سوئٹزر لینڈ کی خوشگوار فضائوں سے اچھی اچھی خبریں آ رہی ہیں۔ پہلی خبر تو یہی ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے صدر ٹرمپ سے ملاقات کی ہے۔ ٹرمپ نے تین باتیں ایسی کی ہیں کہ دل باغ باغ ہو گیاہے۔ انہوں نے ایک تو یہ بتایا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات جیسے اب ہیں پہلے کبھی نہ تھے۔ پھر انہوں نے ہمارے وزیر اعظم کو اپنا دوست کہا‘ حالانکہ دونوں کے تعلقات ابھی کل کی بات ہے اور تیسرے انہوں نے دوبارہ اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کے لئے تیار ہیں۔ ہم ان خبروں پر پھولے نہیں سما رہے‘ ان سب باتوں پر نرم و گرم تبصرے ہو سکتے ہیں۔ تاہم یہ ایک نہایت سنجیدہ معاملہ ہے۔ آخر ٹرمپ نے کیوں کہا کہ امریکہ کے جیسے تعلقات اب ہیں‘ ماضی میں کبھی نہ تھے۔ ماضی میں ہم نے امریکہ سے محبت کی بہت پینگیں بڑھائیں ہیں۔ ہم اس خطے میں امریکہ کے بہت قریبی حلف تھے۔ اس کے عسکری اتحادی تھے۔ کھلم کھلا اس سے دفاعی معاہدوں میں شامل تھے۔ ہمارے اڈوں سے اس زمانے کی دوسری سپر پاور اور امریکہ کی حریف اول روس کی جاسوسی کے لئے ہمارے ہاں سے جہاز اڑتے تھے اور جب ان میں سے ایک مار گرایا جاتا تھا تو روس کا غصیلا اور منہ زور لیڈر بلند آواز میں کہتا تھا‘ ہم نے پشاور کے اس اڈے پر سرخ نشان لگا دیا ہے۔ یہ سرد جنگ کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں روس سے ایسی کھلی دشمنی مول لینا معمولی بات نہ تھی۔ ہم امریکہ کے لئے ہر حد تک جانے کو تیار تھے۔ جو اس کا دوست‘ وہ ہمارا دوست۔ جو اس کا دشمن وہ ہمارا دشمن۔ ہم آج تک یہ طے نہیں کر پائے کہ جب دنیا دو بلاکوں میں تقسیم تھی ہمیں یوں ایک بلاک کے ساتھ دفاعی معاہدںمیں شریک ہونا چاہیے تھا یا نہیں۔ آخر بھارت بھی روس کے قریب تھا۔ مگر وہ کسی معاہدے میں شامل نہ ہوا۔ہم ایک طرف ایران ‘ ترکی کے ساتھ اس خطے میں امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ نیٹو نامی معاہدے کے رکن تھے تو دوسری طرف مشرقی پاکستان میں سیٹو کی تنظیم میں شامل تھے۔ اس سے پہلے بھی ہمارے بانی وزیر اعظم لیاقت علی خاں نے جب روس کی دعوت نظر انداز کر کے امریکہ کا دورہ کیا تو اس پر آج تک بحث ہو رہی ہے کہ ہم نے امریکہ کو خوش کر کے روس کو ناراض کیوں کیا۔ وہاں ہمارے وزیر اعظم کا جیسا استقبال ہوا‘ وہ آج تک یادگار ہے۔پھر ہمارے صدر ایوب خاں کی بھی امریکیوں نے خوب پذیرائی کی۔ ہماری خاطر مدارت بھی ہوتی رہیں اور ہمیں انواع و اقسام کے تحفے ملتے رہے۔ آج کل ہمارے ہاں گندم کا شدید بحران ہے۔ ان دنوں پی ایل480کے تحت امریکہ سے گندم آیا کرتی تھی۔ خشک دودھ کے ڈبے اور بٹر آئل یعنی ہمارے بچوں کے لئے بھیجا جاتا تھا۔ فوجی سازو سامان کا تو خیر تذکرہ ہی کیا۔ ہم امریکہ کے اتحادی تھے۔ افغانستان میں اتحادی ہونے سے پہلے افغانستان میں ہم نے امریکہ سے جیسی دوستی نبھائی ہے اور نبھا رہے ہیں‘ اس کی مثال نہیں ملتی۔ اب ہاتھ ملتے ہیں کہ ہم کسی اور کی جنگ نہیں لڑیں گے۔ ہم اپنی سرزمین کسی اور کے لئے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ ہمارے ستر ہزار افراد شہید ہوئے‘ ہماری معیشت تباہ ہوئی ‘ہم نے دنیا سے جھگڑا مول لیا۔ صلہ یہ ملا کہ امریکہ نے ہمیں تو دہشت گرد کہنا شروع کر دیا اور بھارت کو تزوینی پارٹنر قرار دے ڈالا ۔ ہم امریکہ کے بہت قریبی دوست رہے ہیں اور امریکہ نے ہمیں بہت پالا پوسا ہے۔ بھارت سے سٹریٹجک پارٹنر شپ کے باوجود ہمیں نان نیٹو پارٹنر قرار دیا۔ بڑی طاقت ہے۔ لفظوں کا جیسا استعمال چاہے کر لے۔ آج کل تعلقات کی نوعیت کیسی ہے‘ اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے صاف کہہ دیا کہ اسے چین سے پاکستان کے سی پیک کے تعلقات بالکل قبول نہیں ہیں۔ امریکی کی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلس ان دنوں پاکستان میں تھیں۔ انہوں نے پاکستان کے ہر شعبے سے رابطہ کیا‘ بلکہ ہرشعبہ کا معائنہ کیا۔ آرمی چیف ‘ وزیر خارجہ وغیرہ سے ملنا تو گویا ضروری ہوتا ہی ہے‘ یہاں انہوں نے یوں سمجھئے ہماری سب وزارتوں کا جائزہ لیا۔ وزارت خزانہ تو خیر ان کی اپنی ہے‘ مگر اب لگتا ہے امریکہ ہمارے سارے امور دیکھنا چاہتا ہے۔پہلے ہی دن رزاق دائود سے ملاقات کو وزیر تجارت سے ملاقات نہ سمجھا جائے‘ بلکہ اچھی طرح جان لیا جائے کہ وہ یہاں امریکہ کے شاید سب سے قابل اعتباد نمائندے ہیں۔ جب عمران خاں وزیر اعظم بنے تو رزاق دائود کی آمد کو اسی تناظر میں دیکھا گیا۔ انہوں نے بھی آتے ہی بیان دے ڈالا کہ سی پیک کو ایک سال کے لئے موخر کر دینا چاہیے۔ وہ ہماری حکومت میں امریکہ کے انتہائی مرکزی نمائندے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایوب خاں کے زمانے میں کہیں یہ بات ہوتی کہ فلاں بات امریکہ تک پہنچا دی جائے‘ ایوب خاں نے ایک وزیر کا نام لیتے ہوئے کہا اس نے خود ہی پہنچا دی ہو گی۔ ہماری ہر وزارت میں ایسے قابل اعتماد اتحادی ہوا کرتے ہیں۔ ہماری کابینہ پر امریکہ کی ہمیشہ نظر رہتی ہے۔ مگر ایک آدھ مرکزی آدمی ہوتا ہے۔ ہم اسے امریکہ کا آدمی کہنے کے بجائے سی آئی اے کا آدمی کہہ دیتے ہیں۔ ایلس ویلس کا صاف صاف لفظوں میں کہنا کہ سی پیک کے منصوبوں میں بہت سے ٹھیکے ان کمپنیوں کو دیے گئے ہیں جو ورلڈ بنک سے بلیک لسٹ ہیں‘ یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ وہ کس مشن پر پاکستان میں تھیں۔ ان کا اصرار کہ سی پیک سے پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جا رہا ہے۔ ان کی نیت کو ظاہر کرتا ہے۔عمران خاں کی حکومت آنے کے بعد امریکہ سے ہمارے تعلقات میں یوٹرن کا احساس صاف بتاتا ہے کہ ایجنڈا کیا ہے۔ ہمیں دو ٹوک لفظوں میں کہا گیا کہ ہم سی پیک سے دور رہیں۔ چین نے بہت کوشش کی کہ وہ اس حکومت کو سمجھائیں۔ اس ملک کے اندر بہت سی تبدیلیاں آ رہی تھیں۔ سیاسی ہی نہیںاقتصادی بھی۔ ان سب کو اسی تناظر میں دیکھنا اشد ضروری ہے۔ جس طرح امریکہ ہمارے ایک ایک معاملے پر نظر رکھتے ہوئے ہے۔ ہمیں بھی اپنی حد تک امریکہ پر نظر رکھنا ہو گی۔ سی پیک سے دوری نے ہماری شرح نمو نصف سے بھی کم کر کے رکھ دی ہے۔۔لارے لپے چل رہے ہیں۔ بتایا گیا تھا کہ سعودی عرب گوادر کے پاس 10ارب ڈالر کی آئل ریفائنری لگائے گا۔ کہاں گئی وہ ریفائنری ‘ یہ کام بھی شاید چین ہی کرے گا۔ اس خطے میں نئے فساد جنم لے رہے ہیں ایران کے بارے میں ٹرمپ کی پالیسی بہت تشویشناک ہے۔ پھر ایران کے اندر بھی بہت سارے مسائل اٹھ رہے ہیں۔شام‘ عراق‘ بیروت‘ یمن سے لے کر پورے مشرق وسطیٰ میں ایک آگ لگی ہوئی ہے۔ افغانستان میں ہم امریکہ کے ساتھ ہیں‘ مگر صرف اتنا ہی کافی نہیں۔ امریکہ ہم سے بہت کچھ چاہتا ہے۔ہماری علاقائی اہمیت پہلے سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہے۔ اس کے لئے اسے ہماری دوستی کی ضرورت ہے۔ جو گڑ سے مارا جا سکے اسے زہر کیا دینا۔ غالباً امریکہ ازسر نو اس بات کا قائل ہوا ہے۔ اس لئے ہمارے ناز نخرے اٹھائے جا رہے ہیں‘ مگر مل کیا رہا ہے۔ نیو یارک کے لئے پی آئی اے کی پروازیں پھر سے شروع ہو رہی ہیں۔ فوجی تربیت کا منسوخ شدہ پروگرام دوبارہ سرگرم عمل کیا جا رہا ہے۔ چھوٹی چھوٹی خبریں گاہے گاہے آ جاتی ہیں۔ ان کو معلوم ہو گیاہے ہم کشمیر کے ذکر سے کتنا خوش ہو جاتے ہیں۔ ٹرمپ نے یہ ترپ کا پتا پہچان لیاہے۔ اس طرح کہنے میں حرج ہی کیا ہے۔ ساتھ ہی بھارت کی طرف سے ہمارے لئے مسائل کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ صرف کشمیر ہی نہیں‘ بھارت کے اندر بھی ہمارے لئے بہت سے مسائل ہیں۔ ان سب مسائل کا اثر ہم پر براہ راست پڑے گا۔ جنوب ایشیا میں کئی تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔ ان حالات میں ہمارا فطری دوست چین ہے اور یہی دوستی امریکیوں اور مغربیوں کو قبول نہیں۔ یہ نہیں کہ ہمیں دو میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ امریکہ نے ہم سے ہمیشہ یہی کرایا ہے‘ بلکہ اب بھی یہی چاہتا ہے۔ اسی خاطر دوستی کا دم بھر رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی ادارے بھی کشمیر کے مسئلے پر کچھ کچھ جاگ رہے ہیں۔ مگر اس کے پیچھے بھی ہمارا’’دوست‘‘ امریکہ نہیں چین ہے۔ ایک بات ٹرمپ کا اعلان دوستی‘ دوسری طرف ایلس ویلس کا سی پیک کے بارے میں بیان‘ تیسری طرف ہمیں خوش کرنے والی دکھاوے کی دو چار باتیں۔ ایک آدھ رعائتیں‘ خطے میں اس کی ضرورتیں‘ ہمیں محتاط رہنا ہو گا۔ ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو۔ نہ اس کی دوستی اچھی نہ اس کی دشمنی اچھی۔ بہرحال خوش ہونے کی کوئی بات نہیں۔ عرض کیا ناکہ ہمیں محتاط رہنا ہو گا۔