وہ ہر بات پر آہیں بھرتی اور زندگی کے کسی نہ کسی تاریک اور تکلیف دہ پہلو کا تذکرہ کرنے لگتی۔ آئینے میں خود کو بغور دیکھتی رہی اور بولی ’’ہائے ہم کتنے خوب صورت ہیں۔ ہمارے دل خواہشوں سے لبریز ہیں لیکن ایک دن کوئی جان لیوا بیماری کا انکشاف ہو گا اور پھر کسی روز چپ چاپ مر جائیں گے، وہ بھی تو ایسے ہی مر گئی تھی ایک دن۔ ابھی تک یقین نہیں آتا۔ سامنے تکتے تکتے بولی۔ سامنے دیوار نہیں، ایک جہازی سائز آئینہ نصب تھا، وہ اس آئینے میں دیکھتے ہوئے بظاہر خود کلامی کر رہی تھی لیکن اس کی مخاطب میں ہی تھی کیونکہ اس کمرے میں، میں اس کی باتوں کو دلچسپی سے سن رہی تھی۔ اسی لیے میں نے درمیان میں اسے ٹوکا اور کہا کہ تم ایسی ناامیدی کی باتیں کیوں کرتی ہو۔ اس پر وہ بولی۔ ناامید میں نہیں ہوں۔ میں اس لیے ایسا سوچتی ہوں مجھے زندگی سے پیار ہے۔ مجھے اپنی ماں، اپنی بیٹی اور اپنے کام سے عشق۔ تو کیا کسی روز میں میں اچانک اسے چھوڑ کر چلی جائوں گی؟ میرے بعد میری بیٹی کا کیا ہوگا۔ میں نے دیکھا ہے مائوں کے بعد بیٹیاں رُل جاتی ہیں۔ اس نے یہ بات اس انداز میں کہی کہ میرے اندر بھی درد کی ٹیس اٹھی۔ زندگی کا سب سے بڑا وچھوڑا ماں کی جدائی ہی تو ہے لیکن میں نے اس لمحے اپنے احساسات کو چھپایا۔ اپنی آنکھوں کی نمی کو انگلی کی ایک پور صاف کیا اور کہا زندگی میں ہمیشہ مثبت سوچو۔ یقین رکھو کہ زندگی ایک عظیم نعمت ہے اور تمہارے رب نے تمہیں بہترین زندگی دی ہے۔ اس کی ایک نعمت کا شکر کرو تمہارے ہاتھ پائوں، آنکھیں، اعضاء کا کام کرنا، سانس کا آنا جانا۔ انمول نعمتیں ہیں، صبح سے شام تک امن میں گزارنا، تین وقت کا کھانا کھانا عظیم نعمتیں ہیں۔ گھر کی چھت میسر ہونا، زندگی میں چند پُرخلوص رشتوں کی موجودگی، زندگی کا سب سے خوب صورت پہلو۔ رہی بات بیماری، موت اور بچھڑنے کی تو یہ سب فطری بہائو کا ایک حصہ ہے۔ قدرت کے نظام پر پروگرام فیڈ ہے۔ انسان کا اس پر کنٹرول نہیں لیکن صرف مثبت سوچ کی طاقت۔ ہم اپنی زندگی کو خوب صورت بنا سکتے ہیں۔ زندگی مشکل ہے، بوجھ ہے یا زندگی ایک عظیم نعمت ہے۔ اس کا فیصلہ ہماری سوچ کرتی ہے۔ اپنے رب سے جڑ جائو تو ساری زندگی کے دکھ بھی انسان کی طاقت بن جاتے ہیں۔ بس یقین رکھو کہ سب اچھا ہوگا، بہترین ہوگا، پھر یقین کی اس طاقت سے معجزانہ طورپر واقعی سب اچھا ہونے لگے گا۔ وہ میری باتوں کو خاموشی سے سنتی رہی اور بولی باتیں تو یہ بہت اچھی ہیں لیکن زندگی اتنی سیدھی نہیں ہے۔ تقدیر کے اتنے الٹ پھیر ہیں کہ باتیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ میں جانتی تھی کہ وہ اتنی جلدی متفق کہاں ہوگی۔ منفی سوچوں میں گھرے ہوئے لوگ اس تاریکی سے اتنی آسانی سے کہاں نکلتے ہیں لیکن میں نے اس کی منفی اور ناامیدی سے بھری سوچ کے سامنے، مثبت اور امید سے بھری سوچ رکھ کر ایسا ہی کیا جو مجھے کرنا چاہیے تھا جو میرا کام ہے، دیا جلانا، گھپ رات کی تاریکی کے مقابل ایک ننھا دیا بھی بہت ہے۔ میں نے جب مائنڈ پاور پر پڑھنا شروع کیا۔ مثبت اور یقین کی طاقت کا اندازہ ہوا، مجھے لگا کہ یہ میرا فرض ہے کہ جو کوئی منفی سوچ کا اسیر ہو اسے اس زندگی کا مثبت رخ دکھائوں جوکہ Food for Thought کی طرح اسے سوچنے پر مجبور ضرور کرے۔ منفی سوچ کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں موجود نعمتوں کی قدر کرنا نہیں جانتے۔ گزشتہ دنوں میں نے ایک کالم اس پر لکھا تھا کہ شکر گزاری زندگی میں ایک طاقت ہے اور اس وقت شکرگزار ہونا اور بھی زیادہ ضروری ہوتا ہے جب آپ زندگی کے مشکل مرحلے سے گزر رہے ہوں۔ دکھ، تکلیف، مسائل، جدائی، موت، بیماری سب زندگی کا حصہ ہے۔ یہ سب زندگی ہی کے رنگ ہیں۔ زندگی کے ہر رنگ کو اللہ کی رضا سمجھ کر قبول کریں۔ اس یقین کے ساتھ کہ وہ رب آپ سے ستر مائوں جتنی محبت کرتا ہے۔ اس عارضی زندگی میں ہم جتنا اپنے رب کی نعمتوں کی شکر گزاری کریں۔ اتنا ہی وہ ہمیں اور نوازے گا۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے ’’اور تم شکر کرو تو میں تمہیں اور نوازوں گا۔‘‘ زندگی میں کسی نقصان اور تکلیف پر اللہ کی رضا پر راضی رہنا بھی ایک شکر گزاری ہے۔ اپنے رب کو ہمیشہ اپنے ساتھ محسوس کریں۔ اس طاقت کو اپنی طاقت بنائیں۔ چند روز پہلے میں نے ایک سائیکالوجسٹ کا بلاگ پڑھا جو اس موضوع پر تھا۔ اس نے لکھا کہ زندگی میں ہر چھوٹی سی چھوٹی خوشی کو سلیبریٹ کریں۔ اگر آپ نے اپنی کوئی مشکل اسائمنٹ مکمل کی ہے، کوئی پراجیکٹ کامیابی سے تکمیل پر پہنچا ہے، آپ کے بچے نے معمول کے ٹیسٹ میں اچھی کارکردگی دکھائی ہے تو اس پر شکرگزار ہوں، اس شکرگزاری سے آپ کے اردگرد مثبت سوچ کی روشنی پھیل جائے گی جو آپ کی زندگی اور بھی مثبت چیزوں کو اٹریکٹ کرے گی۔ اٹریکشن کا یہ اصول بھی بہت دلچسپ ہے اور اس کا تعلق بھی مائنڈ پاور کے ساتھ ہے۔ آپ جیسا سوچتے ہیں ویسا ہونے لگتا ہے۔ اسے یقین کی طاقت بھی کہتے ہیں، مثبت سوچیں تو مثبت چیزیں زندگی میں ہونے لگتی ہیں۔ ان دنوں قمر اقبال صوفی کی کتاب زیر مطالعہ ہے جس میں یقین کی طاقت پر بڑی خوبصورت روشنی ڈالی گئی ہے۔ کتاب صخیم ہے۔ تقریباً پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ ایک الگ کالم اس پر لکھنا بنتا ہے لیکن اس وقت اس سے ایک دلچسپ بات آپ سے شیئر کرتی ہوں۔ قمر اقبال صوفی لکھتے ہیں کہ جب کوئی پریشان حال کسی پیر فقیر یا روحانی بابے کے پاس جاتا ہے تو وہ اسے حالات کی بہتری کے لیے کچھ وظیفہ پڑھنے کو دیتا ہے اور ساتھ اسے یقین دلاتا ہے کہ اس کے ورد سے تمہارے حالات میں بہتری آنا شروع ہو جائے گی۔ اب وہ پریشان حال اسی یقین سے وہ ورد کرتا ہے کہ اس سے اُس کے مسائل حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ یہ بات چونکہ اس کے ذہن میں بھی ایک یقین کے ساتھ پختہ ہو جاتی ہے کہ اب حالات میں بہتری ضرور آئے گی تو پھر واقعی راستے کھلنے لگتے ہیں، مسائل کی گرہیں کھل جاتی ہیں۔ تاریکی میں کوئی دیا جل اٹھتا ہے اور اندھیرا چھٹنے لگتا ہے۔ وہ شخص سوچتا ہے کہ بابے نے ٹھیک کہا تھا۔ وہ اس بات کا سارا کریڈٹ بابے کو دے دیتا ہے حالانکہ حقیقت میں بازی اس کے یقین کی طاقت سے پلٹتی ہے۔ یہ ہے مائنڈ پاور۔ اس لیے ہم سب کو اپنے اندر یقین کی اس طاقت کو بحال کرنا چاہیے، مثبت سوچ کا دیا جلانا چاہیے۔ منفی سوچ مایوسی ہے، اس سے ہر صورت بچنا عین عبادت ہے۔