منکہ ایک صحافی ہوں۔میرے صحافی ہونے کا ثبوت مانگنے والے آپ کون؟پھر بھی آپ کی اطلاع اور تشفی کے لئے یہ پریس کارڈ موجود ہے جو میں نے پریس کلب کے چکر کاٹ کاٹ کر اور کچھ چپرقناتیے صحافیوں کو اپنی جیب سے چائے کافی پلا کر اور زیرے والے بس کوٹ ٹھنسا ٹھنسا کر بڑی منتوں سے بنوایا ہے۔ان میں سے ایک شام کو شائع ہونے والے فلمی اخبار کا مدیر ہے۔اس کے نخرے ہی الگ ہیں۔ ایک توکم بخت کے پاس چسکے دار اسکینڈل ہوتے ہیں دوسرے کچھ تیسرے درجے کی اسٹیج اداکارا ئوںمثلا بے قابو ببلی اور گوگی پٹاخہ کے خفیہ وٹس ایپ نمبر بھی اس کے پاس ہیں۔وٹس ایپ نمبر کیا ہیں مارکیٹنگ مٹیریل سمجھ لیجیے۔ اب سب کچھ ٹی وی پہ دکھایا جا سکتا ہے نہ اخباروں میں شائع کیا جاسکتا ہے۔آخر کو ہماری بھی مائیں بہنیں ہیں۔ایسے میں اس ٹچے مدیر کے نخرے نہ ہوں تو کیا ہوں۔ جس دن وہ کینٹین میں کرسی کھینچ کر بیٹھے اور بغیر کچھ کہے ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر ایک ادائے بے نیازی سے اونٹ مارکہ سگریٹ سلگا لے ،سمجھ لیجیے آج کم بخت چائے میں ڈبل پتی ڈلوائے گا اور بس کوٹ کے ساتھ باسی کیک بھی تناول فرمائے گا۔تب تک اپنا کام خبر اور ویڈیو کے جان لیوا انتظار میں کیک پہ بھنبھناتی مکھیاں اڑانا اور سگریٹ سلگا سلگا کے دینا ہے۔ تب کہیں جاکر علم کے خزانے پہ بیٹھا یہ شیش ناگ منکا اگلتا ہے۔اب میرا کام بس اتنا ہے کہ اس کے بمشکل اگلے فلمی اسکینڈل سے اس کی گلابی اردو اور ناقابل اشاعت قسم کے ذاتی تبصرے منہا کرکے اسے اپنے سوشل میڈیا پہ اپ لوڈ کردوں تاکہ یہ ایک معزز صحافی کی رپورٹ معلوم ہو۔ ساتھ ہی اس کے ساتھ اپنی تصویر اس کیپشن کے ساتھ لگانا نہ بھولوں :ملک کے مایہ ناز صحافی اور روزنامہ ناگن کے مدیر اللہ دتہ چوہدری کے ساتھ ایک یادگار شام۔بس اللہ اللہ خیر صلا۔باقی کام سوشل میڈیا کرے گا۔ویسے یونہی ریکارڈ کی درستی کے لئے بتادوں کہ میں سوشل میڈیا پرسن نہیں ہوں۔بس فیس بک ،ٹوئٹر، انسٹا گرام، وغیرہ پہ ایک ایک اکاونٹ بنا رکھا ہے۔فیس بک پہ میں کبھی شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔جب میں اپنی تصاویرمعروف کاروباری شخصیات مثلا حاجی صاحب پرچون والے،شیخ مستقیم کریانے والے ، کتوں کی لڑائی کروانے والے پرنس بوبی اور شوبز کی مشہور شخصیات مثلا جیسا کہ میں نے ابھی ذکر کیا بے قابو ببلی اور گوگی پٹاخہ وغیرہ کے ساتھ شئیر کرواتا ہوں تو حاسدین کے سینوں پہ یہ موٹے موٹے سانپ لوٹنے لگتے ہیں اور وہ واہیات قسم کے تبصرے کرکے اپنی تربیت کا اظہار کرتے ہیں۔میں نے لیکن ایسا کبھی نہیں کیا کیونکہ ایک تو میں سوشل میڈیا پرسن نہیں ہوں دوسرے میری تربیت اس کی اجازت نہیں دیتی۔اس مقصد کے لئے میں نے دو الگ آئی ڈیز بنا رکھی ہیں۔ان کے ذریعے میں نے ایسے بدخواہوں کو خوب نکیل ڈال رکھی ہے۔آخر ان بدبختوں کا سد باب بھی تو ضروری ہے جو ایک عزت دار شخص پہ کیچڑ اچھال کر اپنے بغض کا ثبوت دیتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ خدا کاکرم ایسے ہی تو نہیں ہوجاتا۔اس کے لئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں تب کہیں جاکر خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں ۔