وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سابق وزیر اعظم عمران خان سے معیشت تباہ کرنے پر معافی کا مطالبہ کیا ہے۔وزیر خزانہ نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے رہنما کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کی تحقیقات ہونی چاہئیں کہ ملک تنزلی کا شکار کیسے ہوا۔انہوں نے بتایا کہ مسلم لیگ ن کے سابق دور میں فی کس آمدنی میں 379ڈالر اضافہ ہوا جبکہ پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں فی کس آمدن محض 30ڈالر بڑھی۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پی ٹی آئی کی جانب سے پی ڈی ایم حکومت کی معاشی کارکردگی کے متعلق پیش کئے جانے والے اعداد و شمار کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے تحریک انصاف کے سربراہ کو مناظرے کا چیلنج دیا ہے۔ جناب اسحق ڈار معاشی حالت پر اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کچھ پریشان دکھائی دیے۔ان کی پریشانی اس امر سے عیاں ہوتی ہے کہ وہ مسلم لیگ ن کی سابق حکومت اور تحریک انصاف کی ساڑھے تین سال کی حکومت کا موازنہ کرتے ہوئے کئی حقائق نظر انداز کر گئے‘ مثلاً جب 2018ء میں مسلم لیگ نے اقتدار چھوڑا تو زرمبادلہ کے ذخائر 14ارب ڈالر کے قریب تھے۔تحریک انصاف کی حکومت کا اپریل 2022ء میں خاتمہ ہوا تو زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم 17ارب ڈالر سے زائد تھا۔مسلم لیگ ن کی حکومت نے شرح سود 8فیصد کے لگ بھگ کر دی تھی‘جو تحریک انصاف کے ابتدائی مہینوںمیں دو گنا ہو گئی لیکن جب پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ ہوا تو شرح سود 7فیصد تھی۔اس کا مطلب یہ تھا کہ بینکوں کے پاس دولت جمع تھی۔یہ دولت لوگوں کی بچت سے اکٹھی ہوئی تھی۔قرض لینے والے کم تھے اس لئے سٹیٹ بنک نے شرح سود کم کر دی تھی تاکہ کاروباری طبقہ بینکوں سے قرض لے کر بینکوں کے منافع میں اضافہ کر سکے۔پی ڈی ایم حکومت نے دو ہفتے قبل شرح سود 15فیصد کر دی ہے۔9ماہ سے مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں کی حکومت ہے اس لئے اس کی ذمہ داری سے اسحاق ڈار مستثنیٰ نہیں۔ معیشت خراب ہونے کی ایک وجہ برآمدات میں کمی ہے۔2013ء میں جب اسحق ڈار وزیر خزانہ بنے تو ملک کی برآمدات 25ارب ڈالر تھیں۔ ان کی حکومت نے آئینی مدت پوری کی تو برآمدات کا حجم 12ارب ڈالر سے نیچے جا چکا تھا۔تحریک انصاف کی جب حکومت ختم ہوئی تو ملک کی ٹیکسٹائل برآمدات 30برسوں کے دوران ریکارڈ سطح پر تھیں ۔ اس وقت پی ڈی ایم حکومت کی پالیسی کی وجہ سے ٹیکسٹائل سیکٹر کی 90فیصد ملیں بند ہو چکی ہیں۔صرف فیصل آباد میں 70لاکھ مزدور بے روزگار ہو چکا ہے۔ پی ڈی ایم جب اقتدار میں آئی تو اس کے سامنے سب سے بڑا چیلنج بجٹ خسارہ دور کرنے کے لئے آئی ایم ایف سے اگلی قسط کا حصول تھا۔آئی ایم ایف سے تحریک انصاف نے 6ارب ڈالر کا بیل آئوٹ پیکیج لیا تھا۔ اس پیکیج لینے کی بڑی وجہ سابق مسلم لیگی حکومت کی جانب سے لئے گئے عالمی قرضوں کا غیر پیداواری شعبوں پر خرچ کرنا تھا۔میٹرو اور اورنج ٹرین جیسے منصوبے اس طرح شروع کئے گئے کہ انہیں رواں رکھنے کے لئے آج بھی روزانہ کئی ملین روپے سرکاری خزانے سے ادا کرنا پڑتے ہیں۔یہی قرض اگر کسی ایسے منصوبے پر خرچ ہوتا جو ہر روز سرکار کو منافع دیتا تو پچھلے سات آٹھ سال سے روزانہ 30لاکھ روپے سے زائد کا یہ خسارہ‘ جو اب اربوں روپے کا ہو چکا ہے‘ نہ بھگتنا پڑتا۔پی ڈی ایم نے عزم ظاہر کیا تھا تھا کہ وہ آئی ایم ایف سے معاہدے پر نظرثانی میں کامیابی حاصل کر لیں گے۔سیلاب کی آفت کو جواز بنا کر یہ دعوے بلند آواز میں کئے جانے لگے۔یہ درست ہے کہ عالمی برادری نے ڈیووس کانفرنس میں ساڑھے نو ارب ڈالر کے فنڈز فراہم کرنے کا وعدہ کیا لیکن یہ امداد نہیں بلکہ پروجیکٹ قرضے ہیں جنہیں وعدے کے مطابق چین کے قرض ادا کرنے کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ پی ڈی ایم جب سے اقتدار میں آیا ہے‘ معیشت کے کسی ایک شعبے میں بہتری نظر نہیں آئی۔آئی ایم ایف سے ایک قسط کے بعد اگلی قسط نہیں مل رہی کیونکہ حکومت وعدے کے مطابق ٹیکس محاصل جمع نہیں کر سکی۔ملک کی چلتی ہوئی صنعت بند ہو گئی ہے۔زرعی شعبہ بری حالت میں ہے۔ڈالر‘ بجلی‘ پٹرول اور گیس کے نرخ کنٹرول کرنے کے لئے حکومت کی کوئی پالیسی موثر ثابت نہیں ہوئی‘یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہر معاشی رکاوٹ دور کرنے کے لئے بس قرض کی رقم سے امید باندھ لی گئی ہے۔ بنا لگی لپٹے یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ معیشت کی جو بھیانک تصویر اگلے چند ہفتوں میں دکھائی دے رہی ہے اس کی ذمہ داری ان حکومتوں پر عائد ہوتی ہے جو بیس سال سے عام آدمی کا خون چوستی رہیں۔ موجودہ معاشی ڈھانچے کے معمار جناب اسحق ڈار ہیں۔اس موقع پر جب ان کی پالیسیاں ملک کی بنیادیں ہلا رہی ہیں تو انہیں یہ ذمہ داری قبول کرنی چاہیے‘ عمران خان نے کورونا اور عالمی کساد بازاری کے باوجود ایک ترقی پذیر معیشت چھوڑی جسے یوکرین روس جنگ‘ خطے کی نئی سکیورٹی ضروریات اور عالمی معیشت پر دبائو جیسے پہلو نظرانداز کر کے بحران میں ڈھال دیا گیا۔اللہ نہ کرے پی ڈی ایم کی بدترین کارکردگی کی وجہ سے ملک کا کوئی نقصان ہو لیکن جس ریاست کو بچانے کے نام پر اہل پاکستان پر احسان جتلایا جا رہا ہے وہ ریاست خطرات کا شکار ہو چکی ہے۔