چونکہ قوموں اور ملکوں کے رویوں کی بنیاد انسانی فطرت پر تشکیل ہوتی ہے اِس لیے افراد کی طرح عالمی سیاست کے میدان میں ملک بھی اپنے مفاد کو عزیز رکھتے ہوئے اِسی کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں۔ اِس کی تازہ مثال فرانس کے صدر میکرون کے حالیہ دورہ اَمریکہ کی دی جاسکتی ہے جس کے دوران انہوں نے فرانس سمیت یورپی یونین کے ملکوں کے تجارتی مفادات کے تحفظ کی بات کی ہے اور اَمریکی حکومت کی طرف سے اَمریکی کمپنیوں کو دی جانے والی تجارتی رعایتوں پر تحفظات کا اِظہار کیا ہے۔ اِسی طرح یوکرائن، جو کہ 1945 کے بعد سے کسی یورپی ریاست پر سب سے بڑا حملہ ہے، اَمریکہ اور فرانس کے لیے سب سے زیادہ دباؤ کا مسئلہ ہے اَگرچہ بائیڈن اورمیکرون کے درمیان ہونے والی ملاقات میں سخت سردیوں کے مہینوں میں مضبوط حمایت جاری رکھنے اور کیف کی حمایت کرنے کا عزم کیا گیا ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ فروری میں حملے کے آغاز کے بعد سے بائیڈن نے اب تک روسی صدر پیوٹن سے بات کرنے کی مزاحمت کی ہے، جبکہ میکرون مذاکرات کی آپشن کے حامی ہیں اور بات چیت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ فرانس اور امریکہ کے باہمی قریبی تعلقات صدی پرانے ہیں۔ دونوں ملک جنگ عظیم اوّل اور جنگ عظیم دوئم میں بھی حلیف تھے جبکہ جنگ عظیم دوئم کے بعد سوویت کیمونزم اور مغربی لبرل جمہوریت کے مابین نظریاتی بنیاد پر شروع ہونے والی کشمکش، جسے دنیا "سرد جنگ" کے نام سے جانتی ہے، کے دوران بھی امریکہ اور فرانس مضبوط اور قریبی حلیف رہے ہیں اور 1949 میں قائم ہونے والے فوجی اتحاد نیٹو( NATO ) کے پلیٹ فارم پر بھی دونوں ممالک قریبی ساتھی ہیں۔ اِگرچہ فروری 2022 میں یوکرائن پر ہونے والا روسی حملہ دونوں ملکوں کے باہمی مفادات کو مشترک بناتا ہے مگر اِس کے باوجود معاشی مفادات سمیت عالمی سیاست کے میدان میں کچھ اِیشوز ایسے ہیں جن پر اَمریکہ اور فرانس کے درمیان مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ میکرون اور بائیڈن کے درمیان ہونے والی ملاقات میں یوکرائن جنگ، انڈو پیسیفک میں چین کے بڑھتے ہوئے جارحانہ عزائم اور صدر بائیڈن کے دستخط شدہ موسمیاتی قانون کے پہلوؤں پر یورپی ممالک کے مایوسی کے خدشات جیسے اِیشوز بات چیت کے اِیجنڈے میں سرِفہرست تھے جبکہ یہی نکات دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کے مستقبل کی سمت کا تعین کریں گے۔ صدر میکرون نے ملاقات کے آغاز میں یوکرائن میں "مشکل وقت" کو تسلیم کیا ہے اور آب و ہوا کے بارے میں یورپی ملکوں کی طرف سے تجویز کیے گئے اقدامات کو بہتر طور پر ہم آہنگ کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ دوسرا اہم اِیشو یہ ہے کہ یورپی رہنماؤں نے اِس سال اگست میں بائیڈن کے دستخط کردہ قانون سازی پیکیج کے بارے میں شکایت کی ہے، جو امریکی ساختہ مصنوعات کے لئے بڑے پیمانے پر سبسڈی کی پیش کش کرتا ہے، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ غیر امریکی کمپنیوں کو غیر منصفانہ طور پر نقصان پہنچا ہے اور یہ یورپی ممالک کی معیشتوں کے لئے ایک سنگین دھچکا ہوگا کیونکہ یورپی ممالک روس اور یوکرائن کے درمیان فروری سے جاری جنگ سے ہونے والے نتائج سے نمٹ رہے ہیں۔ میڈیا کی اِطلاعات کی مطابق لائبریری آف کانگریس میں امریکی قانون سازوں کے ساتھ ایک ملاقات میں، میکرون نے کہا کہ افراط زر میں کمی کا قانون یورپی کمپنیوں کے لیے "انتہائی جارحانہ" ہے جبکہ اَمریکی قیادت کے مطابق یہ قانون سازی "یورپی فرموں کے لیے اہم مواقع کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کی توانائی کی حفاظت کے فوائد بھی پیش کرتی ہے"۔فرانس اور امریکہ کے باہمی تعلقات میں بگاڑ کی اِیک وجہ ستمبر 2021 کے دوسرے عشرے میں ہونے والا آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ کے مابین آکس AUKUS)) کے نام سے طے پانے والا سہ ملکی دفاعی معاہدہ تھا جس کے نتیجے میں امریکہ نے آسٹریلیا کو کروز میزائل اور ایٹمی آبدوزیں فراہم کرنا تھیں۔ اگرچہ اِس معاہدہ کی رو سے تینوں ممالک کی دفاعی صلاحیتیوں کو مزید مضبوط ہونا تھا مگر آکس معاہدہ کا فوری اثر یہ ہوا کہ آسٹریلیا نے فرانس سے روایتی آبدوزیں خریدنے کے لیے 2016 میں طے ہونیوالا کئی ارب ڈالر کا معاہدہ ختم کر دیا۔ فرانس اور آسٹریلیا کے درمیان اِس دفاعی سودے کے مسترد ہونے سے فرانس اور اَمریکہ کے تعلقات کو دھچکا لگا۔ اگر روس یوکرائن پر حملہ نہ کرتا تو شاید فرانس اور امریکہ کے دوطرفہ تعلقات میں مزید بگڑ جاتے۔ فرانس گزشتہ کچھ سالوں سے یورپی یونین کی آزادانہ اور خود مختار سیکورٹی پالیسی کا حامی ہے جس میں اَمریکہ پر اِنحصار کم سے کم ہو۔ موجودہ فرانسیسی صدر میکرون اِسی پالیسی کے بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ گزشتہ سال افغانستان سے اَمریکہ اور اِتحادی افواج کے اِنخلا کے وقت بھی یورپی ممالک کی سیکورٹی کی مشترکہ اور مربوط پالیسی کی کمی دیکھنے کو ملی جب نیٹو اِتحاد میں شامل یورپی ممالک افغانستان سے اپنے فوجی دستوں کی بحفاظت واپسی کے لیے اَمریکہ پر انحصار کر رہے تھے۔ اب فرانس کی خواہش ہے کہ جرمنی ، جو کہ یورپ کی سب سے مضبوط معیشت ہے، کے ساتھ مل کر یورپی یونین کی ایک مشترکہ دفاعی پالیسی اختیار کی جائے تا کہ دفاعی محاذ پر یورپی ممالک کا امریکہ پر اِنحصار ختم ہوسکے۔ 26 ستمبر 2021 کو فرانس اور یونان کے مابین اسٹریٹجک دفاعی شراکت داری کا معاہدہ بھی اِسی سلسلے کی ایک کڑی معلوم ہوتا ہے جِس کے تحت فرانس یونان کو چھ سے آٹھ جنگی جہاز فراہم کرے گا۔ اِس تناظر میں اگر یوکرائن جنگ کے یورپ پر ہونے والے ممکنہ اَثرات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ روس کے یوکرائن پر حملے کا سب سے زیادہ فائدہ اَمریکہ کو ہوا ہے کیونکہ یورپ کی سیکورٹی کے لیے اَمریکہ اور نیٹو جیسے دفاعی اِتحاد کی اہمیت میں ایک دفعہ پھر اِضافہ ہوگیا ہے جبکہ فرانس اور جرمنی کی یورپ کو اِمریکہ کے اَثرورسوخ سے نکالنے کی کوششیں کامیاب ہوتی نظر نہیں آتیں۔