جب افراد مختلف بندھنوں،ضرورتوں اور آزادانہ طرزِ اظہار کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں ، تو اِن کا مل جل کر رہناہی سماج کہلاتا ہے۔اس مل جل کررہنے میں اخلاقیات،قواعد و ضوابط، روایات اور اقدار کی کارفرمائی ضروری ٹھہرتی ہے ،کہ ان کے بغیر سماج کا ڈھانچہ برقرار نہیں رہ پاتا۔یوں آسان الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ سماج سے مُراد، افراد کا وہ مجموعہ ہے جو قواعد و ضوابط، اخلاقیات، اقدار، روایات، آزادی، مختلف بندھنوں اور ضرورتوں کے تحت مل جل کر رہتا ہے۔سماج کے مختلف طبقات کا ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہونا بے حد ضروری ہے ۔کوئی بھی انسان ،چاہے وہ کتنا ہی طاقت ور اور بہادر کیوں نہ ہو،وہ اکیلا نہیں رہ سکتا ،اکیلے رہنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ،اُس کا زندگی کے تمام معاملات میں بااختیار ہونا نہیں ٹھہرتا۔ایک انسان کے لیے زندگی کے معاملات کو تن تنہا نمٹانے کا اختیار نہیں ہے،زندگی کے معاملات اجتماع کے ہاتھ میں ہوتے ہیں ،جہاں سب اپنے اپنے اختیار کو بروئے کارلاتے ہیں تو زندگی آگے کی طرف بڑھتی ہے ۔یوں اگر دیکھا جائے تو افراد کا ایک ساتھ رہنا ،مل جل کر رہنا ہی اُس کی بقا کا ضامن بن گیا۔اب ایک سماج کے انسانوں پر یہ انحصار کرتا ہے کہ وہ مل جل کررہنے میں ایک دوسرے سے کس قدر تعاون کرتے ہیں ،اگر تعاون کریں گے تو یقینی طور پر بہتر سماج تشکیل پائے گا اور اگر افراد کا مجموعہ ایک دوسرے سے تعاون برتنے میں مسائل کا شکاررہے گا تو ایک بہترین سماج کی تشکیل شرمندۂ تعبیر نہ ہوپائے گی۔ سماج کی تاریخ فرد کی تاریخ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ۔ایک سماج اُتنا ہی قدیم ہوسکتا ہے ،جتنا پرانا ایک انسان ہوسکتا ہے۔تاہم ہر دَور میں سماج کی اشکال مختلف رہیں۔جو شکل سماج کی آج ہے ،وہ گذرے وقت میں ایسی نہ تھی اور جیسی آج ہے ،یہ آنے والے وقت میں مختلف بھی ہوسکتی ہے ،مگر آج سماج بہت ترقی کر چکا ہے ۔ایک وقت تھا کہ انسانی سماج غاروں اور جنگلوں کی شکل میں تھا۔پھر وقت کروٹ لیتا گیا اور سماج اپنی شکلیں بدلتا چلا گیا۔آج صدیوں کے سفر کے بعد، جنگلوں ،غاروں اور پتھروں کے دَور سے گذرتا ہوا انسان جدید تر ٹیکنالوجی کے دَور میں داخل ہو چکا ہے۔زمین پر اس کا مسکن جدید شہروں اور اُن میں زندگی کی تمام آسائشات سے مزین گھروں میں ہے۔گذرے زمانے کے بادشاہوں سے آج کا عام انسان زیادہ باسہولت زندگی گزارتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ انسانی ارتقاکی بدولت ہے۔ کارل مارکس نے کہا تھا کہ’’ انسان کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ فطرت کے پہلو بہ پہلو اپنی کائنات تخلیق کرلیتا ہے‘‘انسان نے ایسا ہی کیا ۔وہ جیسے جیسے ذہنی طور پر بالغ ہوتا گیا ،ایک دُنیا تخلیق کرتا چلا گیا۔انسان اور سماج کی موجودہ ترقی حیران کن ہے۔یہ حیران کن ترقی کئی طرح کے سوالات بھی کھڑے کرتی ہے۔ایک سوال یہ بھی ہے کہ انسان اور سماج کی مزید ترقی کا ہدف کیا ہوسکتا ہے؟کیا ترقی کا یہ عروج اپنے آگے اور بھی کوئی نشانِ منزل رکھتا ہے؟تاہم ہمیں آج ضرورت متوازن اور اعتدال پسند سماج کی ہے۔ایک متوازن اور اعتدال پسند سماج کی تشکیل کیونکر ممکن العمل ٹھہرسکتی ہے؟ متوازن اور اعتدال پسند سماج کے لیے ضروری ہے کہ اس میں تمام افراد کی حیثیت کو تسلیم کیا جائے۔