24 نومبر کی شام جب یہ خبر آنی شروع ہوئی کہ صدر مملکت جناب عارف علوی نے چیف آف آرمی اسٹاف اور چیئر مین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کے اہم مناصب پر وزیر اعظم کے تجویز کردہ ناموںکی توثیق کردی ہے،تواس خبر کے ساتھ ہی شکوک و شبہات کی وہ دھند بھی چھٹ گئی جو گزشتہ کئی مہینوں سے پاکستان کے سیاسی منظر پر چھائی ہوئی تھی۔پاکستان میں چیف آف آرمی اسٹاف کی تقرری ہمیشہ ہی اہمیت کی حامل رہی ہے۔تاہم اس دفعہ اس تقرری کے موقع پر سیاسی سطح پر جو ہنگامہ خیزی رہی اس سے ایسا لگا جیسے پاکستان میں اس کے سوا کوئی مسئلہ اہم نہیں ہے۔نہ ڈوبتی معیشت توجہ کے لائق رہی اور نہ سیلاب سے تباہ حال بے خانماں وبرباد لوگوں کی پکار کسی کے لئے اہم رہی ۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کے مخصوص سیاسی حالات میں فوج کوہمیشہ اہمیت حاصل رہی ہے مگر اس دفعہ سیاست دانوں نے اس معاملے کو متنازع بنانے کی کوشش کی، اس سے ان کی سیاسی ناپختگی اور قومی امور سے متعلق ان کے غیر سنجیدہ روئیے کا اظہار ہوا۔سیاست دانوں کے یہ غیر سنجیدہ روئیے ہی انہیں پاکستان کے سیاسی نظام میں ان کی کمزور حیثیت سے نکلنے نہیں دیتے۔سیاسی نظام میں فتح و شکست کو قبول کرنے کا حوصلہ ہی سیاست دانوں کے مقام کو متعین کرتا ہے، جمہوری سیاسی نظام میں اگر یہ وصف سیاست دانوں میں نہیں ہے تو پھر ضد ، انا اور غصہ سیاسی حکومتوں کے تسلسل میں بنیادی رکاوٹ بن جاتا ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ان رکاوٹوں کو بار بار دیکھا گیا ہے۔سیاسی نظام کی اس کمزوری سے ارادۃً فائدہ پاکستان کے سب سے زیادہ طاقتور اور مستحکم ادارے یعنی فوج کو حاصل ہوا۔یہ ایک مسلمہ حقیقت رہی ہے کہ فوج نے بر بنائے ایک منظم اور تربیت یافتہ ادارے کے طور پر پاکستان کے سیاسی اور انتظامی معاملات میں کبھی منظر پر رہتے ہوئے اور کبھی پس منظر میں رہ کر موئثر کردار ادا کیا ہے۔سیاست میں فوج کی مداخلت یا فیصلہ کن اثر اندازی سے متعلق جو گفتگو کبھی ملفوف انداز میں کی جاتی تھی جنرل قمر جاوید باجوہ کے اس خطاب کے بعد ،جو انہوں نے یوم دفاع و شہداء کے موقع پر کیا، اب برسر عام کہنے میں بھی کوئی حجاب نہیں رہا۔ جنرل صاحب نے اپنے خطاب میں پاکستان کے داخلی سیاست میں فوج کی ستر سالہ مداخلت کا اعتراف کرتے ہوئے اسے غیر آئینی قرار دیا اور اس بات کی یقین دہانی بھی کرائی کہ اب فوج کی اعلی قیادت نے اس سے رجوع کرتے ہوئے اپنی آئینی حدود میں رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اسی کے ساتھ انہوں نے ملک کی سیاسی قیادت کو بھی یہ مشورہ ( ہدایت) دینا ضروری سمجھا کہ وہ سیاست میں عدم برداشت کے رویوں کو تبدیل کریں۔اور جمہوری روایت کے مطابق انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے کی روش کو اپنائیں۔بادی النظر میں توان ارشادات سے اختلاف کسی کے لئے بھی ممکن نہیں مگر ہر دو فریق ، فوج اور سیاست دان ، کیا ایسا کر پائیں گے ؟ پاکستان کی سیاسی تاریخ ، ملک کے سماجی اور معاشی حالات اور خطے کی عالمی سیاسی اہمیت کے تناظر میں دفاعی افواج کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیش نظر کیا فوج ملک کے سیاسی معاملات سے اپنے روایتی اور مستحکم مداخلتی تعلق سے دستبردار ہو نے کے لئے تیار ہو جائیگی ؟ اور کیا سیاست دان جمہوری اقدار کے مطابق امور حکمرانی انجام دینے کے لئے خود کو آمادہ کر پائینگے۔ ؟ موجودہ کشیدہ سیاسی صورتحال میں اگرچہ اس کے امکانات کم ہیں مگر ایسا ہونا اب ضروری ہو گیا ہے۔ پاکستان کی موجودہ سرکردہ سیاسی قیادت کو اس پیمانہ پر اپنا محاسبہ کرنے کی شدید ضرورت ہے۔جنرل باجوہ کے اس اعلان اور اعتراف کے بعد اب یہ پاکستان کے سیاست دانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ موجودہ سیاسی کشیدگی کو جمہوری روایات و اقدار کے مطابق ختم یا کم کرنے کی سنجیدہ کوششیں کریں۔ اس ضمن میں عمران خان کی ذمہ داری زیادہ ہے کہ وہ ایک بڑی سیاسی جماعت کے مقبول قائد ہیں موجودہ سیاسی کشیدگی کا اہم سبب ان کا مسلسل احتجاج پر مبنی رویہ ہے۔انہیں اس کا ادراک ہونا چاہیئے کہ سیاسی بے چینی اور غیر یقینی کیفیت ملک کے معاشی حالات پر کس قدر اثر انداز ہوتی ہے۔ان کی حکومت کو ایک سیاسی عمل کے ذریعہ ہی ختم کیا گیا تھا، انہیں اسے قبول کرنا چاہیئے تھا۔مثبت رویے کا تقاضہ تو یہ تھا کہ وہ اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد اسمبلی میں رہتے ہوئے حکومت کا محاسبہ کرتے اور انتخابات کے لئے ، جس کا وہ شدت سے مطالبہ کرتے ہیں ،سازگار ماحول فراہم کرنے میں مددگار ہوتے۔ مگر انہوں نے مثبت راستے کے بجائے منفی راستے کا انتخاب کیا ، اسمبلی کے ایوان کے بجائے سڑکوں کا انتخاب کیا۔لانگ مارچ ،دھرنے اور جلسے جلوس کی حکمت عملی کو اختیار کیا۔آٹھ ماہ ہو چکے ہیں،ان کی اس حکمت عملی سے انتخابات کا ان کا مطالبہ ہنوز تشنہ طلب ہی ہے۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ ملک کی معاشی ،سیاسی اور انتظامی صورت حال مزید ابتر ہوئی ۔عمران خاں اس ابتر صورت حال کی ذمہ دار ی خواہ کتنی شدت سے موجودہ حکومت پر ڈالیں ۔ مگر وہ خود بھی اس سے بری الذمہ نہیں ہیں ۔انہوں نے قومی اور عالمی سطح پر موجودہ حکومت کی ناکامیوں کو جس طرح بیان کیا اور قومی اداروں کو جس انداز سے ا پنی حکومت کے خاتمہ کا ذمہ دار قرار دیا ،اس سے حکومت نہیں ریاست کے مفادات کو نقصان پہنچا۔ بد قسمتی سے پاکستان کے سیاست دان حکومت سے اختلاف کرتے ہوئے دور رس ریاستی مفادات کو نظر انداز کرجاتے ہیں ۔اب بھی وقت ہے عمران خاں اپنے سیاسی رویوں اور حکمت عملی سے رجوع کریں اور اپنے مطالبات کی پذیرائی کیلئے مثبت اور درست راستے کا انتخاب کریں ۔ اپنے رویوں اور فیصلوں سے رجوع کرنے کی انہیں مشق بھی بہت ہے ۔انتخابات جب بھی ہوں گے ان کی کامیابی کے امکانات آج کے اختیار کئے ہوئے مثبت رویوں سے ہی روشن ہونگے۔فوجی قیادت کی تبدیلی کا مرحلہ بحسن و خوبی طے پا چکا ہے اور اس کے لئے سب ہی سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں تعریف و توصیف کے لائق ہیں۔اس طرز عمل کو سیاسی پیشرفت کے لئے بھی اختیار کیا جانا چاہیئے ۔ ملک اس وقت جس معاشی گرداب میں ہے اس سے نکلنے کیلئے سب کو مل جل کر مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ سیاست کی نہیں ریاست کی پکارہے اس کے بائیس کروڑ شہریوں کے مستقبل کا سوال ہے۔یہ وقت کا قومی اور عالمی تقاضہ ہے !