سندھ کے بلدیاتی الیکشن میں پیپلز پارٹی کی جیت میرے جیسے عام بندے کو سمجھ نہیں آرہی۔گزشتہ پندرہ سال سے پیپلز پارٹی سندھ پر حکمران ہے۔صوبے کی حالت یہ ہے کہ 70 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ لاڑکانہ جہاں بھٹو خاندان تقریبا ڈھائی سو سال سے کسی نہ کسی صورت حکمران رہا ہے وہاں سیکڑوں بچے جن کی عمریں شیرخوارگی سے لے کر سات آٹھ سال تک تھیں ، پر اسرار طور پر جان لیوا وائرس ایچ آئی وی کے کیریئر نکلے۔میں نے اس وقت بھی کالم تھا ،جس کا عنوان تھا : اب ہر گھر سے بھٹو نہیں ایڈز کا مریض نکلتا ہے۔ اس کالم سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے۔اس اقتباس کو بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کی حالیہ شاندار کامیابی کے تناظر میں پڑھیں تو" مزا" دو بالا ہو جائے گا : "بھٹوز سے عشق کا یہ سفر ‘ زیاں کاری‘ رائیگانی‘ غربت‘ رنج اور افلاس کا سفر رہا اوراس کا نقطہ عروج یہ ہے کہ بھٹو کے لاڑکانہ کو دنیا اب ایڈز زدہ مریضوں کے حوالے سے جانتی ہے۔ سندھ میں کراچی کے بعد لاڑکانہ میں سب سے زیادہ HIVوائرس کے کیریئراور ایڈز کے مریض ہیں۔ اب ہر گھر سے بھٹو نہیں ایڈز کا مریض نکلتا ہے۔ زوال کا یہ سفر غالباً2003ء سے شروع ہوا جب لاڑکانہ میں ایڈز کے مریضوں کی تشخیص ہوئی۔ اس کے بعد 2016ء میں ایڈز کا وائرس نزلے زکام کی طرح پھیلا لیکن اس خبر کو دبا لیا گیا۔ اس کے سدباب کے لئے بھی کچھ نہ کیا۔2019 میں تیسری بار ایڈز کے وائرس نے تباہی مچائی۔ لاڑکانہ اور رتو ڈیرو کے چھوٹے سے علاقے میں ہزاروں افراد میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی۔ سینکڑوں معصوم بچے ایڈز کے مریض بن گئے۔ بھٹو کے نام پر ووٹ لے کر اقتدار کے مزے لوٹنے والے زرداری نے سندھ کے محکمہ صحت کی حالت اتنی ابتر کر دی کہ سینکڑوں مریض بچوں کے لئے علاج کے لئے اینٹی وائرس دوا صوبے میں موجود نہ تھی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے لاڑکانہ کو گریڈ 2ایمرجنسی علاقہ قرار دیا۔ امریکی مورخ اور پروفیسر سٹینلے والپرٹ نے اپنی کتاب زلفی بھٹو آف پاکستان لکھی تو اندرون سندھ کے دورے کیے۔ خصوصاً لاڑکانہ اور گردونواح کی گوٹھوں، بستیوں کا دورہ کیا۔ عام سندھی کے بھٹو کے ساتھ عشق نے اسے سحر زدہ کر دیا۔ اس کتاب کے پہلے باب کے پہلے پیراگراف میں سٹینلے لکھتا ہے: میں جہاں جاتا لوگ جئے بھٹو کے نعرے لگاتے جس کا مطلب ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ لیکن افسوس بھٹو کے نام سے عشق کرنے والوں کو اس عشق سے سوائے رائیگانی کے اور کچھ نہ ملا۔" پندرہ سال سے پیپلز پارٹی نے سندھ کو کیا دیا۔اندرون سندھ جہاں پیپلز پارٹی کا ہولڈ ہے، لوگ بھٹو کے عشق میں گرفتار ہیں ، آج بھی بھوکے پیٹوں جئے بھٹو کے نعرے لگاتے ہیں ۔ ان خاک بسر لوگوں کو مناسب روٹی ،پانی، تعلیم اور صحت کی سہولتیں تک میسر نہیں ۔آج بھی اندرون سندھ لوگ اپنے مریضوں کو ریڑھیوں پر لاد کر شہر کی جانب لے کے جاتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کا اتنی آسانی سے جیت جانا بہت سے سوالوں کو جنم دیتا ہے۔مجھے تو اس سے مایوسی بھی ہوئی۔ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک سردار اور قبائلی نظام کے تحت سماج کے غریب غربا کو شعور سے دور رکھا جاتا ہے تاکہ انہیں اپنے حقوق کا کچھ پتہ نہ ہو۔ تاکہ وہ سیاہ کریں یا سفید ان کی رعایا بن کے یہ بدحال لوگ ان کو ہمیشہ اقتدار کے ایوانوں میں بھیجتے رہیں ۔ سندھ کے بلدیاتی انتخابات سے غالباً دو دن پہلے سپریم کورٹ کا صوبہ سندھ میں گھوسٹ سکولوں کے حوالے سے ریمارکس آئے ۔پاکستان میں 11000 گھوسٹ سکولوں میں سے سات ہزار گھوسٹ سکول سندھ میں ہیں۔بات صرف گھوسٹ سکولوں تک ہی محدود نہیں ہے سندھ بھر میں بہت سے ایسے ملازمین بھی تنخواہیں لے رہے ہیں جو فائلوں میں نام کی حد تک درج ہیں لیکن ان کا وجود نہیں ہے۔ معاصر انگریزی اخبار کی رپورٹ ہے کہ صرف لاڑکانہ ڈسٹرکٹ میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں 293 گھوسٹ ملازمین کام کررہے ہیں۔سب سے زیادہ تباہ کن صورتحال گھوسٹ سکولوں کا وجود ہے۔سرکار کی فائلوں میں اسکول موجود ہے ، اساتذہ موجود ہیں اور دور دراز دیہاتوں میں ان سکولوں میں علم بانٹنے کا سلسلہ جاری ہے۔ان سکولوں کے لئے جن کا وجود ہی نہیں سرکار کے خزانوں سے کروڑوں کے فنڈ جاری ہوتے ہیں۔ پینے کا صاف پانی اس وقت اندرون سندھ میں سب سے بڑا مسئلہ ہے اور کراچی میں بھی جو پاکستان کا کاسموپولیٹن شہر ہے۔ صاف پانی پر کام کرنے والے ایک سرکاری ادارے نے چند سال پیشتر کراچی بھر سے پانی کے نمونے اکھٹے کیے ۔ان کا تجزیہ دل دہلا دینے والا تھا کہ کراچی کا اسی فیصد پانی پینے کے قابل نہیں اس میں انسانی فضلہ شامل ہے۔ اندرون سندھ میں پانی سے ہونے والی بیماریوں اور صاف پانی کی کمیابی کا ایک کیس2017میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں زیرسماعت رہا ہے۔ اس میں کہا گیا تھا کہ اندرون سندھ کے پانی میں جگر کی مختلف بیماریوں کے وائرس پائے گئے ہیں۔ یہ پانی پینے سے لوگوں میں جان لیوا بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ اس صورتحال کے باوجود پیپلز پارٹی کا بلدیاتی انتخابات میں لیڈ حاصل کرنا ان پاکستانیوں کو ہضم نہیں ہو رہا ہے جن کا اگرچہ سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں لیکن وہ حالات کی ابتری کو سمجھتے ہیں اور پاکستان سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ جماعت اسلامی نے ان نتائج سے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے اور سیدھا سیدھا انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا ہے۔۔ بلدیاتی انتخابات کے لیے اگر کوئی جماعت پرعزم تھی تو وہ جماعت اسلامی تھی جس نے اس پر کافی عرصے سے کام کرنا شروع کردیا تھا جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن بہت سرگرم رہے ہیں ۔ان کی ایک ہوا بنی ہوئی تھی ۔سوشل میڈیا پر اس کا عکس بھی نظر آتا رہا کہ لوگ ان کے حق میں لکھتے رہے۔ پی ٹی آئی کو اس انتخاب میں کافی سیٹ بیک لگا جو کہ متوقع بھی تھا۔ بہرحال ان بلدیاتی انتخابات کے نتائج مایوس کن رہے ہیںکہ پیپلز پارٹی کے پندرہ سالوں میں صوبے کے مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھتے رہے ہیں۔ اب انہی کے نمائندے بلدیاتی حکومتیں بناکر کو ن سا تیر مار لیں گے۔ ٭٭٭٭٭