مایوسی کفر ہے اور امید ایمان۔ دعا، صدقہ، صفائی، علاج اور مشترکہ جدوجہد۔ ابتلا میں سبق پوشیدہ ہوتے ہیں مگر بحران میں مواقع بھی۔ پروردگار کادروازہ چوپٹ کھلا ہے اور اس کی صفتِ رحم اس کی صفتِ عدل پہ غالب ہے۔ ابھی ابھی ایک دوست نے بتایا کہ ایک مشہور میڈیکل سٹور کے مالک ظفر بختاوری نے، جس کی بہت ساری شاخیں ہیں ڈیڑھ لاکھ ماسک مفت بانٹے ہیں۔ شناختی کارڈ کی شرط کے ساتھ ہر خاندان کے لیے تین ماسک۔ اللہ ان کی نیکی قبول کرے اور دوسرو ں کوتقلید کی توفیق۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں اہلِ خیر بہت ہیں۔ پاکستانی باقی دنیا کے مقابلے میں اوسطاً دو گنا خیرات کرنے والی قوم ہے۔ ربع صدی پہلے آغا خان فاؤنڈیشن اوربرطانیہ کے بعض معتبر ادارے اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ گاہے دیر سے یہ قوم جاگتی ہے لیکن جاگ اٹھتی ہے تو معرکے سر کرتی ہے۔ تین عشرے پہلے کی بات ہے، بھارت میں بعض فیکٹریوں کے مزدور مہینوں سے ہڑتال پر تھے لیکن اخبارات میں دو سطر کی خبر بھی شائع نہ ہوتی۔ ایک بزرگ دوست لوٹ کر آئے تو بتایا:بھارتی سرمایہ دار بڑا خوں آشام ہے۔ کچی بستیاں ہیں، جہاں لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح رہتے ہیں۔ دس کروڑ افراد فٹ پاتھوں پر سوتے ہیں، ڈاک کا پتہ تک نہیں۔ پانچ برس پہلے کے ایک سروے میں معلوم ہوا کہ صرف دلّی شہر میں بھوک سے مرنے والوں کی 25لاشیں ہر روز اٹھائی جاتی ہیں۔ کروڑوں گھر بیت الخلا سے محروم ہیں۔ ہر سال ہزاروں کسان خودکشی کرتے ہیں۔ بچیوں کے والدین جیتے ہیں نہ مرتے ہیں۔ جہیز کے مطالبات خوفناک ہوتے ہیں۔ اس کے سوا کہ بیٹیاں تعلیم یافتہ اور برسرِ روزگار ہوں، قیدیوں سے بدتر، بھکاریوں کی سی زندگی وہ جیتی ہیں۔ہر سال جبر کے لاکھوں واقعات ہوتے ہیں۔ اخلاقی طور پر معاشرہ انہدام پذیر ہے۔ اقلیتوں کا حال اس سے بھی بدتر ہے۔ بدھوں اور عیسائیوں کی عبادت گاہوں پر حملے ہوتے ہیں اور مسلمانوں پر تو اس سے بھی زیادہ۔ کوئی بھی مسلمان اس الزام پر قتل ہو سکتاہے کہ اس نے گائے کا گوشت کھایا۔ بیف برآمد کرنے والے ملکوں میں بھارت سرِ فہرست ہے لیکن وہ صرف دساور کے دسترخوانوں پر سج سکتاہے۔ تیس کروڑ سے زیادہ دلّت جانوروں سے بدتر حال میں رہتے ہیں۔ شادی بیاہ تو دور کی بات ہے، دوسری ذات کے لوگوں سے وہ ہاتھ تک ملا نہیں سکتے۔ مندروں میں داخل نہیں ہو سکتے۔ گئے گزرے حالات میں بھی مسلمان طہارت اور خیرات میں بہتر ہیں۔ پاکستان کے اہلِ زر میں بھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں، مریضوں اور محتاجوں پر جو بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔ لاہور کے تقریباً تمام بڑے ہسپتالوں میں مریضوں ہی نہیں، لواحقین کو بھی تینوں وقت کا عمدہ پرہیزی کھانا آبرومندانہ طریقے سے پیش کیا جاتا ہے۔ جنابِ اکبر شہزاد نے پچھلے دنوں ٹیکنیکل ایسوسی ایٹس کے چوہدری منیر پر سنگین الزامات عائد کیے۔ ستاون سال سے میں انہیں جانتا ہوں۔ ان کے والد عمارتی لکڑی کا کاروبار کرتے تھے۔ اس زمانے میں لکڑی کا برادہ انگیٹھیوں میں جلایا جاتا تھا۔ پاس پڑوس کے لوگوں یا رشتے داروں میں سے کوئی برادہ خریدنے آتا تو گیارہ سالہ منیر پیسے لینے سے انکار کر دیتا۔ چوہدری منیر کا جرم صرف یہ ہے کہ ان کے ایک فرزند کی شریف خاندان میں شادی ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سوفیصد ذاتی معاملہ ہے اور شریف خاندان سے ان کا لین دین بھی۔ سب جانتے ہیں کہ اپنے وسیع کاروبار میں امانت و دیانت کا وہ خیال رکھتے ہیں۔ یہی نہیں، احتیاج مندوں کی بے دریغ خدمت بھی۔ رحیم یار خان کے شیخ زید ہسپتال میں تمام مریضوں کے کھانے پینے کی ذمہ داری سنبھال رکھی ہے۔ بلوچستان میں بھی ان کا کچھ کاروبار ہے۔ پانچ برس ہوتے ہیں، ایک دن میں نے انہیں فون پر کسی سے بات کرتے سنا۔ غالباً ان کا کوئی مینیجر۔ عام طور پر دھیرے سے گفتگو کرنے والا آدمی عجلت کے انداز میں بار بار یہ کہہ رہا تھا: بھائی انہیں پیسے دے دو پیسے، جتنی کہ ضرورت ہے۔ تجسس کے مارے سوال کیا کہ مسئلہ کیا ہے۔ شرماتے ہوئے کہا: بلوچوں کو حج کا ہوکا ہوتاہے۔ یہ ہمارے کچھ کارکن ہیں، جو حجاز کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اصرار ان کا یہ ہے کہ میں ان کے پاسپورٹ بنواؤں اور اجازت نامہ لے کر دوں۔ شدید مصروفیت میں یہ کس طرح ممکن ہے۔ یہ واضح تھا کہ تمام اخراجات ادا کرنے کا حکم دے چکے لیکن میرے ساتھ بات کرتے ہوئے پیسوں کا ذکر ہی نہیں کیا۔ چرچا وہ بالکل نہیں کرتے۔ لاہور میں ان کے دوست اور عم زاد بھی ایسے ہی ہیں۔ مدتوں سے دو ہزار چھوٹے کسانوں کی دستگیری کر رہے ہیں۔ قصور کے چھ دیہات کی بھی۔ ارادہ ہے کہ اس منصوبے پر ایک تفصیلی رپورٹ لکھوں۔ مزید تفصیلات پھر کبھی۔ ہر صاحبِ نعمت سے حسد کیا جاتا ہے۔ جب بھی چوہدری منیر کا میں ذکر کروں اور کیوں نہ کروں کہ میرے کہنے پر متعدد مفلسوں کی دستگیری کی تو رحیم یار خان سے کوئی احتجاجی فون ضرور آتا ہے۔ ارے بھائی سیاست الگ، کاروبار الگ۔ ظاہر ہے کہ فرشتہ وہ نہیں۔ کوتاہیاں بھی ہوں گی۔ نیکیوں کا ذکر اس لیے کیا جاتاہے کہ دوسروں کو بھی تحریک ہو۔ صنعت کاری کے سابق صوبائی وزیر، پنجاب اسمبلی کے رکن، میرے رشتے کے بھائی شفیق چوہدری پچھلے دنوں دل کے عارضے میں مبتلا ہوئے۔ دورہ شدید اور حالت خراب۔ معمول کی پرواز میسر نہ تھی۔ گا ڑی یا ٹرین پر سفر مشکل۔ چوہدری منیر کو تلاش کیا گیا تو وہ دبئی میں تھے لیکن فوراً ہی پاکستان میں پڑا اپنا ذاتی ہوائی جہاز بھیجا۔ دو برس پہلے میرے عزیز دوست میر فضلی کے لیے ہوائی جہاز فراہم کیا۔اپنے ایثار کا کبھی اشتہار نہیں دیا، جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں۔ ایک نہیں، دو بار عمران خاں نے ان پر حملہ کیا۔ ایک بار خود اور دوسری بار مکرم شہزاد اکبر کے ذریعے۔ منیر چوہدری نے کبھی تذکرہ بھی نہ کیا کہ شوکت خانم ہسپتال کے خدمت گاروں میں ہمیشہ سے وہ شامل ہیں۔ ظفر بختاوری کا ذکر تھا۔ ہم انہیں کفایت شعار سمجھتے رہے۔ وہ تو ایسے دریا دل نکلے۔ کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے اسی فیاضی اور حوصلہ مندی کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر امجد ثاقب کی اخوت، عمران خاں فاؤنڈیشن،ایدھی،92ٹیلی ویژن اور روزنامہ 92کے مالکان کی مدینہ فاؤنڈیشن اور ’’دنیا فاؤنڈیشن‘‘ کے منتظمین ایک جگہ مل بیٹھیں، ڈاکٹروں کو اکٹھا کریں، سرکاری ڈاکٹروں کی ایک اچھی ٹیم بنائی جا سکتی ہمتِ مرداں، مدد ِ خدا۔ آسٹریلیا اور برطانیہ سے اچھی خبریں آئی ہیں۔ کورونا وائرس کی ویکسیین تیار کرلی گئی ہے۔ تجربات کامیاب ہو چکے، بتایا گیا ہے کہ کاروباری پیمانے پر تیاری اور میڈیکل سٹورز پر پہنچانے کے لیے صرف چند مہینے لگیں گے۔ مایوسی کفر ہے اور امید ایمان۔ دعا، صدقہ، صفائی، علاج اور مشترکہ جدوجہد۔ ابتلا میں سبق پوشیدہ ہوتے ہیں مگر بحران میں مواقع بھی۔ پروردگار کادروازہ چوپٹ کھلا ہے اوراس کی صفتِ رحم اس کی صفتِ عدل پہ غالب ہے۔