یورپی یونین نے بھارت سے کہا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں چھ ماہ سے عائد پابندیاں فوری طور پر ختم کرے۔قبل ازیں یورپی یونین کے 626اراکین نے مقبوضہ کشمیر میں پابندیوں اور بھارت میں شہریت قانون کے خلاف گزشتہ ماہ کے آخر میں ایک قرار داد پیش کی تھی۔مظلوم کشمیریوں اوربھارتی مسلمانوں کے حق میں بین الاقوامی برادری کی یہ پہلی آواز اٹھی ہے جس نے بھارت کو بدحواس کر دیا ہے۔عالمی سطح پر بھارت کو مسلسل خفت کا سامنا ہے۔ یورپی یونین ایک بڑا تجارتی بلاک ہے۔ بھارت نے یورپی مارکیٹ میں جگہ بنانے کے لئے بڑے پاپڑ بیلے ہیں۔5اگست 2019ء کو مودی حکومت نے جب بھارتی آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو یکطرفہ طور پر ختم کیا اور پوری مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ کر دیا تو اس اقدام کو ریاستی جبر کی شکل میں دیکھا گیا۔ مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ کی سروس معطل کر دی‘ بہت سے علاقوں میں ٹیلی فون رابطوں پر پابندی لگا دی‘ پولیس سے ہتھیار لے کر فوج کو دیدیے۔ بھارتی فوج کو حکم دیا گیا کہ وہ کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کرے اور جس پر حریت پسندوں کے ساتھی ہونے کا شک ہو اسے قتل کر دیا جائے۔ چھ ماہ کے دوران بھارتی اہلکاروں نے مقبوضہ کشمیر کی معیشت تباہ کر دی۔ کشمیریوں کے باغات کاٹ دیے اور ان کی دکانوں و گھروں کو آتش گیر مادے کی مدد سے خاکستر کر دیا۔ اس صورتحال کی جانب پاکستان نے عالمی برادری کو متوجہ کیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھارتی اقدامات کو خطے اور عالمی امن کے لئے خطرناک قرار دیا۔دنیا کو بتایا کہ بھارت کشمیریوں پر کس طرح مظالم کر رہا ہے۔ پاکستان نے یورپی یونین‘ او آئی سی‘ شنگھائی تعاون تنظیم اور دیگر عالمی اداروں میں بھارت کی طرف سے بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کا سلسلہ شروع کیا۔ بھارت نے پاکستان کے متحرک کردار کو روکنے کے لئے الگ سے حکمت عملی تیار کی گئی۔ امریکہ میں صدر ٹرمپ اگرچہ تین بار کشمیر کے معاملے پر ثالثی کی پیش کش کر چکے ہیں لیکن بھارت کی وجہ سے ان کی حکومت نے کشمیر کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے تاحال کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔ مودی حکومت نے یورپی یونین سے چند اراکین پارلیمنٹ اور سیاسی نمائندوں کو مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرانے کا فیصلہ کیا۔ کوشش کی گئی کہ دورہ کرنے والے افراد کا تعلق مسلمانوں کے سخت مخالفین سے ہو۔یورپی وفد کو جب مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرایا گیا تو مقامی آبادی کو بندوقوں کے زور پر گھروں میں بند رہنے پر مجبور کیا گیا۔ یورپی پارلیمنٹ کے 27اراکین کے لئے یہ تعجب خیز تھا کہ انہیں مقامی آبادی سے ملنے نہیں دیا گیا۔مودی حکومت نے اس دورے کو پرائیویٹ دورہ قرار دیا۔ اس دورے کا اہتمام بھارت کے مشیر سلامتی نے ایک یورپی تھنک ٹینک کی مدد سے کیا تھا۔اس دورے کا مقصد دنیا کو بتانا تھا کہ کشمیر میں حالات اس قدر ابتر نہیں جیسا کہ پاکستان بتا رہا ہے۔یورپی نمائندوں کی پرورش ایسی بنیادوں پر ہوتی ہے کہ وہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو کسی صورت درست قرار نہیں دیتے۔ مودی حکومت کی بدقسمتی کہ وہ جن افراد کو مسلم دشمن سمجھ کر مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرا رہے تھے انہوں نے یہاں انسانی حقوق کی صورت حال کو بدترین قرار دیا۔ یہ لوگ جب واپس گئے تو انہوں نے کشمیرمیں بھارتی فوج کے مظالم اور کشمیریوں کی حالت زار سے باقی لوگوں کو بھی آگاہ کیا۔ یوں مودی حکومت اپنے ہی کھودے گڑھے میں جاگری۔ سیکولر ایجنڈے سے انحراف اور انتہا پسندی پر مبنی پالیسیوں کو فروغ دینے پر بھارتی حکومت کے خلاف بین الاقوامی سطح پر ناپسندیدہ تاثر ابھر رہا ہے۔ بھارت کو لبرل جمہوری اقدار پر یقین رکھنے والی ریاست سمجھا جاتا تھا۔ اب اس کی شناخت ہندو توا اور تشدد پسندی کے حوالے سے مضبوط ہو رہی ہے۔ بھارتی اقدامات کو اس کے دوست ملک امریکہ میں بھی تنقید کا سامنا ہے جہاں سینٹ کی امور خارجہ کمیٹی نے جنوبی ایشیا میں انسانی حقوق کی صورت حال پر بحث کے دوران بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں اقدامات کو خاص طور پر ہدف تنقید بنایا۔ یورپی یونین کی قرار داد میں جہاں بھارت میں بدنام زمانہ شہریت قانون کو متعصبانہ قرار دیا گیا وہاں کشمیر کی آئینی حیثیت کو یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے کے فیصلے کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ بھارت نے کبھی بھی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں دیا۔ یورپی یونین کی قرار داد میں پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیاہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر اور شہریت قانون سے متعلق اپنے متنازع فیصلے واپس لے۔ یورپی یونین کی قرار داد میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت تنازعات کے پرامن حل کے لئے مذاکرات کا سلسلہ شروع کرے۔ یہ قرار داد بھارتی حکومت اور پارلیمنٹ کے علاوہ یورپی کمیشن کے چیفس کو بھیج دی گئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان خود کو کشمیریوں کا سفیر قرار دیتے ہیں۔ ان کی مساعی نے یقینا عالمی برادری کو بیدار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل ایک سال میں دوبار اس معاملہ کو زیر بحث لا چکی ہے۔ سفارتی تنہائی کی طرف دھکیلے جانے والے اور معاشی بحران کے شکار پاکستان نے دنیا کو تباہ کن جنگ سے بچانے کے لئے پاک بھارت تنازعات کو پرامن طریقے سے طے کرنے کے حق میں جو آواز بلند کی تھیں عالمی برادری کی جانب سے اس کا مثبت جواب آنا شروع ہو گیا ہے۔