معزز قارئین!۔کل (2 مئی کو) مجاہد ِ ملّت مولانا عبداُلستار خان نیازیؒ کے دوستوں اور عقیدت مندوں نے اندرون اور بیرونِ پاکستان ، اُن کا 18 واں یوم وِصال ، عقیدت و احترام سے منایا۔ عیسیٰ خیل تحصیل میانوالی کے مولانا عبداُلستار خان نیازیؒ 1938ء میں ’’پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘ کے صدر ، 1945ء ۔1946ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں اسلامیات کے پروفیسر اور 1946ء کے صوبائی انتخابات میں میانوالی ( South) سے آل انڈیا مسلم لیگ کے امیدوار کی حیثیت سے ’’یونیسٹ پارٹی ‘‘ کے ایک جاگیر دار خالق داد خان کو شکست دے کر پنجاب اسمبلی کے رُکن منتخب ہُوئے تھے۔ 1947ء میں مولانا صاحب ’’ پنجاب مسلم لیگ ‘‘ کے صدر منتخب ہُوئے اور قیام پاکستان کے بعد اُنہیں تحریک ِ پاکستان کے سرگرم راہنما کی حیثیت سے "Gold Medal" سے نوازا گیا۔ مولانا نیازیؒ ’’جمعیت عُلمائے پاکستان‘‘ کے صدر رہے۔ 1988ء اور 1990ء میں قومی اسمبلی کے رُکن اور 1994ء میں سینٹ آف پاکستان کے رُکن کی حیثیت سے وفاقی وزیر مذہبی امور و بین اُلمذاہب ہم آہنگی بنائے گئے۔ مولاناعبداُلستار خان نیازیؒ نے ’’اتحاد بین اُلمسلمین ‘‘میں بھی اہم کردار ادا کِیا۔ قیام پاکستان کے بعد ہمارا خاندان میرے والد صاحب ، تحریکِ پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان کی قیادت میں مشرقی (اب بھارتی) پنجاب سے ہجرت کے بعد پاک پنجاب کے شہر سرگودھا میں آباد ہُوا۔ مَیں نے 1960ء میں مسلک صحافت اختیار کِیا اور 1961ء میں گریجوایشن کی ۔ مولانا عبداُلستار خان نیازیؒ میانوالی سے لاہور اور لاہور سے میانوالی آتے جاتے (تحریک ِ پاکستان کے ) اپنے دوستوں سے ملاقاتوں کے لئے عام طور پر تحریکِ پاکستان کے ایک اور نامور (گولڈ میڈلسٹ) کارکن قاضی مُرید احمد صاحب کے گھر قیام کرتے تھے ۔ قاضی صاحب نے ہی جنوری 1962ء میں میرا مولانا نیازیؒ صاحب سے تعارف کرایا تھا۔ فروری 1964ء میں جنابِ مجید نظامی نے مجھے ، سرگودھا میں ’’ نوائے وقت‘‘ کا نامہ نگار مقررکِیا ۔ 1964ء میں "B.D.System"کے تحت انتخابات ہُوئے تو، میانوالی میں قومی اسمبلی کے ایک حلقۂ انتخاب سے مولانا عبداُلستار خان نیازیؒ ( اُن دِنوں ) گورنر مغربی پاکستان نواب امیر محمد خان (آف کالا باغ) کے بیٹے ملک مظفر خان سے بہت ہی کم ووٹوں سے ہار گئے تھے ۔ اُس کے بعد مولانا صاحب سرگودھا تشریف لائے تو، مَیں نے اُن کے اعزاز میں سرگودھا پریس کلب میں تقریب کا اہتمام کِیا، جس میں قاضی مُرید احمد اور کونسل مسلم لیگ کے دوسرے قائدین کو بھی مدّعو کِیا۔ اگلی صبح سٹی پولیس سرگودھا مجھے گرفتار کرنے کے لئے میرے گھر پہنچ گئی تو، مَیں ہمسائے کی دیوار پھاند کر کچہری ؔبازار پہنچ گیا۔ قاضی مُرید احمد اور کچھ دوسرے مسلم لیگی قائدین مجھے اپنے ساتھ لے کر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ، چودھری عبداُلحمید باجوہ سے ملے تو، اُنہوں نے (ایس ۔ ایچ ۔ او ) تھانہ سٹی کو خاموش رہنے کا حکم دے دِیا۔ پھر میری مولانا صاحب ؒسے عقیدت اور نیاز ؔمندی بڑھتی گئی ۔ نومبر 1969ء کو مَیں لاہور شفٹ ہوگیا۔ اُس کے بعد بھی ۔ اُس کے بعد مولانا صاحب نے مجھے ’’ تُم‘ ‘ کے بجائے ’’آپ‘‘کہنا شروع کِیا۔ تو مَیں نے کئی بار کہا کہ ’’ محترم مولانا صاحب !۔ اگر آپ مجھے ’’تُم ‘‘ ہی کہا کریں تو ، مجھے بہت اچھا لگے گا‘‘۔ اِس پر مولانا نیازی صاحبؒ نے مجھے تھپکی دیتے ہُوئے کہا کہ’’ اب ’’ تُم‘ ‘ ۔ ’’ آپ‘‘ کہنے کے قابل ہوگئے ہو‘‘۔ سرگودھا ، لاہور اور اسلام آباد میں اُن سے میری بہت سی ملاقاتیں ہُوئیں۔ مَیںنے اُن سے بہت کچھ سیِکھا۔ تا حیات علّامہ اقبالؒ ، قائد ِ اعظمؒ اور مادرِ مِلّتؒ کے افکار و نظریات کی ترویج و اشاعت میں مصروف رہے۔ اُنہوں نے اپنا طُرّہ کسی بھی حکمران کے آگے جُھکنے نہیں دِیا ۔ مَیں نے اُن کی عظمت بیان کرتے ہُوئے اُن کی طرف سے اپنی ایک نظم میں کہا تھا کہ … عِشق میں بیش و کم ، نہیں کرتے ! ہم ہیں درویش ، غم نہیں کرتے! کجکُلا ہوں کے سامنے ، سجدے! لوگ کرتے ہیں ، ہم نہیں کرتے! 1992ء میں وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ کے اجلاس میں کویت پر عراقی حملہ زیر بحث آیا تو، مولانا صاحب کا وزیراعظم نواز شریف سے اختلاف ہوگیا ۔ مولانا صاحب نے اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دِیا تھا۔ اِس پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہُوئے مولانا عبداُلستار خان نیازی نے ہندی زبان کا یہ شعر پڑھا تھاکہ … بھلا ہُوا ، موری کاگر، ٹُوٹی مَیں تو پَنیا بَھرن سے، چُھوٹی یعنی’’ یہ اچھا ہُوا کہ میری (وزارت کی ) گاگر ٹُوٹ گئی اور مَیں وزیراعظم میاں نواز شریف کا پانی بھرنے سے بچ گیا۔ ’’پانی بھرنا‘‘ کے معنے ہیں۔دراصل مزاجاً مولانا عبدالستّار خان نیازیؒ کسی کی ماتحتی نہیں کرسکتے تھے۔ اُنہوں نے اپنی مرضی سے وزارت کی گاگر توڑ دِی تھی۔ 11 جولائی 1973 ء کو ، مَیں نے لاہور سے اپنا روز نامہ’’ سیاست‘‘ جاری کِیا تو، دو دِ ن بعد مولانا نیازیؒاپنے چند مُریدوں کو ساتھ لے کر مجھے مبارکباد دینے کے لئے میرے دفترتشریف لائے ۔ اتفاق سے اُس وقت سرگودھا سے آئے میرے والد صاحب بھی وہاں موجود تھے ۔ مولانا صاحب ؒ اُن سے بغل گِیر ہُوئے اور بولے ’’ تُہاڈا پُتّر بوہت بہادر اے‘‘‘ ۔ میرے اباّ جی نے کہا کہ ’’ ایس دِی بہادری وِچ ّ تُہاڈے جیہے بہادراں دا بوہتا عمل دخل اے!‘‘۔ معزز قارئین! روزنامہ’’سیاست‘‘کے ایڈیٹر اور کئی قومی اخبارات کے کالم نویس کی حیثیت سے مَیں نے مولانا عبداُلستار خان نیازی کے سیاسی مخالفین کی خوب خبر لی۔ 