ڈاکٹر مقبول صدیقی کے ڈرامائی استعفے کی طرف لوٹنے سے پہلے اب ذرا پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے لئے ہمیشہ قربانی کا بکرا بننے والے رائے دہندگان کی حرماں نصیبی کا بھی ذکر ہو جائے۔ پاکستان ہی نہیں جنوبی ایشیا کے تمام ترقی پذیر نما غریب اور حریص ملکوں میں غریبوں کا، وہ چاہے شہری ہوں یا دیہی ہر چنائومیں شوق دیدنی ہوتا ہے۔ہر برہنہ تن، برہنہ پا، بھوکا پیاسا انسان ہر چنائو میں یوں پر جوش ہوتا ہے کہ جیسے وہ ان انتخابات میں خود ہی امیدوار ہو۔بے چارے غریب اور سیاسی چالبازیوں سے ناآشنا پاکستانی کا یہ کردار فکس کر دیا گیا ہے،رائے دہندہ کراچی کا ہو،لاڑکانہ کا یا کوئٹہ ،پشاورکا، وہ اس کردار کے قفس سے نکل ہی نہیں سکتا۔یہاں سیاسی کیمپوں پر، اوطاقوں اور ڈیروں پر پکنے اور کھلنے والی چاول کی دیگوں پر غریب یوں جھومتا اور گرتا ہے جیسے آندھی میں پکے ہوئے جامن زمین پر گر کر راہ گیروں کی خوراک بن جاتے ہیں، اس لئے تو اس ملک کا ہر مفلس اور لا چار بچہ ہی نہیں ہر فرد ہر روز کسی بڑے آدمی کے گھر کسی کی اچانک موت کی یا پھر آئے روز انتخابی رائے دہی کا تماشا لگنے کی دعا مانگتا ہے، انہیں یقین ہے کہ ان دونوں صورتوں میں انہیں پیٹ بھر کے نمکین چاول کھانے کو مل جائیں گے۔ وڈیرہ شاہی نظام میں غریب ایک وقت کی روٹی کے آسرے میں اور شہری بندوبست میںدل فریب نعروں اور گیتوں پر تھرکتے نظرآتے ہیں۔ ویسے بھی پاکستان میں سیاست کو نشہ بنا دیا گیا ہے، یہاں سیاست کا چسکا ہی ایسا ہے کہ غریب ہو یا امیر ہر ایک کے منہ کو لگ گیا ہے، کسی کو سیاسی چھینک بھی آ جائے تو ہر جگہ بزم آرائیاں شروع ہو جاتی ہیں، ہر آدمی تجزیہ کاری کے جوہر آزماتا ہے اورجتنے منہ اتنی باتیں۔ ڈرائنگ روموں، دفتروں، بیٹھکوں ، ریستورانوں میں اور تھڑوں پر پاکستان کی سیاست یوں ناچتی ہے کہ جیسے لوگوں کی خوشی کے مواقع پر ہمارے خواجہ سرا دوست خوشیوں کو دو بالا کرنے کے لئے دیوانہ وار رقص کرتے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی ،پاکستان مسلم لیگ، تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کا کئی عشروں سے ایندھن بننے والے غریب کارکنوں کو علم ہی نہیں ہوتا کہ پاکستانی سیاست کے سارے منظر اسکرپٹڈ ہوتے ہیں، اس کے سارے کردار اسکرپٹ سے روگردانی کی جسارت کر ہی نہیں سکتے ۔پاکستان کا مظلوم عام آدمی اور معصوم رائے دہندہ اس حقیقت سے نا آشنا ہے کہ اس کے نام پر تشکیل دی جانے والی ہر تمثیل اس کے ساتھ دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ان لوگوں کو پاکستان بننے کے 73 برس بعد بھی اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ منتخب افراد ان کے آقا نہیں بلکہ خادم ہیں اور آئین کی رو سے ان کی خدمت کے پابند ہیں۔ جس روز پاکستان کا عام آدمی اپنی سادہ لوحی اور کم عقلی کے خول سے باہر آیا دیکھ لیجئے گا ہمارے یہ سیاسی مداری اور غلام ذہنیت رکھنے والے سیاسی بادشاہ گلی گلی میں اپنے پیرہن اور اپنی اپنی پوشاکیں چاک چاک ہونے سے بچاتے پھر رہے ہوں گے۔ اس ملک میں سیاسی بازی گری کے یہ تماشے اب بند کرنے ہوں گے، یہ اس ملک کی یک جہتی اور ریاستی سلامتی کے لئے بھی ضروری ہے، ورنہ خلق خدا کو لگنے والی ٹھوکریں کسی دن بھی ان کے صبر کا پیمانہ چھلکا سکتی ہیں۔عام آدمی کو غلامی کی دلدل سے نکالنا ہے تو پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں میں بادشاہت اور موروثیت کا روایتی نظام ختم کرنا ہو گا۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی اور ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی جماعت ایم کیو ایم کو کسی حد تک کریڈٹ دینا ہو گا انہوں نے سیاست میں وراثت کے تصور کو نظرانداز کر دیا ہے لیکن ایم کیو ایم اب ایک شہری وڈیرہ پارٹی کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے ۔ ناقدین کہتے ہیں کہ اب ایم کیو ایم کو اپنے طرز سیاست کے حوالے سے اپنی جماعت پر لگے بد نما داغ دھونے ہوں گے جن سے سیاسی تکبر کا شائبہ جھلکتا ہے۔ ان دنوں بھی ایم کیو ایم کی تحریک انصاف کی حکومت سے علیحدگی پر کراچی کے مختلف حلقوں میں اسی قسم کی چہ میگوئیاں کی جا رہی ہیں اور ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور ان کی جماعت پر روایتی الزامات کی بوچھاڑ کی جا رہی ہے۔ کراچی کی پارلیمانی ساخت بدلنے کے بعد تو ایم کیو ایم بڑی بڑی سیاسی الجھنوں کی زد میں ہے۔ ایک طرف اسے پارٹی کے اندرونی خلفشار کا سامنا ہے، اپنے تو اپنے ڈاکٹر فاروق ستار رہ رہ کر اسے ستاتے رہتے ہیں۔دوسرا حکومت کے ساتھ سیاسی تعلقات کا توازن قائم رکھنے کے لئے اسے رسے پر چلنا پڑرہاہے جو خاصا مشکل کام ہے،تیسرا متحدہ قیادت نے تحریک انصاف کے حکومتی اتحاد کا حصہ بنتے ہوئے کارکنوں کے اصرار پر حکومت سے کچھ اہم وعدے لئے تھے جن میں حیدر آباد میں فی الفورجامع قسم کی جدیدیونیورسٹی کا قیام، کراچی اور حیدرآباد کے لئے ترقیاتی بجٹ میں اضافہ، کراچی کے لیے 162 ارب کے پیکیج کی فراہمی اور متحدہ قومی موومنٹ کے سربمہر دفاتر کھولنے جیسے مشکل ترین مطالبات رکھے گئے تھے۔ ان میں سب سے اہم ترین مطالبہ کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے 58 سربمہردفاتر کھولنے کا مطالبہ تھا۔ سولہ سترہ مہینوں کی سیاسی رفاقت میں ایم کیوایم ان میں سے ایک بھی مطالبہ تسلیم نہیں کراسکی اور آج خالی ہاتھ کھڑی ہے۔ایم کیوایم کے یہ دفاتر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بند کئے تھے اور وہ انہیں اب بھی کسی بھی قیمت پر کھولنے کے لئے رضامند نہیں ہیں۔ شنید ہے اس بار جہانگیر ترین اور پرویزخٹک کی قیادت میں بہادرآباد میں متحدہ کی قیادت سے ملنے والے وفود نے صرف 2 دفاتر کھولنے پر آمادگی ظاہرکی تھی جو غالباً لیاری اورگلستان جوہرکی نجی عمارات میں واقع ہیں۔ یوں متحدہ قومی موومنٹ اور تحریک انصاف میں پیدا ہونے والا ڈیڈ لاک برقرار ہے اور مسائل حل ہونے کی توقعات بہت کم دکھائی دیتی ہیں۔ یوں تو واویلا کیا گیا کہ تحریک انصاف کا بااختیار وفد متحدہ کے عارضی مرکز بہادر آباد ملنے آرہا ہے اور اسے چٹکیوں میں رام کرلے گا لیکن یہ کوششیں بارآور ثابت نہ ہوسکیں۔ تحریک انصاف کا وفد بہادرآباد میں ایم کیوایم کی قیادت سے مذاکرات یا ملاقاتیں کہہ لیجئے ، کی دونشستیں کرکے اسلام آباد پلٹ گیا ، یہ وفد خالی ہاتھ آیا تھا جس کے پاس متحدہ کو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا اور خالی ہاتھ بہادرآباد کراچی سے اسلام آباد پلٹ گیا۔متحدہ کی قیادت کو وفاق کی اس بے اختیار مذاکراتی ٹیم کے ساتھ مل کر یقیناً شدید مایوسی ہوئی ہوگی ۔ متحدہ نے بھی تحریک انصاف کی مذکراتی ٹیم کے اصرار کے باوجود وزیراعظم عمران خان سے اسلام آبادجا کر ملنے سے معذرت کرلی۔اس وقت متحدہ قومی موومنٹ کے کیمپوںمیں مایوسی چھائی ہوئی ہے، تحریک انصاف کے سیاسی دھوکے کے بعد متحدہ دوسال حکومت میں رہنے کے باوجود بھی بلدیاتی انتخابات میں کس طرح خالی ہاتھ کارکنوں اور ایم کیوایم کے ترانوں پر رقص کرنے والے رائے دہندگان کا سامنا کرے گی اور انہیں کیا بتائے گی کہ کراچی کے لئے ایک اجنبی جماعت نے متحدہ جیسی سیاسی چابک دست جماعت کودوسال تک دھوکے میں رکھا۔ اب اگر ایم کیوایم متحدہ کو منانے میں کامیاب بھی ہوجائے ،پھر بھی متحدہ کی یہ الجھن بہادرآباد کے مکینوں کے لئے کسی بڑے سیاسی نقصان کا سبب بن سکتی ہے ۔