محترمہ مریم نواز بلاول بھٹو سے مل کر احتجاجی تحریک پہلے شروع کرتی ہیں یا بنک دستاویزات کے مطابق میاں نواز شریف اور ان کی سیاسی جانشین کے خلاف تحقیقات کانیا پنڈورا بکس جلدکھلتاہے؟ یہ سوال واقف حال حلقوں میں شدومد سے زیر بحث ہے۔ مہنگائی کی صورت میں اپوزیشن کے ہاتھ ایک جینوئن عوامی ایشو آ گیا ہے۔ ادویات‘ پٹرول‘ گیس اور چینی کی مہنگائی میں حکومت کی بدانتظامی کا دخل ہے اور ناتجربہ کار حکمرانوں نے ابھی تک یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ عام آدمی منطق و استدلال سے کم‘ مہنگائی سے متاثر ہوتا ہے۔ پنجابی کہاوت ہے‘ پیٹ نہ پئیاںروٹیاں تے سبھے گلاں کھوٹیاں‘ حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ سے پوچھا گیااسلام کے کتنے ارکان ہیں؟ فرمایا چھ‘ سائل نے عرض کیا حضور! قرآن و حدیث میں پانچ ارکان کا ذکر ہے آپ چھ بتلا رہے ہیں فرمایا چھٹا رکن روٹی ہے۔ رسول اکرم ﷺ کا فرمان نہیں سنا کادالفقر ان یکون کفراً(غربت و افلاس انسان کو کفر کی طرف دھکیل دیتے ہیں) حقیقی یا مصنوعی وجہ سے مہنگائی بڑھی ہے اور ماہرین غربت و بے روزگاری میں اضافے کی نوید سنا رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مہنگائی کے ایشو پر مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مل کر عوام کو سڑکوں پر لانے کے قابل ہیں؟ کیا مہنگائی‘ غربت اور بے روزگاری واقعی اس قدر بڑھی ہے کہ لوگ حکومت کو اکھاڑ پھینکنے اور ماضی میں تین تین چار چار باریاں لینے والوں کو بار دیگر اسلام آباد کے تخت پر بٹھانے کے لئے بے تاب ہیں؟ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو تو نیب کے شکنجے میں ہیں۔ پیشیاں پڑ رہی ہیں اور ایک کالم نگار سے غیر رسمی انٹرویو میں چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال نے آصف علی زرداری سمیت ان تمام سیاستدانوں کی متوقع گرفتاری کا مژدہ سنایا ہے جو عدالتوں سے ضمانت قبل از گرفتاری کرا چکے ہیں۔ میاں نواز شریف جیل میں اور میاں شہباز شریف بیرون ملک ہیں‘ بجٹ سے قبل واپسی کا عندیہ ظاہر کر رہے ہیں مگر ان کے مزاج سے واقف سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں کو یقین نہیں کہ قہر کی گرمی میں وہ وطن واپس آ کر ابتلا کو دعوت دیں گے۔ 1990ء کے عشرے میں جب میاں منظور وٹو نے انہیں گرفتار کیا تھا تو پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا منصب چودھری پرویز الٰہی کو سونپ کر چھوٹے میاں صاحب برطانیہ چلے گئے تھے اور اس وقت واپس آئے جب میاں منظور وٹو کی وزارت اعلیٰ کا چراغ گل ہونے لگا ‘یہ چوبیس پچیس سال پہلے کی بات ہے‘ جب ان کی صحت زیادہ بہتر تھی اور عمر کافی کم۔ احتجاجی تحریک کا سارا بوجھ مریم نواز شریف اور بلاول بھٹو کے نوجوان کندھوں پر ہے۔ بلاول آصف علی زرداری کی اشیر باد کے بغیر ایک قدم اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں جبکہ مریم نواز شریف ضمانت کے باوجود ایک نئے کیس میں پھنستی نظر آ رہی ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق اسحق ڈار کے دوست اور سٹیٹ بنک آف پاکستان کے سابق گورنر طارق باجوہ نے اپنے دور میں شریف خاندان کے بنک اکائونٹس کی جو دستاویزات تحقیقاتی اداروں کو فراہم کی تھیں اور جن کی بنا پر میاں شہبازشریف کے اہل خانہ پر مبینہ منی لانڈرنگ کے الزامات لگ رہے ہیں انہی میں سے کچھ میں میاں نواز شریف اور محترمہ مریم نواز کے ذاتی اورکمپنی اکائونٹس کی چھان بین کے دوران کچھ حیران کن شواہد سامنے آئے ہیں‘ مزید چھان بین جاری ہے اور عیدالفطر کے بعد ان دستاویزات سے پنجابی محاورے کے مطابق ’’کٹا یا کٹی‘‘ نکلنے کا امکان ہے۔ یہ اس طرح کی ٹرانزیکشن ہیں جیسی آصف علی زرداری‘ میاں شہبازشریف‘ حمزہ شہباز کے اکائونٹس سے ہوئیں‘ کروڑوں روپیہ ادھر سے ادھر منتقل ہوا مگر یہ پتہ نہیں چل رہا کہ یہ دولت کمائی کس نے ‘ کیسے گئی؟ اگر پنڈورا بکس کھلا تو شریف خاندان کے مداح شائد کیا یقینا اسے حکومت کی مخالف عوامی تحریک روکنے کی سازش قرار دیں لیکن سیاسی کارکنوں اور عوام کے سڑکوں پر نکلنے کے امکانات مخدوش ہو جائیں گے،ویسے بھی احتجاجی تحریک چلانے کے لئے اپوزیشن کو اخلاقی بنیاد دستیاب ہے نہ مروجہ اُصولوں کے مطابق مقتدر قوتوں کی اشیر باد اور نہ عوام کے بڑے حصہ میں پائی جانے والی بے چینی۔1977ء کے بعد پاکستان میں ایک بھی احتجاجی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی نہ حکومت کو نقصان پہنچا‘ حتیٰ کہ میاں نواز شریف نے لانگ مارچ کے ذریعے عدلیہ بحال کرالی مگر زرداری حکومت اگلے چار سال دھڑلے سے کام کرتی رہی۔ اپوزیشن کی بے مائیگی‘ عوام کی احتجاجی تحریک سے لاتعلقی اور اسٹیبلشمنٹ کی عدم دلچسپی کا مگر یہ ہرگز مطلب نہیں کہ راوی چین لکھتا ہے اور حکومت کو کشتوں کے پشتے لگانے کی آزادی کی ہے۔ حکمرانوں کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ حالات خراب ہیں‘ لوگ پریشان ہیں اور اصلاح احوال کی کوششیں تاحال کامیابی سے ہمکنار ہوتی نظر نہیں آ رہیں۔ سابقہ دور حکومت کے بارے میں عمران خان کا تجزیہ تھا کہ کرپٹ نااہل اور مفاد پرست عناصر معاشی بدحالی کے ذمہ دار ہیں اور حکومتی وسائل عوامی فلاح و بہبود پر خرچ ہونے کے بجائے اشرافیہ کی عیش و عشرت پر صرف کئے جا رہے ہیں اندرون ملک لوٹ مار اور سرمائے کی روزانہ کی بنیاد پر بیرون ملک منتقلی کو روک کر اربوں روپے بچائے جا سکتے ہیں جس سے تعلیم‘ صحت اور روزگار کے منصوبے مکمل کئے جائیں گے۔ بلاشبہ حکومت تعلیم اور صحت کے منصوبوں کو اولیت دے رہی ہے قومی سرمایہ وزیروں مشیروں کے اللوں تللوں پر ضائع کیا جا رہا ہے نہ ابھی تک اعلیٰ سطح پر کرپشن کا کوئی سکینڈل سامنے آیا ہے مگر بدانتظامی اور بدحواسی ہر سطح پر واضح ہے اور مہنگائی کو روکنے کے لئے حکومتی کوشش ناکامی سے دوچار۔ احتساب کا عمل بھی رک سا گیا ہے اور لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے لئے کسی سنجیدہ کوشش و تدبیر کا سراغ لگانا مشکل ہے۔ اپوزیشن اور اس کا ہمنوا میڈیا حکومت کی ناتجربہ کاری‘ نااہلی ‘کمزور انتظامی گرفت اور عوامی مسائل و مشکلات سے لاعلمی کا تاثر اجاگر کرنے میں سردھڑ کی بازی لگا رہے ہیں اور غلط یا صحیح یہ تاثر بھی ابھارا جا رہا ہے کہ عمران خان کو لانے والے بھی مایوسی کا شکار ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک نوزائیدہ حکومت کے بارے میں یہ تاثر تباہ کن ہے مگر اسے دورکرنا عمران خاں اور ان کے ساتھیوں کی ذمہ داری ہے جو تاحال اپنے آپ میں مگن ‘حکمرانی کو انجوائے کر رہے ہیں۔ ٹیکنو کریٹس کی آمد سے معاملات نہ سدھرے تو مایوسی کا دائرہ وسیع ہو گا اور اپوزیشن کے حوصلے بلندتر۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو تو شائد اسے کیش نہ کرا سکیں مگر وہ جو فارسی میں کہتے ہیں جائے خالی را دیواں ہی گیرند کوئی نہ کوئی تو اس خلا کو پر کریگا جو حکومت کی ناتجربہ کاری اورکمزور انتظامی گرفت سے پیدا ہو سکتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ نوجوانوں کی آس امید عمران خان کے ہاتھوں ٹوٹے کہ 1980ء اور 1990ء کے عشرے میں پیدا ہونے والے نوجوان نے پرانے بتوں کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائی ہے۔ اس نسل کو مایوس ہرگزنہیں ہونا چاہیے۔