ایسی ہی جمہوریت کا کوئی مظہر اقبالؔ نے دیکھا ہوگا یا شاید اس کا تصور کیا ہوگا، جب آپ نے کہا تھا گریز از طرزِ جمہوری نظامِ پختہ کارے شو از مغزِ دو صد خر فکرِ انسانیِ نمی آید اس طرزِ جمہور ی سے بچو کہ گدھے دو سو بھی ہوں تو ان کے دماغ سے ایک انسان کی فکر نمودار نہیں ہو سکتی۔ لاہور کے لکشمی چوک سے گزرتے ہوئے لمحہ بھر کو میں ٹھٹک گیا۔ اب وہاں بلند و بالا عمارتیں کھڑی ہیں، جہاں کبھی ایک پرنٹنگ پریس ہوا کرتا تھا۔ کہا جاتاہے کہ بر صغیر کا سب سے بڑا پرنٹنگ پریس۔ یہ 1969ء یا 1970ء ہوگا، جب یہ عمارت دیکھی۔ حدِ نظر تک مشینوں کا ایک سلسلہ۔ ایک ناقابلِ یقین وسعت۔ یہ ایک ہندو سیٹھ کی ملکیت تھی۔ یہ دو اخبار نویسوں کے ہاتھ لگی، جو مسلم لیگ سے وابستہ تھے۔ کرپشن اب بہت بڑھ گئی ہے اور کبھی کبھی تو ایسا لگتاہے کہ یہی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہ بات ہم بھول جاتے ہیں کہ لوٹ مار کا آغاز 14اگست1947ء کے فوراً بعد ہو گیا تھا۔ کاروبار سکھوں اور ہندوؤں کے ہاتھ میں تھا۔ مسلمانوں کی چند ایک ہی دکانیں تھی، چھوٹے چھوٹے کاروبار۔ وہ سپاہ گری میں تھے، کچھ سرکاری ملازمتوں میں یا زمیندار۔ بہت سی زمینیں ہندو مہاجنوں کے ہاں گروی پڑی تھیں۔ سندھ کا حال بھی یہی تھا۔ تعیش کے عادی جاگیردار قرض پہ جیتے رہتے۔ یہ جائیدادیں اگر حکومت کی ملکیت رہتیں؟ یا بعد ازاں الاٹمنٹوں کا جائزہ لیا جاتا کہ کہاں کہاں گھپلے ہوئے۔اس خزانے سے ملک کی حالت شایدسنواری جا سکتی۔بھوکے پیٹ بھرے جا سکتے، ننگے سر ڈھانپے جا سکتے۔ ہسپتال اور تعلیمی ادارے تعمیر کیے جا سکتے۔ صنعت کاری ہوتی اور ملک جدید دور میں داخل ہو جاتا۔ یہ مگر کیسے ممکن ہوتا۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد چند برس میں کتنی ہی وزارتیں بدلیں۔ بعض وزرائے اعظم کو تو چند ماہ ہی نصیب ہو سکے۔ سکندر مرزا اور غلام محمد، اوّل افسر شاہی کے کل پرزے مسلط ہوئے۔ پھر فوجی حکومت۔ دس سال تک ایوب خان کوس لمن الملک بجاتے رہے۔رخصت ہوئے تو مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے بیج بوئے جا چکے تھے۔ بنگالی قوم پرستی کی تحریک اتنی طاقتور تھی کہ کنفڈریشن کے سوا اندمال کا کوئی قرینہ ممکن نہ تھا۔ کون مگرغور کرتا۔ آنے والے مہ وسال کی فکر کس کو تھی۔ من مانی کرنے والے حکمران یا ایجی ٹیشن برپا کرنے والے دلاور۔دنیا بدل رہی تھی مگر ہم خودشکنی میں مصروف رہے۔تیس پینتیس برس فوجی حکومتوں کی نذر ہو گئے۔ ڈکٹیٹر آئے یا نام نہاد جمہوری حکمران، سول ادارے تعمیر کرنے کی ضرورت کسی نے محسوس نہ کی۔ کسی کو ادراک نہ تھا کہ اچھی پولیس، اچھی عدلیہ، جدید سول سروس اور ٹیکس جمع کرنے والے شفاف ادارے کے بغیر عہدِ جدید کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونا ممکن ہی نہیں۔ جنگوں سے فرصت ہوتی تو مغل بادشاہوں کے بیشتر ایام تفریح کی نذر ہوتے۔ظہیر الدین بابر کو جیسے ہی استحکام ملا، اس نے سری نگر کا رخ کیا۔ گوارا موسم میں ٹیکسلا سے چند میل آگے گزرہوا تو چشموں نے نگاہ خیرہ کی۔ اسے فرغانہ یاد آیایا شاید کابل، جہاں بالاخر وہ دفن ہوا۔ تین دن تک وہیں رکا رہا۔ اکبر کے سوا، جسے پندرہ سال لاہور میں بتانا پڑے کہ پنجاب اور نواح میں گرفت مضبوط ہو جائے، گرما کا پورا موسم مغل حکمران کشمیر میں گزار دیا کرتے۔ جہانگیر سری نگر میں مقیم تھا، جب شاہ جہاں نے بغاوت کی۔ ایک کے بعد دوسرا علاقہ تاراج کرتا ہوا جہلم آپہنچا۔ اگرچہ جنگیں اسے بھی درپیش رہیں اور پورے چار عشرے تک لیکن یہ اورنگزیب ہی تھا، جس نے ایک مستحکم نظام قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی۔شہنشاہ کو احساس تھا کہ درباری مسخروں اور عیش و نشاط کی محفلوں نے مسلم اقتدار کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ بادشاہ نے ایک دن محل کے سامنے سے ایک جنازہ گزرتے ہوئے دیکھا، کچھ عجیب سا۔ پوچھا تو بتایا گیا کہ موسیقی کا جنازہ ہے۔ عالمگیر فصیح بہت تھا۔ بس ایک جملہ کہا:ذرا اسے گہرا دفن کرنا۔ بعض مسلم علما کے نزدیک موسیقی حرام نہیں لیکن زندگی کی مہلت اور انسانی فکر اگر طاؤ س و رباب ہی میں گم ہو جائے تو آسودگی کی خواہش قوتِ عمل کو مقتل میں لے جاتی ہے۔ علاؤ الدین خلجی کے بعد پہلی بار معیشت اس قدر استوار ہوئی کہ مہنگائی کم ہونے لگی۔ ایک عام کسان یا مزدور کی زندگی میں کسی قدر رونق پیدا ہوئی۔ کہاجاتاہے، ایک دن کی مزدوری سے ہفتہ بھر کی غذائی ضروریات پوری کی جا سکتیں لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ جاگیرداری، امرا اور جنرلوں کی آلودہ زندگیوں میں متغیر دنیا کے فہم کا سوال ہی نہ تھا۔ یورپ میں سائنسی علوم کے ادارے ابھر رہے تھے۔ طویل تاریک صدیوں کے بعد، جسے ظلمات کا زمانہ کہا جاتاہے، اب نشاۃِ ثانیہ کی ابتدا تھی۔ صنعتی انقلاب کی بنا رکھی جا رہی تھی۔ سمندروں پہ یورپ کی حکمرانی تھی؛چنانچہ عالمی تجارت پر بھی۔ اورنگزیب کو دنیا سے رخصت ہوئے ایک عشرہ بھی نہیں گزرا تھاکہ مغل حکومت رفتہ رفتہ بکھرنے لگی؛حتیٰ کہ بے معنی ہو گئی۔ مغل حکمرانوں کے باب میں اس عہد میں یہ کہا جاتا:’’سلطنتِ شاہِ عالم، از دلّی تا پالم‘‘۔ پالم نواح میں ہے، جہاں اب دہلی کا ہوائی اڈہ قائم ہے۔ آج بھی وہی آپا دھاپی ہے۔ وزیرِ اعظم کی اوّلین، شاید واحد ترجیح یہ ہے کہ سیاسی مخالفین کو دفن کر دیا جائے۔ باقی بھی دیکھا جائے گا۔ متحدہ اپوزیشن کے لیے مولانا فضل الرحمٰن کی کاوش پہ سوچتے ہوئے دھیان بھٹک کر کہیں اور نکل گیا۔ اگر اپوزیشن کی تباہی‘ حکومت کی سب سے بڑی خواہش ہے۔ اگر اپوزیشن کی تمنا حکومت کو اکھاڑ پھینکنا اور اقتدار ہتھیانے کے سوا کچھ بھی نہیں تو نتیجہ کیا ہوگا۔ سپین میں مسلم اقتدار کا آخری عہد تھا۔ آ ج ایک حکمران پر گھوڑے دوڑائے جاتے اور اعلان ہوتا کہ وہ بدعنوان تھا۔ کل دوسرے پر اور اسے پہلے سے زیادہ جرائم پیشہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی؛حتیٰ کہ سناؤنی آگئی۔ پانچ سو برس سے اب مرثیے لکھے جا رہے ہیں۔ بجا کہ عمران خاں معاشی ترقی کے تقاضوں کا شعور نہیں رکھتے۔عثمان بزدار اور محمود خاں ایسے ناقص رفیق، سطحی اور عارضی پالیسیاں۔ متبادل مگر کیا نواز شریف، زرداری اور مولانا فضل الرحمن ہیں؟ ایک کم از کم اتفاق رائے میں قومیں زندہ رہتی ہیں۔ اس دھماچوکڑی، اس نفسانفسی اورہوسِ اقتدار کے مارے لوگوں کی وحشیانہ کشمکش میں ہرگز نہیں۔ ایسی ہی جمہوریت کا کوئی مظہر اقبالؔ نے دیکھا ہوگا یا شاید اس کا تصور کیا ہوگا، جب آپ نے کہا تھا: گریز از طرزِ جمہوری نظامِ پختہ کارے شو از مغزِ دو صد خر فکرِ انسانے نمی آید اس طرزِ جمہور ی سے بچو کہ گدھے دو سو بھی ہوں تو ان کے دماغ سے ایک انسان کی فکر نمودار نہیں ہو سکتی۔