سہ پہر ابھی نہیں ہوئی مگر کالی گھٹا نے جُھٹپٹے کا سماں پیدا کر رکھا ہے۔ قطرہ قطرہ بارش بے لباس درختوں کی ٹہنیوں سے ہوتی ہوئی‘ زمین پر گر رہی ہے۔ سڑک پر دور دور تک کوئی ذی روح نہیں! کبھی کبھی کوئی گاڑی زناٹے سے گزرتی ہے اس کے بعد پھر سناٹا چھا جاتا ہے۔ یہ گیند جسے ہم کرہ ارض کہتے ہیں‘ عجائبات کی زنبیل ہے۔ کبھی ایک عجوبہ نکلتا ہے‘ کبھی دوسرا‘ الاسکا سے لے کر نیوزی لینڈ تک۔ سائبیریا سے لے کر جزائر انڈیمان تک۔ کینیڈا کے انتہائی شمال سے لے کر چلّی کے جنوبی کونے تک۔ آئر لینڈ سے لے کر جنوبی افریقہ کے ساحل تک۔ موسموں کے عجیب الٹ پھیر ہیں۔ کہیں صحرائوںمیں ٹھنڈک ہے۔ کہیں پہاڑوں میں گرمی! کہیں سمندروں کی سطح منجمد ہے، کہیں خشکی کے وسیع و عریض ٹکڑے پانیوں میں غرق! صرف ٹائم زون گنتے جائیے اور حیرت کے سمندر میں ڈبکیاں کھاتے جائیے۔ روس‘ شرقاً غرباً‘ افقی چوڑائی میں پھیلا ہوا ہے۔ گیارہ ٹائم زون ہیں۔ دوسری طرف جو شہر ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور ہیں عمودی لمبائی میں واقع ہونے کی وجہ سے یکساں ٹائم زون رکھتے ہیں۔ سویڈن کا شہر سٹاک ہوم۔ زمبابوے کے شہر ہرارے سے سات ہزار کلو میٹر دور ہے مگر وقت وہی ہے۔ یہ رات دن‘ یہ طلوع و غروب‘ یہ موسموں کا الٹ پھیر‘ یہ ٹائم زون‘ یہ خشکی‘ یہ سمندر‘ جس نے تخلیق کئے ہیں اسی کا کام تھا ؎ بنائے آدمی خشکی پہ‘ کچھ کو حُسن بخشا مناسب فاصلوں پر بحر میں گرداب رکھے قطب جنوبی سے قریب ترین اس خطے میں‘ جہاں اس وقت جاڑا سر چڑھ کر بول رہا ہے‘ بحرالکاہل سے مسلسل سرد ہوائیں آ رہی ہیں۔ درجہ حرارت دس ڈگری ہے۔ گھروں میں آتش دان ہیں جن میں شعلے دکھائی نہیں دیتے۔ لحاف پتلے‘ مگر آن کی آن میں گرم کر دینے والے۔ گاڑی کی سیٹ پر بیٹھ کر بٹن دبائیے۔سیٹ گرم ہونا شروع ہوجائے گی۔ کمبل بجلی کے ہیں۔ یعنی الیکٹرک۔ بستر پر بچھائیے۔ سوئچ آن کیجیے‘ حرارت بالین سے لے کر پائنتی تک اپنی آغوش میں لے لے گی۔ سرما عجیب موسم ہے۔ آتا ہے تو یادوں کے ساون بھادوں جلو میں لے کر آتا ہے۔ بشیر بدر مشاعرہ بازی سے پہلے کیا کمال کے شعر کہتے تھے ؎ گرم کپڑوں کا صندوق مت کھولنا ورنہ یادوں کی کافور جیسی مہک خون میں آگ بن کر اتر جائے گی‘ یہ مکاں صبح تک راکھ ہو جائے گا کیا کیا خوشبوئیں اور خوشبوئوں کی یادیں لے کر جاڑا آتا ہے۔ ریڑھی پر رکھی مونگ پھلی اور اس کے اوپر درمیان میں رکھی تپتی تپاتی مٹی کی ہنڈیا‘ دوپہر کی دھوپ میں کٹے ہوئے مالٹوں کی مہک! کیا کسی کو وہ سنگترے یاد ہیں جو اب کہیں نہیں نظر آتے ؟ سارا چھلکا آن کی آن میں ایک بار ہی اتر کر ہاتھ میں آ جاتا تھا۔ یہ اس زمانے میں ہوتے تھے جب فروٹر اور کِنّو کی بدعت شروع نہیں ہوئی تھی۔ بھارت میں ناگپورکے سنگتروں کا سنا ہے‘ دیکھے نہیں‘ مگر جو اپنے ہاں تھے وہ غائب ہو گئے۔ لاہور میں ایک دن برادر عزیز سعود عثمانی کے دفتری بالا خانے سے اتر کر باہر شاہراہ پر آیا۔ ایک ریڑھی والا کھڑا تھا۔ پیاسی اور متلاشی نظروں نے دُور سے بھانپ لیا کہ سنگترے ہیں۔ لیے اور بہت سے لئے۔ اس سے عہد و پیمان ہوئے کہ آئندہ کہاں اور کب ملا کرے گا مگر متحرک دکاندار کو دوبارہ پانا ناممکنات میں سے ہے۔ آسٹریلیا میں‘ سنگترے کا ایک سوتیلا بھائی پایا جاتا ہے‘ اسے مینڈرین کہتے ہیں۔(چین کی زبان‘ مینڈرین الگ لفظ ہے) چھلکا آسانی سے اترتا ہے مگر اتنی سرعت اور مزے سے نہیں‘ جیسے سنگترے کا اترتا تھا۔ کہاں کہاں کا جاڑا یاد نہیں آ رہا۔ دسمبر تھا اورتاشقند کی رات۔ سڑک پر چل رہا تھا۔ دو سالہ مرضیہ کو اٹھائے۔کھمبوں سے روشنی سیلاب کی صورت بہہ رہی تھی۔ درختوں پر پڑی برف روشنی کے سمندر میں آنکھوں کو چندھیا رہی تھی۔ اسی روشنی اور اسی برف میں لپٹے ہوئے شعر اترے ؎ شبیں تھیں اطلس کی‘ دن تھے سونے کے تار جیسے بہشت اترا ہوا تھا آمو کے پار جیسے گلاب سے آگ‘ آگ سے پیاس بجھ رہی تھی زمیں وہاں کی فلک‘ فلک تھے ہزار جیسے اردن کے دارالحکومت عمّان کا سرما یاد آ رہا ہے۔ سال کی آخری رات تھی۔ سردی تھی۔ ایسی کہ رگوں میں لہو برف بنا دے۔ اس عرب ‘ ہاشم‘ کو ڈھونڈنا تھا جو اٹلی کے شہر ناپولی میں ہمدرس تھا ۔ جس سے پوچھتا‘ قبیلے کا نام پوچھتا جو معلوم نہ تھا۔ آخر ڈھونڈ نکالا۔ دیکھ کر حیران ہوا۔ اور خوش کہ آج ہم فلسطینی اپنے خاندان کے ساتھ نیو ایئر نائٹ منا رہے ہیں اور تم مہمانِ خاص ہو گے۔ رشتہ دار ان کے یورپ تک سے آئے ہوئے تھے۔ عرب پلائو کے اوپر چلغوزوں کی تہہ اور بریاں گوشت منوں کے حساب سے۔ کلوا واشربوا کے حکم پر جس طرح اپنے عرب بھائی عمل کرتے ہیں‘ کم مسلمانوں کو توفیق ہوتی ہے۔ گائوں کا سرما یاد آ رہا ہے۔ لکڑیوں کی آگ‘ کمرہ دھوئیں سے بھرا ہوا۔کچے صحن کیچڑ میں چَھپ چَھپ کرتے۔ لالٹین کی مدہم روشنی۔ لوہے کی انگھیٹی میں تمتماتے انگارے‘ کسان سفید یا گیروے یا ڈبیاں ڈبیاں چَیک کے کھیس لپیٹے ہوئے۔ جہاں بیٹھتے‘ اپنے نئے کھیس کے کناروں پر لگے دھاگے بٹتے ہوئے۔ بارشیں تھمتیں تو دن کو سورج کی کرنیں گندم کے کھیتوں پر پڑتیں۔ سبز بوباس روشنی میں گھل کر بہشت کی خوشبو میں تبدیل ہو جاتی۔ چاشت کے وقت تنور سلگا دیے جاتے۔ مکی اورباجرے کی روٹیاں پکتیں ؎ تندوری تائی ہوئی اے لمّا پراندہ پُھمناں کھیڈ مچائی ہوئی اے گرمیوں کے برعکس جاڑوں میں لسّی گھنی ہوتی۔ سلگتے معدوں میں ٹھنڈا حشر برپا کرتی ہوئی۔ پینے والا‘ پینے کے بعد’’ہائے ‘‘ ضرور کہتا جیسے ارمان پورے ہوئے ہوں! اسی زمین پر۔ دوربہت دُور اِس وقت کہیں تابستان ہے۔ لُو کے تھپیڑے چہروں پر ضرب لگاتے ہوں گے۔ اسماعیل میرٹھی نے کہا تھا ع بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ اب برقی پنکھے چلتے ہیں اور ایئر کنڈیشنر ۔کبھی پنکھیاں ہوتی تھیں ،کھجور کے پتوں سے بُنی ہوئیں۔ اُوپر کپڑے کے پھول کڑھے ہوئے۔ بچے سوتے تو مائیں خود پسینے میں نہاتیں مگر بچوں کو پنکھی سے مسلسل ہوا دیتیں۔ اسی زمین پر سمندر ہیں اور سمندروں کے اُس پار بچھڑے ہوئے لخت ہائے جگر ؎ بیٹے اسی زمین پہ رہتے رہے مگر حائل ہمارے بیچ سمندر بہت ہوا کیا کچھ نہیں ہے اس زمین پر!!