یوں سمجھئے یہ اس کالم کا فٹ نوٹ ہے جو میں اس موضوع پر لکھنا چاہتا ہوں۔ خورشید ندیم ان دنوں لاہور میں تھے۔ یہاں انہوں نے ایک گفتگو کا اہتمام کر رکھا تھا۔ یہ گفتگو پیغام پاکستان کے بارے میں تھی جسے متبادل بیانیہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ پیغام پاکستان دراصل وہ دستاویز ہے جس پر ملک کے جید علماء نے دستخط کئے تھے اور ملک میں برپا دہشت گرد سرگرمیوں ‘ خودکش حملوں کو اسلام کی رو سے غلط قرار دیا تھا۔ اس کے مقابلے میں ایک جمہوری عمل کو فلاح کا راستہ بتایا تھا۔ کچھ اس طرح کی بات ہی تھی۔ خورشید ندیم کی کتاب کا نام بھی متبادل بیانیہ ہی ہے۔ یہ ان کا بڑا پسندیدہ موضوع ہے اور اس پر وہ بڑے خضوع و خشوع سے لکھتے ہیں۔ اصل میں کہانی یہ ہے کہ انیسویں صدی کے آواخر میںمسلمانوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ہماری سب برائیوں کی بنیاد اس بات میں ہے کہ ہم نے اجتماعی سطح پر جدوجہد نہیں کی۔ یہ عالم اسلام میں غلامی کا دور تھا۔ جمال الدین افغانی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اسے تحریک کا رنگ دے ڈالا۔ اس زمانے میں یہ اتحاد امت کی تحریک بن گئی۔ یہ تاثر دیا گیا کہ جمال الدین افغانی یہ سب کچھ عثمانی خلیفہ کے کہنے پر کر رہے ہیں۔ اسے پان اسلام ازم کہہ کر یورپ میں بڑا پروپیگنڈہ کیا گیا کہ اگر یہ تحریک عثمانی امپریلزم کے سامراجی عزائم کی آئینہ دار ہے۔ مغرب کچھ یوں ہی سمجھتا تھا۔ علامہ اقبال نے بھی اس پروپیگنڈے پر بڑا عمدہ تبصرہ کر رکھا تھا۔ تاہم اس کے بعد عالم اسلام کے سبھی بڑے بڑے مفکرین نے جس بات پر اصرار کیا‘ وہ دین کا اجتماعی پہلو ہے حتیٰ کہ اقبال نے تو یہ تک کہہ رکھا ہے کہ اسلام وہ واحد دین ہے جو عبادت تک کو اجتماعیت بخشتا ہے۔ مسلمانوں میں یہ خیال راسخ ہو گیا کہ مذہب کا مطلب کوئی پوجا پاٹ تک محدود نہیں ہے‘ انفرادی پارسائی نہیں ہے بلکہ ایک ایسا نظام نافذ کرنا ہے جو زندگی کے ہر شعبے کو اسلام کے رنگ میں رنگ دے۔ کسی نے اسے حکومت الہیہ کا نام دیا‘ کسی نے غلبہ اسلام سے تعبیر کیا کوئی اقامت دین کے حوالے سے ایک ایسے نظام کی طرف گیا جو ہماری معاشرت ‘ سیاست‘ معیشت ‘ حکومت ہر پہلو پر حاوی ہوا۔ اقبال ہوں یا سید ابوالاعلیٰ مودودی اس بات کے قائل نظر آتے ہیں مسلمانوں میں یہ خیال جڑ پکڑ گیا کہ انہیں زندگی کے ہرہر شعبے میں اسلام کو نافذ کرنا ہے۔ اقبال کے لفظوں میں ریاست اور کلیسا الگ الگ نہیں ہیں۔ اسی تصور کے تحت پاکستان بننے کے بعد ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کی بات چلتی رہی۔ ہم نے قرار داد مقاصد کو اسی ذہن کے ساتھ قبول کیا۔ آئین سازی کی کوششوں میں بھی اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا۔ اس دوران ایک طبقہ ایسا پیدا ہوا جو کہتا تھا کہ حکومت سازی یا سیاست کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔ جماعت اسلامی میں ماچھی گوٹھ کے مقام پر اسی اختلاف نے جنم لیا۔ تبلیغی جماعت اسی خیال کی ایک شاخ ہے۔ اسے زیادہ قوت اس وقت ملی جب بھارت میں وحید الدین احمد نے اور پاکستان میں جاوید غامدی نے یہ نکتہ نظر اختیار کیا۔ مغرب اسلام کی اس تعبیر کو سیاسی اسلام‘ ریڈیکل اسلام یا اسلام ازم سے تعبیر کرنے لگا۔ اس کے خلاف ویسے ہی فضا بنائی جانے لگی جیسی ماضی میں پان اسلام ازم کے خلاف بنائی گئی تھی۔ زیادہ خرابی اس وقت پیدا ہوئی جب دنیائے اسلام میں جہادی تحریکیں پیدا ہوئیں جنہوں نے دہشت گردی کی شکلیں اختیار کرنا شروع کر دیں۔ اگرچہ اس کا اسلام کی اس تعبیر سے کوئی تعلق نہ تھا جو ریاست کے نظام کو دین کے مطابق چلانا چاہتی تھیں تاہم پروپیگنڈہ تو پروپیگنڈہ ہوتا ہے۔ گزشتہ چند برس میں عرب بہاراں کے عروج کے بعد ہم نے ایسی بہت سی بحثیں پڑھی ہیں۔ بتایا گیا ہے اسلام کی وہ تعبیر ٹھیک ہے جو ماڈریٹ اسلام کے نام پر کی جاتی ہیں۔ خاص طور پر ترکی کی مثال دی جاتی تھی کہ دیکھو ان کے ساتھ کیسی اعتدال پسندی ہے۔ اگرچہ اس پر بھی پھبتی کسی گئی اور یہ امریکی پریس نے خود ہی اپنے اوپر کسی کہ جو جتنا ہمارے یعنی امریکہ کے قریب ہے‘ وہ اتنا ہی ماڈریٹ ہے۔ تاہم عرب بہاراں کے اثرات نے اس بیانئے کو شدید تر کر دیا۔ مصر میں اخوان المسلمین نے اسلام کو مکمل نافذ کرنے کی کوشش کی اور اس طرح مغربی طاقتوں کے ہاتھوں خود کو بے بس کر لیا۔ مراکش میں اسلامی جماعت نے جیت کر اعلان کیا کہ وہ ملک میں نہ شراب بند کرے گی نہ سود اور ہاں سیاحت کے فروغ کے لئے اس بات کی بھی اجازت دے گی کہ ساحل سمندر پر عورتیں بکنی پہن کر غسل کر سکیں۔ تیونس کی اسلامی جماعت البقینہ نے اس معاملے میں فکری طور پر بڑی زقند ماری انتخاب جیت کر سیکولر جماعتوں سے اتحاد کیا۔ پھر دوسرے انتخابات میں اقتدار ان کے حوالے کیا۔ مگر ان کا اہم ترین اقدام یہ تھا کہ انہوں نے دعوت دین اور سیاست کے کام کو الگ الگ کر دیا۔ اسلام ازم کے بجائے مسلم ڈیمو کریٹ کا تصور پیش کیا۔ اس پارٹی کے سربراہ رشید غنوشی بلا شبہ ایک دین دار مسلم مفکر ہیں۔ اس لئے ان کی اس تقسیم کو پوری دنیا میں سنجیدگی سے لیا گیا۔ مغرب نے اس ماڈل کو ترکی کے قریب تر قرار دے کر اس کی تعریف کی۔ فی الحال یہ سمجھ لیجئے ہر ملک کے اپنے اپنے حالات ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاںایک دوسری صورت حال پیدا ہوئی۔ ایک طرف تو ہمارے ہاں جہادی تحریکوں کے ہمارے شمال میں خودکو دہشت گرد گروہوں کی شکل دے دی۔ دوسری طرف ملک کے اندر بھی وہ جماعتیں جو اسلامی نظام کا نام لیتی تھیں۔ الیکشن کے میدان میں کوئی کارکردگی نہ دکھا سکیں۔ اس پر ان لوگوں کو موقع ملا جو دین اور سیاست کو الگ کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے دونوں باتوں کو ایک قرار دے کر یہ اعلان کر دیا کہ دین کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دہشت گردی اسی طرح پیدا ہوتی ہے ایک طرح کی سیکولر فکر کا مذہبی فکر ہے۔ پھر ٹکڑائو ہونے لگا۔ ہمارے ہاں سب سے نمایاں بیانیہ وہ آیا جس میں جاوید غامدی صاحب نے اعلان کیا کہ خلافت کوئی دینی اصلاح ہے ہی نہیں۔ مطلب اس کا یہ تھا کہ حکومت قائم کرنا مذہب کے تقاضوں میں سے ہے ہی نہیں۔ مذہب تو انفرادی تربیت‘ خدا کی عبادت‘ شخصیت سازی وغیرہ کی بات کرتا ہے۔ اس نے کبھی حکومت قائم کرنے کی بات کی ہی نہیں۔ حکومت سازی کے لئے تو جمہوریت کے اصول ہیں۔ لوگ خود فیصلہ کر لیتے ہیں آپ اس کو دینی فریضہ نہ سمجھیں نہ بتائیں۔ اس میں کوئی حرج نہ ہوتا‘ اگر اس کے نتیجے میں بہت سی خرابیاں پیدا ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا۔ میں نے عرض کیا یہ وہ مضمون نہیں جو اس مسئلے پر میں لکھنا چاہتا ہوں۔ مضمون کیا یہ تو وہ کالم بھی نہیں۔ یہ صرف فٹ نوٹ ہے جو اس وقت میں گویا رسید کے طور پر قلم برداشتہ لکھ رہا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم خلافت دینی اصطلاح ہے یا نہیں۔ اتنا البتہ معلوم ہے کہ حضور ؐ کی وفات کے فوراً بعد مسلمانوں کے جلیل القدر لوگ سقیفہ بنی ساعدہ میں کس لئے اکٹھے ہوئے تھے۔ اس دن اگر کوئی فیصلہ نہ ہوتا تو کیا اللہ کا دین باقی بچتا۔ وہ من بعد رسالت‘ ریاست مدینہ کی امارت کا مسئلہ تھا ۔امیر کو خلیفۃ الرسول اللہ کا لقب دیا گیا۔ پھرجو اختلافات ان بڑے لوگوں میں ابھرتے بھی رہے اس میں دین کی اس تعبیر کا کتنا تعلق ہے۔ ذرا اس پر غور کر لیجیے۔ کسی نے کہا یہ اقتدار کی جنگ ہے اگر اس دن یہ فیصلہ نہ ہوتا تو کیا اسلامی لشکر عرب کی حدود سے باہر روانہ کئے جاتے۔ کیا نئی نبوت کا دعویٰ کرنے والے اور زکوٰۃ کا انکار کرنے والوں کو زیر کیا جا سکتا۔ بڑے سے بڑا مخالف تاریخ داں بھی یہ کہتا ہے کہ یہ ابوبکر صدیق ؓ ہی تھے جنہوں نے اسلام کی روح کو حقیقت کے روپ میں مجسم کر دیا۔ بعد کا زمانہ‘ حضرت عمرؓ کا ہو یا کوئی اور ‘ کیا اس وقت کس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ یہ سیاست ‘ دین کا تقاضا پورا کرنے کے لئے نہیں ہے۔ نعوذ باللہ اقتدار کی خاطر ہے۔ اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں اور کیا اس کے بغیر دین قائم ہوتا یا رہتا۔ شاہ ولی اللہ کا آغاز کرنا۔ آپ کہیں گے حضور ؐ تو نبی تھے۔ زیادہ بحث کیا کروں ۔ یوں لیجیے حکومت قائم کرنا سنت نبوی ہے۔ پھر اس میں ایک تسلسل ہے۔ بعض بحثوں میں دین کے معنی ریاست ہی کے لئے جاتے ہیں۔ میں یہ ساری بحثیں انشاء اللہ کروں گا‘ کیونکہ اب بعض خرابیاں پیدا ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ مجھے ان لوگوں سے کوئی کد نہیں جو سیاست سے دور رہتے ہیں اور اپنی زندگی نیک کاموں کے لئے وقف کر دیتے ہیں۔ اگر اس حد تک جانا کہ خلافت کوئی دینی اصطلاح نہیں‘ بات کو بہت آگے لے جانا ہے۔ ٹھیک ہے‘ ریاست امریکہ کا کوئی مذہب نہیں‘ مگر ریاست برطانیہ کا مذہب ہے۔ ان کا اپنا کلیسا ہے اور بادشاہ یا ملکہ اس کے سربراہ ہیں۔ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے یہ تصور اسلام سے لیا ہو۔ فی الحال میرا مطلب یہ ہے کہ یہ کوئی انہونی بات نہیں جس سے اس قدر جڑا جائے۔ بس آخری بات کہہ کر میں گفتگو ختم کرتا ہوں۔ ایک بات تو یہ سمجھ لینے کی ہے کہ آج کل کی نام نہاد جہادی فکر کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ پیام پاکستان کا فتویٰ اسی پر ہے یہ نری دہشت گردی ہے۔ اسلام کی تاریخ میں ایسے بے شمار دہشت گرد گروہ ہوئے ہیں۔ یہ خدائی یہ حشیشین کون تھے یہ حسن بن صباح کون تھا۔ خیر اس بات کو چھوڑیے ۔ مگر تحریک اسلامی جسے مغرب والے اسلام ازم یا پولیٹیکل اسلام یا ریڈیکل اسلام کہتے ہیں اس کا اس دہشت گردی کے تصور سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلامی حکومت کے قیام کے نام پر جو ایک طویل جدوجہد ہوتی ہے۔ اسے دہشت گردی کے حالیہ بیانیہ سے جوڑنا درست نہیں بلکہ بڑی حماقت ہے۔ البتہ یہ بحث چھیڑنا کہ اسلام میں ریاست قائم کرنا ضروری ہے یا نہیں۔ اسلام کا مقصد زیادہ سے زیادہ سماج کو بدلنا ہونا چاہیے ریاست کو قائم کرنا نہیں ۔یہ الگ بات ہے اس بحث کی اپنی تاریخ ہے اور اس پر بھی الگ سے گفتگو ہو سکتی ہے۔ میں اس سوچ کو بالکل غلط نہیں کہتا۔ مگر اس کے نتیجے میں جو نظریات جنم لے رہے ہیں۔ وہ مجھے مجبور کرتے ہیں کہ اس تصور کی مبادیات پر بات کروں اس وقت تو ممکن نہ ہو گا۔ بہرحال یہ ایک قرض ہے جو ادا کرنا ہے۔ خورشید ندیم ان سنجیدہ ترین لوگوں میں سے ہیں‘ جن کے حوالے سے اس پر گفتگو کی جا سکتی ہے۔ شاید ہم اس بحث میں نئی جہتوں سے آشنا ہو سکیں۔