1993ء کے عام انتخابات میں مولانا عبداُلستار خان نیازی پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار ڈاکٹر شیر افگن نیازی سے ہار گئے تھے تو، اُنہوں نے بڑھک ؔماری کہ ’’ میرا نام شیر افگن ہے ۔ یعنی۔ ’’شیر کو مارنے والا ‘‘۔ مَیں نے جواب میں لکھا کہ ’’ کیا 55 سال کی عُمر تک ڈاکٹر صاحب بغیر ہی کسی نام کے گھومتے پھرتے رہے؟۔ اصل شیر افگن تو، مغل بادشاہ جہانگیر کے دَور کا ایک سردار ( علی قُلی خان) تھا اور جب اُن نے حقیقی شیر مارا تو، جہانگیر نے اُسے شیر افگن کا خطاب دِیا تھا۔ اور پھر جہانگیر نے اُسے ( شیر افگن کو ) قتل کروا کے اُس کی بیوی مہر اُلنساء ؔ سے شادی کر کے اُسے ’’ملکہ نور جہاں‘‘ بنا دِیا تھا‘‘۔ مَیں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ’’ تیر کے انتخابی نشان والی پاکستان پیپلز پارٹی کا انتخاب جیت کر ڈاکٹر صاحب تو ’’ تیر افگن‘‘ ہوگئے ہیں ۔ یعنی’’ تیر برسانے والا‘‘۔ ’’جمعیت عُلمائے پاکستان‘‘ جب دو گروپوں میں تقسیم ہُوئی تو، مولانا شاہ احمد نورانی نے کہا کہ ’’ مولانا عبداُلستار خان نیازی ، اپنے گھر میں ؔرہیں لیکن، ہم اُن کے ساتھ اپنا مُنہ کالا کیوں کریں؟‘‘۔ اپنے کالم میں مَیں نے لکھا کہ ’’ مولانا عبداُلستار خان نیازیؒ نے تو، ابھی تک اپنا گھر ، بساؔیاہی نہیں اور اگر وہ اپنے گھر میں خُوش نہ ہوتے تو، کیا مولانا شاہ احمد نورانی اپنے پرانے ساتھی کو ’’ مُنہ کالا کرنے کے پروگرام میں شامل کرلیتے؟‘‘۔ برادرِ عزیز سیّد ارشاد احمد عارف نے بھی میری طرح مولانا عبداُلستار خان نیازی کے ’’نیازمندوں‘‘ میں سے شامل ہیں ۔ اُنہوں نے مجھے بتایا تھا کہ’’ مولانا عبداُلستار خان نیازی میری شادی میں تشریف لائے تھے اور اُن کی دُعا و برکت سے ہمارا خاندان ابھی تک فیض یاب ہو رہا ہے ‘‘۔ معزز قارئین!۔ 30 اگست 1996 ء کو لاہور میں، میری بڑی بیٹی مُنزّہ کی شادی تھی ۔ مولانا عبداُلستار نیازیؒ تشریف لائے۔ میری درخواست پر انہوں نے میری بیٹی کو دُعائیں دِیں اور کہا کہ’’ بیٹی! تُم اللہ کو یاد رکّھو گی تو، اللہ بھی تمہیں یاد رکھے گا!‘‘ ۔ ماشاء اللہ کینیڈا میں مُقیم میری یہ بیٹی بہت ہی خوشحال ہے ۔اُس نے اور اُس کے شوہر ،خلیل احمد خان نے کئی بار حج کیا اور اپنے دونوں بیٹوں عبدالاحد خان ، محمد فہد خان اور بیٹی صدف خان کو ساتھ لے عُمرے کی سعادت حاصل کی۔ مولانا صاحب ؒ نے مجھے بتایا تھا کہ ’’ دراصل ہمارے قبیلے کا نام ’’ نیازئی ‘‘ ہے، جو عرُف ِ عام میں نیازی ؔہوگیا ‘‘۔ بہرحال فارسی زبان میں ’’ نیازی‘‘ کے معنی ہیں ’’ محبوب‘‘ ۔ مولانا عبداُلستار خان نیازی ؒسے ، مِلت اسلامیہ کی پرانی اور نئی نسل کی نیازمندی کا سلسلہ جاری ہے ۔ اِنشاء اللہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