مکرمی !رات کے وقت گلیوں اور گھروں میں لائٹنگ سے منظر بہت خوبصورت لگ رہا تھا ۔ مسافر بس میں مجھ سے پچھلی سیٹ پر بیٹھے ایک آٹھ سالہ بچے نے اپنے والد سے اس سجاوٹ بارے استفسار کیا ۔ اسے بتایا گیا کہ جیسے ہم گھروں میں اپنے بچوں کی سالگرہ کا اہتمام کرتے ہیں ، ایسے ہی ہمارے پیارے نبی ﷺ کی پیدائش کا دن بھی آیا چاہتا ہے ۔ یہ سجاوٹ اسی تناظر میں کی گئی ہے ۔ بچے کی والدہ جھٹ سے بولیں ’’ہاں جی ! سنتوں پر ہم لوگوں نے عمل نہیں کرنا اور گلیاں ، بازار اور گھر سجا لینے ہیں ، پہلے اپنے دل کی دنیا کو تو پیغامِ مصطفیﷺ کی روشنی سے منور کر لیں ، پھر ہمیں یہ سب کچھ کرنے کا حق ہے ‘‘ ۔ اس آٹھ سالہ بچے کی سمجھ میں تو یہ بات آئی یا نہیں ، لیکن میں تمام راستہ یہی سوچتا رہا کہ ہم نے تعلیماتِ نبویؐ کو صرف نماز اور قرآن پڑھنے ، میلاد منانے ، جشن کرنے اور دوسروں کو ’’لیکچر‘‘ دینے تک محدود کر دیا ہے ۔ ربیع الاول کائنات کی سب سے باوقار اور عظیم ہستی کی آمد کا مہینہ تھا ، جس کے امتی ہونے کے ہم پتہ نہیں قابل بھی ہیں یا نہیں لیکن ہم نے اس مہینے کو کیا سے کیا بنا کر رکھ دیا ہے ۔ اس روز کی مناسبت سے جو ماحول بنایا جاتا ہے وہ تو شادی بیاہوں یا کسی سیاستدان کے الیکشن جیتنے جیسے مواقعوں پر ہوتا ہے جبکہ یہ جشن تو ان سب سے مختلف ہے ۔ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ ہمارے روز و شب میں اس شکرانہ نعمت کا باوقار عنصر غالب نظر آتا ہو ، تاکہ کوئی ہمیں کردار و عمل کی غریبی کا طعنہ نہ دے سکے اور ہم آخرت کے محاذ پر سرخرو ٹھہریں ۔ (محمد نورالہدیٰ لاہور)