گا۔ اصلاح اور بہتری تو ہمیں احوال میں خود لانی ہے۔ جب تک حکومت‘ فیصلہ ساز ادارے‘ ارباب سیاست‘ تجارت پیشہ طبقے‘ عمال ریاست اور عوام اپنے آپ کو درست نہیں کرتے، نہیں لگتا کہ کوئی آسمانی مدد غیب سے آئے گی۔ حالات کتنے اندیشہ ناک ہیں‘ اس کا پتہ عام آدمی کو نہیں ہے۔ یہ اندازہ انہیں ہی ہے جو اقتدار پر فائز ہیں۔ جو اب یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر صورت حال کی ہولناکی کا ہمیں پتہ ہوتا تو حکومت میں آنے کی کھیکھڑمیں پڑتے ہی کیوں؟ اور وہ بھی غور کر رہے ہیں کہ حکومت کی تبدیلی کا پنڈورا بکس کھولنے کی ضرورت ہی کیا تھی اگر حالات کو اس طرح قابو سے باہر ہو جانے تھے۔ سب متفکر ہیں‘ سبھی پریشان ہیں‘ حالات ابتر سے ابتر ہوتے جاتے ہیں اور دعائیں بھی بے اثر ہو گئی ہیں۔ اس کا کوئی حل تو کوئی نجومی یا ماہر فلکیات یا متنجم ہی بتا سکتا ہے کہ آئندہ کیا ہونے جا رہا ہے؟ ہمیں تو آثار اچھے نہیں لگ رہے۔ ایسے میں کوئی جھوٹی امید دلانا‘ کوئی سبز باغ دکھانا، یہ کسی سیاست دان ہی کے لیے ممکن ہے۔ ایک لکھنے والے کی حیثیت میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا کی رحمت سے مایوسی سے منع کیا گیا ہے۔ اس لیے ہمیں اسی کی رحمت سے ساری امیدیں ہیں۔ وہ مایوسی سے امید کی کرن ابھارتا ہے اور امیدوں کو عمل کے روپ میں سامنے لاتا ہے۔ یہ ملک بڑی قربانیوں سے بنا ہے اوران گنت مظلوموں کی دعائیں اس کے ساتھ ہیں تو ہمیں اسی قادر مطلق سے ساری امیدیں ہیں کہ وہی اس کے حالات کو سدھارے اور سنوارے گا اور ایسی قیادت ضرور سامنے آئے گی جو سارے دکھوں کا درماں بن سکے گی۔ خدا کرے یہ میری خوش گمانی نہ ہو۔