اس میں کسی طرح کی کوئی تفریق یا تخصیص نہ رکھی جائے۔ہر ایک کو آگے بڑھنے کے مواقع دیے جائیں ۔ایسا ماحول تشکیل دیا جائے جس میں ہر فرد اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھاسکے۔تعلیم ، صحت، روزگار، تشخص،ہر فرد کا بنیادی حق قراردیا جائے۔معاشی انصاف کو بروئے کار لایا جائے۔قانون کی بالادستی ہو،طاقتور اور کمزور طبقات کا تصور نہ ہو۔ ایک متوازن اور اعتدال پسند سماج کے لیے ضروری ہے کہ اس میں زندگی بسر کرنے والے تمام افراد کو مذہبی آزادی حاصل ہو۔ اُن پر کسی طرح کی کوئی زبردستی روانہیں رکھی جاسکتی۔ وہ اپنی مذہبی تعلیمات پر عمل کرنے میں آزاد ہوں،اُن کی عبادت گاہیں محفوظ ہوں ،کسی خطرے کی زَد میں نہ ہوں۔ ہر فرد اپنی سماجی شناخت کے ضمن میں کافی حساس ہوتا ہے۔ایک روادار سماج کے لیے ضروری ہے کہ افراد کی سماجی شناخت کے حق کو تسلیم کیا جائے۔ہر پاکستانی فرد ،پاکستانی ہوتا ہے ،مگر اُس سے پہلے وہ سندھی ،بلوچی، پختون، پنجابی، سرائیکی و دیگر شناختوں کا حامل ہوتا ہے۔فرد سے اُس کی مقامی شناخت نہ چھینی جائے۔ایک سماج بیک وقت کئی تہذیبوں اور تمدنوں کا حامل ہوتا ہے،جس کے مظاہر ہرگروہ یا نسل کی طرزِ زندگی میں باآسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔ رہن سہن، لباس، نشست و برخاست ،ہر گروہ کی دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔اسی طرح روایات و رسوم ورواج مختلف ہوتے ہیں ،ان کو قبول کیا جائے۔ایک گروہ پر دوسرے گروہ کی روایات کو مسلط نہ کیا جائے۔ ایک مہذب سماج کے لیے ضروری ہے کہ افراد کی رائے کا احترام کیا جائے۔طاقت ور طبقات اور کمزور طبقات کی رائے کو یکساں اہمیت دی جائے۔سماج کے افراد اجتماعی رائے سے جس نظام کو سپورٹ کریں ،اُس نظام کو پھلنے پھولنے دیا جائے۔فرد کی رائے اور حق کو تسلیم کرنا ہی جمہوری رویہ ہے اور بہترین نظام جمہوری بنیادوں پر ہی قائم کیاجاسکتا تھا۔جمہوری اقدار کو بروئے کا رلایا جائے۔غیر جمہوری معاشروں میں مساوات اور احترام کا روّیہ ناپید ہوتا ہے ۔جبکہ رواداری احترام ،یگانگت اور باہمی خوشگوار تعلق اور برابری کی موجودگی میں پیدا ہوتی ہے اور یہ سب کچھ جمہوری نظام میں ممکن ہو سکتا ہے۔جب تک پاکستانی ثقافت میںجمہوریت کو جزوِلازم کے طور پر نہیں لیا جائے گا،تب تک یہاں جمہوری اقدار پروان نہیں چڑھ پائیں گی۔ ایک بہتراورمتوازن سماجی نظام کے لیے معاشی انصاف ، سماجی نظام کا کلیدی جزو ٹھہرتا ہے۔اگر سماجی نظام ،معاشی انصاف سے ہمکنار نہیںتو وہ کھوکھلاسماجی نظام ہوگا، جس کی کوئی بنیاد ہوگی اور نہ ہی اخلاقیات۔ایسا نظام بدصورتیوں کے فروغ میں معاونت کا حامل ہوتا ہے اور تخلیقی اختراع سے ،اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔عدم معاشی انصاف ،فکری و نظری،جسمانی و نفسیاتی اور کئی طرح کے عارضوں کو جنم دے کر ایسے رویوں کو بروئے کار لاتا ہے جو مجموعی ثقافت کا حصہ بن کر انمٹ نقوش کے حامل ٹھہرتے ہیں ۔یہاں المیہ یہ ہے کہ دولت چند لوگوں کے ہاتھ میں ہے ۔وہ ناجائز وجائز طریقوں سے جمع کردہ دولت کی بدولت میسر آئی خوشحالی قسمت کالکھا تصور کرتے ہیں ۔دوسری طرف جو ایک ایک لقمے کو ترستے ہیں ،اُن کی عسرت کو بھی قسمت کا لکھا گردانا جاتا ہے۔لیکن معاشی ناہموار ی کی بدولت پھوٹنے والی سماجی برائیوں کو قسمت کا لکھا تصور نہیں کیا جاتا اور اس کے لیے کڑی سے کڑی سزاتجویز کی جاتی ہے ۔