ذرا دیکھئے تو میں کس کس نابغہ کی گردن میں بے تکلفی سے ہاتھ ڈالے مسکرا رہا ہوں۔یہ نادر روزگار شخصیات آپ کو شہرکی ہر ماڈرن لیکن دم بلب خاتون کے ناشتے پہ تھوک کے بھائو ملیں گی۔ویسے تو اصولاً مہینے میں تیس ناشتے ہونے چاہئیں لیکن یہ کشادہ دل و داماں خواتین آپ کو ہر ماہ پینتالیس ناشتے بھی کرواسکتی ہیں۔میں ایسے ناشتے کبھی قضا نہیں کرتا۔ایک تو صبح صبح بغیر ذلیل ہوئے ناشتہ مل جاتا ہے دوسرے اپنے تابناک ماضی کے نشے میں ابھی تک سر نیہوڑائے قریب المرگ شاعروں ، ادیبوں اور صحافیوں کی معقول تعداد بھی مفت سیلفیوں کے لئے دستیاب ہوجاتی ہے جن کے گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو د م ہے۔یہی سیلفیاں مجھے سوشل میڈیا پہ معتبر بناتی اور میرے حاسدین کی تعداد میں معقول اضافہ کرتی ہیں۔میر ا کام بس اتنا ہے کہ ایساکوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دوں۔میزبان خاتون جس نے بدقت تمام میک اپ کی تہوں کے سہارے عمر رفتہ کی لگامیں کھینچنے کی ناکام کوشش کی ہوتی ہے، کے آگے پیچھے پھرتا رہوں ۔دل پہ پتھر رکھ کر ہر پیر تسمہ پا کو کاندھوں پہ بٹھا کر ان سنہری وقتوں کی سیر کراتا رہوں جب شہر بھر میں کل ملا کر ڈھائی شاعر ادیب اور صحافی ہوا کرتے تھے جن میں اصلی تے وڈا وہی تھا جو اس وقت میرے کاندھوں پہ سوار ہے۔ ایک جاں بلب شاعر کی کوئی ہزار بار سنائی گئی نظم پہ ہر بار نئے سرے سے لوٹ پوٹ ہوتا رہوں۔ ایک مکھی مار قسم کے دانشور کی ہاں میں ہاں ملاتا رہوں۔ایک حکومت مخالف گھاگ لیکن لرزہ بر اندام صحافی جو چائے کا کپ بھی چھلکائے بغیر نہیں اٹھا سکتا حکومت کا تختہ الٹنے کے عزائم پہ واہ واہ کروں۔ایک انقلابی صحافی کی میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا کو سرخ سلام پیش کروں۔ایک ہر حکومت کو قبلہ بدل کر سجدہ ریز ہوجانے والے مرغ قبلہ نما کی ککڑوں کوں میں آواز ملائوں اور اسے عین اصول پسندی قرار دوں۔ ایک دو نمبر تجزیہ نگار جس نے پچھلے ماہ کے تیسویں ناشتے پہ اس وزیراعظم کے کسی صورت برسراقتدار نہ آنے کی پکی مہر والی فال نکالی تھی،اس ناشتے پہ کسی صورت شرمندہ نہ کروں بلکہ اسے یہ یاد بھی نہ دلاوں۔اسے خود بھی یاد نہ ہوگا البتہ اس کا غم بہت بڑا ہے۔ اس غم کو غلط کرنے کے لئے میں اس کا کپ خالی نہ ہونے دوں اور پلیٹ میں ایک سموسے کے بعد دوسرے سموسے کی بلاتعطل سپلائی جاری رکھوں۔وہ اس حکومت کے لرزنے اور کسی بھی وقت دھڑام سے گرپڑنے کے تجزئیے پورے صمیم قلب کے ساتھ گوش گزار کرے تو میں پوری قرأت کے ساتھ اس پہ ان شاء اللہ کہوں۔اور ہاں ایک ابھرتی ہوئی شاعرہ کی بے وزن شاعری پہ نگاہوں سے داد دیتے ہوئے بزرگ شاعر کو بروقت جوائن کرکے اس کارخیر میں بھی حصہ ڈالوں اور اس عفیفہ کو یقین دلادوں کہ وہ مستقبل کی قرہ العین طاہرہ ہے۔ اس ساری کارگزاری کا مجھے بس کرنا یہ ہے کہ اس کا تصویری ثبوت اپنے سوشل میڈیاپہ تواتر سے ڈالتا رہوں حتی کہ کل عالم مجھے سکہ بند صحافی،دانشور اور تجزیہ نگار تسلیم کرلے۔ ہاںیہ یاد رکھئے کہ میںسوشل میڈیا پرسن ہرگز نہیں ہوں۔