بلوچستان کے ضلع چاغی میں چند روز قبل ایک افسوسناک واقعہ پاک افغان بارڈر کے قریب پیش آیا جہاں سکیورٹی فورسز کی مبینہ فائرنگ سے ایک شخص جاں بحق ہوا اس واقعے کو بنیاد بنا کر ایک احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا اس احتجاج کے نتیجے میں چاغی میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اور مشتعل افراد آمنے سامنے آئے مشتعل افراد نے قانون نافذ کرنے والے ادارے کے کیمپ کو پہلے گھیرا اور پھر پتھرائو شروع کردیا جسکے بعد وہاں بھی فائرنگ ہوئی جسکے نتیجے میں تقریباً سات افراد زخمی ہوئے پہلے جو واقعہ سرحد کے قریب پیش آیا وہاں پیش آنے والے واقعے پر سوشل میڈیا اور میڈیا میں جو معلومات سامنے آئیں اسکے مطابق سیکیورٹی فورسز نے ایک گاڑی کو روکنے کا اشارہ کیا گاڑی نہ روکنے پر سکیورٹی فورسز نے فائرنگ کردی جسکے نتیجے میں گاڑی میں موجود حمید اللہ نامی شخص مارا گیاجس کے بعد مارے گئے شخص کی لاش کو لیکر کچھ افراد نوکنڈی پہنچے اور احتجاج شروع کردیا جسے میڈیا پر باقاعدہ رپورٹ کیا گیا سوشل میڈیا پر اسکی رپورٹنگ تو اتنی ہوئی کہ انفارمیشن کیساتھ ڈس انفارمیشن بھی پھیلائی گئی تاہم جو افراد لاش کو سرحدی علاقے سے لیکر آئے انکا الزام تھا کہ گاڑی فرار نہیں ہوئی بلکہ کھڑی ہوئی تھی اور سکیورٹی والے گاڑی کو جانے نہیں دے رہے تھے جس پر تلخی بڑھی اور سیکیورٹی والوں نے فائرنگ کردی جس میں حمید اللہ مارا گیا جبکہ بارڈر پر پیش آنے والے واقعے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا موقف ہے کہ سمگلنگ کیلئے استعمال ہونے والی ایرانی ساختہ گاڑی کو روکنے کا اشارہ کیا گیا جس پر ڈرائیور نے موقع پر موجود پارٹی پر گاڑی چڑھانے کی کوشش کی اور فرار ہونے لگا جس پر گاڑی کو روکنے کیلئے سکیورٹی میکنزم کے تحت ہوائی فائر کئے گئے اسکے بعد پھر آخر میں گاڑی پر فائر کیا گیا جس میں یہ نقصان ہوا اور یہ اقدام سکیورٹی میکنزم کا حصہ تھا اس واقعے کے ان دو پہلوئوں کو ایک طرف رکھیں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اگر سرحد سے اس دیدہ دلیری سے سمگلنگ جاری ہے تو پھر اشیاء اجناس اور پیٹرول ڈیزل کے علاوہ دہشت گردوں منشیات اسلحہ و گولہ بارود کیا کچھ سمگل نہیں ہورہا ہوگا لیکن اگر پھر بھی واقعے میں کوئی زیادتی ہوئی تھی ضلعی انتظامیہ سیاسی منتخب نمائندے کی زمے داری تھی کہ وہ محکمہ داخلہ بلوچستان کے زریعے سکیورٹی اداروں سے بات کرتے اور واقعے کی جانچ کا مطالبہ کرتے تاہم ایسا کوئی اقدام نظر نہیں آیا اس دوران سینکڑوں افراد کا ہجوم جب سیکیورٹی کیمپ کی طرف مشتعل ہوکر بڑھ رہا تھا اور پتھرائو کررہا تھا تو تو وہاں ڈیوٹی پر تعینات اہلکار کے پاس سب سے پہلے انہیں زبانی طور پر روکنے کا آپشن ہے پھر ہوائی فائرنگ سے ڈرانے کا آپشن ہے۔ اسکے بعد سیلف ڈیفنس میں انتہائی اقدام اٹھانا اسکی تربیت کا حصہ ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک اور نقصان پہلے واقعے کے بعد ہوا جس کے بعد وزیر اعلٰی بلوچستان نے معاملے کا نوٹس لیا اور انکوائری کا حکم دیا جو کام فوری ہونا تھا وہ تین دن بعد ہوا اب وزیر اعلٰی بلوچستان کی جانب سے قائم کمیٹی کی انکوائری کی رپورٹ جب تک نہیں آتی قصور وار اور بے گناہ کا تعین آسان نہیں ہے تاہم ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے کیا اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اسکے لئے قانون ناٖفذ کرنے والے اداروں ضلعی انتظامیہ اور علاقے کے منتخب نمائندوں اور عمائدین کی ایک کمیٹی بنائی جائے۔ جو بارڈر پر پیش آنے کے بعد فوری فعال ہو اور مزید نقصان کو روکے کیونکہ حالیہ واقعے میں جب تین روز بعد جو اقدامات حکومت بلوچستان کی جانب سے اٹھائے اسے فوری ایک مشاورت کے ساتھ اٹھایا جاتا تو دوسرا واقعہ جو سکیورٹی فورسز کے کیمپ پر پیش آیا اسے ضرور روکاجا سکتا تھا اس کے ساتھ ساتھ جب تک پاک افغان پاک ایران سرحد پر سمگلنگ کو روکنے کیلئے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ ملکی معیشت کو بھی نقصان نہ ہو اور ملک میں امن و امان بھی قائم رہے۔ کچھ عرصہ قبل سینیٹ کی کمیٹی میں پیٹرولیم کمپنیوں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ اگر ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی سمگلنگ کی روک تھام کی جائے توپاکستانی معیشت کو دو سو ارب روپے سالانہ کا نقصان سے بچایا جاسکتا ہے یہ تو صرف پیٹرول اور ڈیزل کی سمگلنگ کا معاملہ ہے اگر دیگر اشیاء کو اس میں شامل کیا جائے تو یہ معاملہ تو گنتی سے باہر چلا جائیگا۔ چاغی جیسے واقعات کو روکنے کیلئے جو کچھ کرنا ہے اس سے پہلے ایک بات واضح ہے کہ ایران اور افغانستان کی سرحد سے ہونے والی سمگلنگ بلینز کا معاملہ ہے اس کے لئے ہمیشہ بارڈر کو کھلے رکھنے کیلئے حکومت میں موجود منتخب نمائندوں سمیت سیاسی قیادت عوامی معیشت کے نام پر رولا ڈال دیتے ہیںکیونکہ ان کی سیاسی مجبوریاں ہیں جسکے تحت وہ بطور قانون ساز قانون کی عملداری یا عوام کیلئے اسکے متبادل کچھ فراہم کرنے کے سمگلنگ کو جاری رہنے پر زور دیتے ہیں تاہم ایسے کسی واقعے کی صورت میں زمے داریوں سے عہدہ برآں نظر آنے کا تاثر دیتے ہیں جسکی وجہ سے کسی واقعے کی صورت میں وہ زمے داری لینے کو تیار نہیں ہوتے سمگلنگ کی روک تھام معیشت کی بہتری کیساتھ ساتھ ملک میں امن و امان کے قیام میں بھی معاون ثابت ہوسکتی ہے اور سرحدوں کے قریب بسنے والی عوام کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر بارڈر ٹریڈ مارکیٹس کے قیام کے فیصلے پر تیزی سے عملدرآمد کیا جائے بارڈر ٹریڈ مارکیٹس کی تجویز سکیورٹی اداروں نے اس لئے دی تھی کیونکہ پاک افغان اور پاک ایران سرحد پر لگنے والی باڑ کی وجہ سے سرحد کے قریب جو عوام متاثر ہونے کا اندیشہ تھا انکی ضرورریات کو دیکھتے ہوئے بارڈر ٹریڈ مارکیٹس کے قیام کا فیصلہ سکیورٹی اداروں کی تجویز پر وفاقی حکومت نے کیا تھا جس کے تحت پاک ایران اور پاک افغان بارڈر پر اٹھارہ بارڈر ٹریڈ مارکیٹس کا فیصلہ کیا اس سلسلے میں ایران کی سرحد کیساتھ چھ بارڈر ٹریڈ مارکیٹس بنائی جا نا تھیں جبکہ افغان سرحد کیساتھ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں بارہ مارکیٹس بنائی بننا ہیں ان بارڈر ٹریڈ مارکیٹس کے پہلے پائلٹ پراجیکٹ کا آغاز مکران میں پاک فوج کی جانب سے ہوچکا ہے جس میں گوادر میں گبد کیچ میں مند ردیگ پنجگور میں چیدگی میںاس پر کام شروع ہوچکا ہے۔ پاک ایران ہو یا پاک افغان بارڈر مارکیٹس کا قیام چاغی جیسے واقعات کی روک تھام اور معیشت کو سمگلنگ سے ہونے والے نقصانات اور ملک میں کم ہوتی دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