دنیا بدل گئی، نہیں بدلا تو متحدہ قومی موومنٹ کا طرز سیاست نہیں بدلا۔جب سے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے اپنی وزارت سے منہ موڑا ہے شہر قائد میں سیاست کے نئے بازار کھل گئے ہیں جس میں بھائو تائو کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ایم کیوایم کی حکومتی اتحاد سے علیحدگی کی تاریخ بہت طویل ہے لیکن اس بار ایم کیوایم کا تحریک انصاف کی حکومت سے الگ ہونا نہ جانے کچھ پراسرار سا تاثر چھوڑ گیا ہے۔اس علیحدگی اور اس کے وقت کی موزونیت کے پیچھے کیا حکمت عملی کار فرما ہے اس پر لاتعداد سوال اٹھ گئے ہیں اور پچھلی کہانیوں سے ملتی جلتی بے شمار نئی کہانیاں وجود پکڑ رہی ہیں۔ کچھ پس پردہ کہانیاں تو ایسی ہیں کہ ان کا ذکر کرنا آج مناسب نہیں کہ ان کی تصدیق عامر خان اور مئیر کراچی وسیم اختر ہی کر سکتے ہیں جو ایم کیو ایم کی اندرونی اور بلدیاتی سیاست کی لڑائی تسلسل سے لڑ رہے ہیں، اس لئے ان کہانیوں کو نہ ہی چھیڑا جائے تو بہتر ہوگا۔ ایک سیدھا سادہ مسئلہ تو یہی ہے کہ ایم کیو ایم اس وجہ سے وفاقی کابینہ سے الگ ہو گئی کہ تحریک انصاف اس سے کئے گئے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی، کراچی کو ایم کیو ایم کے توسط سے خطیر ترقیاتی رقم ملنا تھی جس میں سے پندرہ مہینوں میں طفل تسلیوں کے سوا ایک دھیلا بھی نہ مل سکا اور نہ ہی وعدہ کے مطابق ہمارے مرنجاں مرنج دوست امین الحق کو وزارت مل سکی اور ایک وزارت جو دی بھی گئی تو وہ اتنی اہم وزارت نہیں تھی کہ ایم کیو ایم صرف ایک لولہی لنگڑی وزارت کے طفیل اپنی کارکردگی سے اپنے جذباتی کارکنوں کو مطمئن کر سکے، اس سیاسی پس منظر میں تو سیدھا سادہ رد عمل یہی بنتا تھا کہ متحدہ اس بے لذت گناہ کی تہمت سے اپنا دامن بچا لے،البتہ بلدیاتی انتخابات میں اپنا روایتی مینڈیٹ قابو میں رکھنا اور اس بار بھی اپنا مئیر لانا متحدہ کی سیاسی بقا کے لئے ناگزیر ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف لاٹری میں کھلنے والے مینڈیٹ کی بنیاد پر متحدہ کو بلدیاتی انتخابات میں مات دے کر کراچی میں اپنا مئیر لانا چاہتی ہے اس لئے وہ کراچی میں متحدہ کے ذریعے ترقیاتی فنڈز خرچ کر کے اپنے پائوں پر کلہاڑی چلانے کی غلطی نہیں کر سکتی۔ وزیر اعظم عمران خان اور گورنر سندھ عمران اسمعیل اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ وزارت چھوڑنے کے باوجود ایم کیو ایم حکومت کی معمولی عددی برتری کو چھیڑ کر حکومت گرانے کا سبب نہیں بن رہی تو اس کی وجہ تحریک انصاف کی قیادت نہیں بلکہ کوئی اور ہے۔اس لئے تحریک انصاف اپنی مذاکراتی ٹیم کے ذریعے وعدوں کی سنہری زنجیر میں باندھ کر متحدہ کے ساتھ سیاسی دھوکا کر رہی ہے جس کا اندازہ متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت کو بھی ہے۔ یہ طے ہے کہ اگر پندرہ مہینوں میں متحدہ کو کچھ نہیں ملا تو بلدیاتی انتخابات تک اب بھی کچھ نہیں ملے گا۔ ایک کہانی تو یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف نے متحدہ کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر سید مصطفی کمال سے بلدیاتی انتخابات کے لئے درون خانہ کسی معاہدے پر اتفاق کر لیا جس کی پی ایس پی میں موجود متحدہ کے ایک ہمدرد نے مخبری کر دی جس کے سبب متحدہ اور تحریک انصاف کے اتحاد کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹ گئی۔ ایم کیو ایم کا مسئلہ ہو تو سیاسی افسانہ طرازی بے سبب ہی موضوع سخن بن جاتی ہے، وہ اس لئے بھی کہ ایم کیوایم کا انداز سیاست کچھ ایسا ہے کہ ہر موڑ پر ڈرامائی انداز اختیار کر لیتا ہے۔ متحدہ جب چاہتی ہے سیاسی ہوائوں کا رخ اپنی طرف کر لیتی ہے، اس لئے متحدہ نے اپنے وجود پر لگا وزارت کے نام پر دھبہ صاف کر کے اپنا سیاسی مستقبل دائو پر لگنے سے بچا لیا ہے۔ باقی رہا سوال بیرسٹر فروغ نسیم کا تو نہ وہ متحدہ میں متحدہ کی وجہ سے تھے اور نہ ہی ان کو وفاقی کابینہ میں اہم ترین وزارت کے لئے متحدہ کی وجہ سے چنا گیا، انہیں وزارت قانون و انصاف نہ تو تحریک انصاف کی مرضی سے ملی اور نہ وہ متحدہ کے کوٹے پر لئے گئے، ان کا کوٹہ جہاں سے تھا اس کا تحریک انصاف کو بھی علم ہے اور متحدہ کو بھی ان کے حوالے سے کوئی خوش فہمی نہیں۔ متحدہ کی سیاسی اہمیت اپنی جگہ کراچی کی سیاست کے رنگ بھی ملک کے دوسرے بڑے شہروں سے بالکل جدا ہیں، متحدہ قومی موومنٹ کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں سیاست کرنے کاگُر آتا ہے۔ کراچی جتنا بڑا شہر ہے، یہاں اتنی ہی بڑی بڑی باتیں ہوتی ہیں اور اتنی ہی بڑی بڑی کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ایسے میں ایم کیو ایم کے رہنمائوں کی تو بات ہی الگ ہے۔ ایم کیوایم کی سیاسی تربیت گاہ سے نکل کر تو گونگوں کو بھی بات کرنے کا ہنر آ جاتا ہے۔ اس لئے جب ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے اچانک اپنے نئے سیاسی حلیفوں سے راہیں جدا کیں تو ایم کیو ایم کے رہنمائوں کی ایسی ایسی دل آویز عذرداریاں سامنے آئیں کہ وفاقی حکومت ہی نہیں دوسری سیاسی جماعتوں کے اکابرین بھی ان کے طرز سیاست پر ایک بار پھر انگشت بدنداں رہ گئے۔ لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ تو نہیں لیکن کچھ سچائی بیان کر دینے میں بھی کوئی حرج بھی نہیں ہے، اب کون سا میرے لکھنے سے 2018ء کے انتخابات کے نتائج پر کوئی حرف آ جائے گا یا آئندہ سے کوئی انتخابی نظام اچانک یکسر بدل جائے گا یا کوئی ایسا انہونا اہتمام ہو جائے گا کہ جو پاکستانی جس پارٹی یا جس امیدوار کو ووٹ ڈال کر آئے گا وہ ووٹ نتیجہ آنے تک اس کا ہی رہے گا۔ اس بار توحیرت ناک صورت حال سامنے آئی کہ 2018ء کے انتخابات میں بلوچستان کے دور افتادہ علاقے کولہوکا انتخابی نتیجہ پہلے آگیااور کراچی کے نتائج تین روز بعد جا کر بھی مکمل نہ ہو سکے۔ یہ چنائو میرے صحافتی کیرئیر کا غیر معمولی چنائواور اس کے نتائج ہر طرح سے طلسماتی تھے۔ ان انتخابات میں کچھ ایسا عجب تماشا ہوا کہ کراچی کی نمائندہ جماعت ایم کیو ایم کراچی کے لئے اجنبی جماعت ہو گئی اور کراچی والوں کے لئے ایک اجنبی جماعت تحریک انصاف کراچی کی منتخب نمائندہ جماعت بن کر ابھری اور ایم کیو ایم کے بطن سے جنم لینے والی جماعت پی ایس پی کی آسمان کو چھوتی امیدیں انتہائی غیر متوقع طور پر مٹی کے ڈھیر میں بدل گئیں۔ویسے یہ سیاسی تماشا کراچی تک محدود نہیں تھا، اس کی جادوئی جھلک پورے پاکستان میں دیکھنے کو ملی۔ ایم کیو ایم نے ان نتائج کو مشکوک قرار دیا اور انہیں تسلیم نہیں کیا لیکن اسی جماعت سے اتحاد بھی کر لیا جس پر اپنے مستند مینڈیٹ میں نقب لگانے کا الزام عائد کیا تھا۔ یہی ڈرامائی سیاست متحدہ قومی موومنٹ کا خاصا بنتی جارہی ہے۔ ایم کیو ایم کے اس طرز سیاست کو نظر انداز کر کے 2018 ء کے انتخابات کے بعد حکومت سازی تک بات بڑھائی جائے تو ایم کیو ایم کراچی میں ہار کر بھی جیت گئی اور تحریک انصاف کراچی میں جیت کر بھی کراچی والوں کے لئے اجنبی ہی رہی۔ یہ ہے بادشاہ گروں کی بازی گری جو تاریخ کے سینے پر ثبت ہو کر اپنے دیرپا نقوش چھوڑ گئی ہے۔ (جاری ہے) ٭٭٭٭٭٭