وزیر اعظم کے 27ستمبر کے اقوام متحدہ کے اجلاس میں خطاب کی تعریف میں جو بھی کیا جائے الفاظ اس کے لیے کم پڑ جائیں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وزیر اعظم کے جوشیلے طرزعمل کی بنا پر بعض ماہرین کا خیال تھا کہ عمران خان خوش خطابت میں کہیں پٹڑی سے اتر نہ جائیں یا بعض اہم نکات کا ذکر کرنا بھول نہ جائیں لیکن وزیر اعظم نے ان تمام خدشات کو غلط ثابت کر دیا۔ انہوں نے اپنی تقریر کو بہت منطقی انداز میں آگے بڑھایا اور ان کا بیان کردہ ہر نکتہ پہلے سے بیان کردہ ہر نکتے سے منطقی انداز میں منسلک تھا۔ انہوں نے امیر ممالک کی جانب سے اپنے ممالک میں غیر قانونی طور پر حاصل کردہ دولت کو تحفظ فراہم کرنے پر شدید تنقید کی اور اسے غریب ممالک کا معاشی استحصال قرار دیا۔ عمران خان نے ’’اِسلاموفوبیا‘‘ اور ’’ریڈیکل اسلام‘‘ جیسی اصطلاحات پر تنقید کرنے کے علاوہ سامعین کو اس ذہنی کج روی کے منفی اثرات سے بھی آگاہ کیا اور اس رویے کو مسلمانوں کی جانب سے ردعمل کا باعث قرار دیا۔ جناب وزیر اعظم نے توہین رسالت پر بھر پور انداز میں مسلم امہ کی ترجمانی کا حق ادا کر دیا۔ ان کا یہ جملہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے کہ دل کو پہنچنے والی تکلیف جسمانی تکلیف سے کئی گنا بڑھ کر ہوتی ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے متعلق کی گئی گستاخی کو کوئی مسلمان بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کر سکتا۔ یوں ابتدا ہمیشہ غیر مسلموں کی جانب سے ہوتی ہے اور جب کوئی جوشیلا مسلمان شدید ردعمل کا اظہار کرتا ہے تو اسے ’’ریڈیکل اسلام‘‘ کا نام دے دیا جاتا ہے۔ انہوں نے حجاب کے متعلق بھی بہت دل چسپ لیکن حقیقی تبصرہ کیا کہ یورپی ممالک میں کسی کو عورتوں کے اپنے کپڑے اتار کر برہنہ ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا لیکن مسلمان خواتین کپڑے پہن کر حجاب لیں تو اسے ’’ریڈیکل اسلام‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ انہوں نے یہ سوال بھی کیا کہ کیا حجاب کوئی ہتھیار ہے جس سے سب ڈرتے ہیں؟ انہوں نے نریندر مودی کی تنظیم آر ایس ایس اور ہٹلر کی نازی تحریک میں یکسانیت کے پہلو کو بھی واضح کیا جو اپنے تئیں نسلی طور پر سب سے اعلیٰ نسل سمجھتے ہیں اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے علاوہ دیگر اقلیتوں کو اپنا غلام تصور کرتے ہیں۔ جناب عمران خان نے خود کش حملوں کی تاریخ کا بھی جائزہ لیا کہ تامل ناڈو نے سری لنکا میں خود کش حملوں کی ابتدا کی لیکن کسی نے انہیں ’’ریڈیکل ہندوازم‘‘ نہیں کہا۔ خود مہاتما گاندھی جیسے عظیم ہندو لیڈر کو بھی ایک ہندو ہی نے قتل کیا۔ جناب وزیر اعظم چاہتے تو اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے قاتلوں کا بھی ذکر کر سکتے تھے جن میں سے کوئی بھی مسلمان نہ تھا۔ عمران خان نے اس نکتے کو بہت وضاحت سے بیان کیا کیونکہ صرف چند روز قبل ہی ڈونلڈ ٹرمپ صاحب نریندر مودی کی ہیوسٹن والی ریلی میں، مودی کے ساتھ مل کر ’’ریڈیکل اسلام‘‘ کے خلاف جنگ کرنے کا اعلان فرما چکے تھے۔ عمران خان نے ڈونلڈ ٹرمپ کا نام لیے بغیر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ بعض عالمی لیڈروں کی جانب سے ایسے بیانات ہی شدت پسندی کو جنم دیتے ہیں اور انسانوں کے درمیان نفرت کی خلیج حائل کرتے ہیں۔ انہوں نے ’’آزادیٔ اظہار‘‘ کی آڑ میں ایسے تمام اقدامات کی مذمت کی جو دوسروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائیں۔ اس ضمن میں انہوں نے سوال کیا کہ ’’ہولو کاسٹ‘‘ کو زیر بحث لانا آزادیٔ اظہار سے مستثنیٰ کیوں ہے؟ صرف اس لیے کہ اس سے یہودیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کے پیغمبرؐ کی توہین سے مسلمانوں کے جذبات کو کئی گنا زیادہ ٹھیس پہنچتی ہے لہٰذا یہ سلسلہ بعد ہونا چاہئے۔ جناب عمران خان نے کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے اپنی تمام توانائیاں صرف کر دیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی ان گیارہ قراردادوں کا ذکر کیا جن کی رو سے کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے اور اس کا فیصلہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دے کر کیا جانا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر اسی لاکھ جانوروں کو بھی اس طرح کی قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کیا جاتا تو دنیا چلا اٹھتی لیکن کشمیر کے مسئلے پر دنیا خاموش ہے۔ کیا صرف اس لیے کہ کشمیری مسلمان ہیں؟ آج عالمی طاقتوں نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ایک بہت بڑی منڈی کے لالچ میں مودی کا ساتھ دینا چاہتے ہیں یا حق اور انصاف کا ساتھ دینا چاہتے ہیں۔ اگر آٹھ ملین کشمیریوں کے بجائے صرف آٹھ ہزار یہودی اس جبرواستبداد اور ظلم کا شکار ہوتے تو کیا دنیا پھر بھی خاموشی سے دیکھتی رہتی؟ ہم آج پھر 1939ء والی صورتحال سے دوچار ہیں۔ جس کو سلواکیہ پر قبضہ کیا جا چکا ہے تو کیا عالمی طاقتوں کو جرمنی کی خوشامد کرتے رہنا چاہئے یا کچھ کر گزرنا چاہئے؟ آج اقوام متحدہ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ذرا سوچئے کہ کشمیر کی اسی لاکھ آبادی پر نو لاکھ بھارتی فوجی مسلط ہیں گویا ہر نو کشمیریوں پر ایک بھارتی فوجی رائفل تانے کھڑا ہے۔ آج یہی کرفیو اٹھا لیا جائے تو کشمیری فوراً احتجاج کے لیے نکل آئیں گے۔ بھارتی فوجی ان پر گولیاں برسائیں گے تو خون کی ندیاں بہہ نکلیں گی۔ کیا دنیا اس خون خرابے کا انتظار کرر رہی ہے؟ اٹھارہ کروڑ بھارتی مسلمانوں اور مسلمان ممالک کے ایک ارب تئیس کروڑ مسلمانوں میں سے کوئی بھی مشتعل ہو کر ہتھیار اٹھا سکتا ہے۔ جب لوگ انصاف سے مایوس ہو کر ہتھیار اٹھا لیتے ہیں تو پھر دنیا انہیں ’’ریڈیکل مسلم‘‘ کا خطاب دے دیتی ہے۔ عمران خان نے انتہائی دانش مندی سے بھارت کے متوقع اقدامات کا بھی ذکر کیا کہ اگر کشمیری نوجوانوں میں سے کسی نے بھی پلوامہ جیسا قدم اٹھا لیا تو بھارت پاکستان پر چڑھ دوڑے گا۔ ظاہر ہے کہ پاکستان اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرے گا۔ ایسے میں ایک چھوٹا ملک ہونے کے ناطے اگر ہماری قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہوئے تو ہمارے ممکنہ اقدامات کے اثرات بہت دور تک جائیں گے۔ انہوں نے ایک سٹیٹس مین کی طرح ایٹم بم کا ذکر کیے بغیر یہ بھی واضح کر دیا کہ یہ ہماری جانب سے کوئی دھمکی نہیں بلکہ میں اپنے خوف اور خدشات کا اظہار کر رہا ہوں کہ ایسے حالات میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ آج اقوام عالم نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ آٹھ ملین کشمیریوں کو حق خود ارادی دلانے کے لیے آگے بڑھنا چاہتی ہیں یا سوچ بچار میں وقت ضائع کر کے بھارتی خونریزی اور خطے کو لاحق خطرات کو مزید بڑھانا چاہتی ہیں۔ عمران خان کی تقریر کے دوران متعدد بار تالیاں بجائی گئیں اور ان کا خطاب پوری توجہ سے سنا گیا۔ توقع کرنی چاہئے کہ اس خطاب کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اس خطاب کے نتیجے میں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر کرفیو کی پابندیاں ختم کرے اور گرفتار افراد کو رہا کرے۔ امید ہے کہ دیگر ممالک بھی بھارت پر اپنا دبائو مزید بڑھا دیں گے۔ ویل ڈن عمران خان۔