واشنگٹن ( نیٹ نیوز) امریکہ میں پولیس افسروں کی جانب سے سیاہ فام جارج فلائیڈ کو بے دردی سے مارنے کے رد عمل میں امریکہ اور پوری دنیا میں نسلی امتیاز کیخلاف کی مظاہرے جاری ہیں، پولیس افسر کی جانب سے فلائیڈ کی گردن کو گھٹنے سے دبایا گیا ، فلائیڈ کے جملہ ’’ میں سانس نہیں لے سکتا‘‘ کی ویڈیو سامنے آنے سے پوری دنیا میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی تھی تاہم اب آٹھ منٹ تک گلا دبائے رکھنے کے دوران فلائیڈ اور پولیس افسر کی مزید گفتگو سامنے آگئی ہے جس کے بعد معلوم ہوتا ہے اس وقت کی صورتحال اس سے بھی زیادہ تشویشناک تھی جیسا کہ دنیا کو پہلے معلوم ہوئی۔ فلائیڈ نے ’’ میں سانس نہیں لے سکتا‘‘ صرف ایک بار نہیں کہا بلکہ اس نے کم از کم 20 بار یہی جملہ دہرایا تھا۔ اپنی آخری سانسوں سے قبل اس نے دردناک انداز میں نہ صرف اپنی فوت ہوجانے والی ماں بلکہ اپنے بچوں کو بھی پکارا تھا، فلائیڈ پکارتا رہا یہ مجھے مار دیں گے ، یہ مجھے مار دیں گے ۔ فلائیڈ نے اپنی زندگی کی بھیک مانگی تو افسر نے کہا ’’باتیں ختم کرو، چیخیں نہ نکالو، تمہیں باتیں کرنے کیلئے آکسیجن کی بڑی مقدار مل رہی ہے ۔ 37 سالہ پولیس افسر تھامس لین کے جسم پر لگے کیمرے کی ویڈیو کا یہ متن عدالت میں پیش کیا گیا۔ فلائیڈ کی گردن پر اہلکار شاون نے گھٹنہ رکھا ہوا تھا۔ لین کے علاوہ مزید دو پولیس اہلکار بھی موقع پر موجود تھے ۔ چاروں کو برطرف کیا جا چکا ہے ۔ ویڈیو میں ہونے والی گفتگو کے متن میں ایک موقع پر فلائیڈ نے کہا ’’ماں میں آپ کو پیار کرتا، میرے بچوں کو بتا دیں، میں انہیں پیار کرتا ہوں، میں مر رہا ہوں‘‘ فلائیڈ نے جب کہا ’’ میں سانس نہیں لے سکتا‘‘ تو ایک اہلکار کوئینگ نے کہا ’’ تم ٹھیک ہو، بالکل درست باتیں کر رہے ہو‘‘ اہلکار لین نے کہا ’’گہرا سانس لو‘‘ عدالت میں 80 صفحات پر مشتمل ویڈیو کا متن اور 60 صفحات پر مشتمل اہلکار لین کے انٹرویو کا متن پیش کیا گیا۔ انٹرویو میں اہلکار لین سے پوچھا گیا کیا تم نے محسوس کیا کہ تم نے فلائیڈ کی ہلاکت میں مدد کی تو اہلکار نے جواب نفی میں دیا۔ فلائیڈ کو زمین پر گرانے سے پہلے ، فلائیڈ پولیس کو بتا چکا تھا کہ اسے کلاسٹرو فوبک ہے ۔ ایک موقع پر اہلکار لین نے پوچھا کیا فلائیڈ پہلو بدلنے کی کوشش کر رہا ہے تو شاون نے کہا نہیں، لین نے کہا شاید اسے میڈیکل ایمرجنسی کی ضرورت ہو، شاون نے جواب دیا چلو پھر ایمبولینس بلاتے ہیں۔