ایک دینی اورنظریاتی جماعت کے امیرکو مصلحت پسندی سے ماوراجس طرح بے لچک، بے تکلف،صاف گو اورکسی لگی لپٹی کے بغیر جیسا مبرہن اوردوٹوک بات کرنیوالا ہوناچاہئے سابق امیر جماعت اسلامی سیدمنورحسن اس اصول پر پورا اترتے تھے۔جماعت اسلامی کی تاریخ میں انہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن سے امیر جماعت اسلامی بننے تک کے سفرمیں قدم قدم پر ایک ایک نتھرے اورنکھرے مجاہدقائد کے طور پر لکھوایا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب وہ پہلی بار امیرجماعت منتخب ہوئے تویہ انکی پہلی اورآخری شفٹ ثابت ہوئی اور تازیست وہ دوسری بار جماعت اسلامی کے امیر منتخب نہ ہوسکے جبکہ ان کے پیش روتین امرائے جماعت متعددباراورکئی کئی مرتبہ منتخب ہوتے رہے اور اس طرح عشروں تک اس رتبہ عظیم اورمنصب جلیل پرفائزہوتے رہے جبکہ موجودہ بھی اپنی دوسری باری نبھارہے ہیں۔ منور حسن کا چبھتا ہوا انداز تکلم معمول کی بات چیت کا تو ناگزیر حصہ تھا ہی لیکن تقریروں میں تو یہ اپنی انتہا پر پہنچ جاتا۔ ان کا یہ شعلہ بار انداز بیاں ہی تھا کہ ان پر پابندیاں لگتیں اور حکومت کوشش کرتی کہ سیاسی تحریکوں کے دوران انھیں خطاب کے مواقع میسر نہ آسکے۔ کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے سچ مولانا مودودی کے لٹریچرکے مطالعہ نے ان کی زندگی بدل دی اوراسی کی یہ کرشمہ سازی تھی کہ آپ 1960ء میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہو گئے اورجلد ہی جامعہ کراچی یونٹ کے صدر اور مرکزی شوری کے رکن بنادیے گئے۔ بعد ازاں 1964 میں آپ اسلامی جمعیت طلباء کے ناظم اعلیٰ بنے اور مسلسل تین ٹرم کے لیے اس عہدے پرکام کرتے رہے۔ ان کی عرصئہ نظامت میں جمعیت نے طلبہ مسائل، نظام تعلیم اور تعلیم نسواں کو درپیش مسائل کے سلسلے میں رائے عامہ کو بیدار کرنے کی خاطر کئی مہمات چلائیں۔ا نہوں نے 1963ء میں کراچی یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں ایم اے کیا۔ پھر1966ء میں یہیں سے اسلامیات میں ایم اے کیا۔ زمانہ طالب علمی میں ہی منور حسن اپنی برجستگی اور شستہ تقریر میں معروف ہو گئے۔ کالج میگزین کے ایڈیٹر بھی رہے۔ علاوہ ازیں بیڈ منٹن کے ایک اچھے کھلاڑی بھی رہے۔ سید منور حسن 2009ء میں پانچ برس کے لیے جماعت کے نئے امیر منتخب ہوئے۔ پورے پاکستان کے 23 ہزار سے زائد ارکان جماعت اسلامی نے نئے امیر کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالے۔ امیر کے انتخاب کے لیے سید منور حسن ، لیاقت بلوچ اور سراج الحق کے درمیان مقابلہ ہوا جبکہ جماعت کے سبکدوش ہونے والے امیر قاضی حسین نے اس انتخاب میں حصہ لینے سے معذرت کر لی تھی۔ ان سے پہلے بانی جماعت اسلامی علامہ سید ابو الاعلی مودودی، میاں محمد طفیل اور قاضی حسین احمد امیر جماعت اسلامی رہ چکے تھے ۔ جماعت کے بانی مولانا مودودی تھے جو 1972ء تک امیر کے عہدے پر فائز رہے اور ان کے بعد ان کی جگہ میاں طفیل کو جماعت کا نیا امیر چن لیا گیا تھا جو 1987ء تک امیر جماعت اسلامی رہے۔ میاں طفیل کے بعد 1987ء میںیہ عہدہ قاضی حسین احمد کے پاس آیااور2009ء تک وہ اس عہدے پرفائزتھے۔ سید منورحسن نے مشکل حالات میں امارت کی ذمے داریاں سنبھالی تھیں۔ ان کے لیے یہ مشکل بھی تھی کہ قاضی حسین احمد جیسے سیاسی طور پر انتہائی متحرک، سیاسی قیادتوں میں مقبول اور عوامی سطح پر ہردلعزیز امیر کے بعد انہیں امارت سنبھالنا پڑی، جس کے لیے انہوں نے ابتدائی طور پر معذرت بھی کی لیکن شوری نے ان کی معذرت قبول نہ کی۔ دینی جماعتوں میں اطاعتِ امیر سیاسی ضرورت نہیں بلکہ یہ دینی اورایمانی تقاضا ہوتاہے۔ یہاں امیر کی اطاعت بھی زیادہ اخلاص سے کی جاتی ہے اور اس کا احتساب بھی بہت کڑے انداز میں ہوتا ہے۔ یہاں نہ اطاعت کے پیچھے کوئی لالچ یا منفعت ہوتی ہے اور نہ احتساب اور تنقید کے پیچھے سیاسی مقاصد شاید یہی کڑا نظام ہے بایں ہمہ جماعت اسلامی پاکستان اس اصول پرآج تک قائم رہی جس کی برکات سے جماعت اسلامی اندرونی طور پر کبھی توڑ پھوڑ کا شکار نہیں ہوئی اور باہر یہ تاثر موجود رہا کہ جماعت اسلامی انتہائی منظم جماعت ہے۔ عوامی سطح پر اس کی پذیرائی کے بارے میں ہمیشہ سوالات اٹھتے رہے لیکن اس کے نظم و ضبط، اخلاص و قربانی کے دوست دشمن سب قائل رہے۔ وہ جماعت اسلامی جیسی ملک کی ایک بڑی مذہبی جماعت کے راہنما رہے، یہاں تک کہ اس کے مرکزی امیر بھی بنے لیکن زندگی کا ایک بڑا حصہ دو چھوٹے کمروں پر مشتمل کرائے ایک مکان میں گزار دیا۔بقول صحافی فاروق عادل کے کہ منصورہ میں جماعت اسلامی کے امیر کے لیے ایک فلیٹ مخصوص ہے جس میں میاں طفیل محمد نے بھی قیام کیا اور ان کے جانشین قاضی حسین احمد نے بھی لیکن منور حسن نے اپنا یہ حق خود اپنی مرضی سے چھوڑ دیا۔جتنا عرصہ بھی وہ جماعت کے امیر رہے انھوں نے منصورہ کے مہمان خانے کے ایک کمرے میں گزارا کیا۔ اس کمرے کو رسی سے دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا تھا جس پر چادر ڈال کر پردے کا اہتمام کر لیا گیا۔ کراچی سے ان کی بیگم آتیں تو اسی پردے کے پیچھے رہائش اختیار کرتیں اور پردے کے دوسری طرف اگر کوئی قریبی ملنے والا آجاتا تو اسے بٹھایا جاتا۔جماعت اسلامی ایک عام شہری کے کم سے کم اخراجات کا اندازہ کرکے اپنے کل وقتی کارکنوں کو گزارے کے لیے کچھ رقم پیش کرتی ہے۔ ساری زندگی انھوں نے وظیفے کی اسی رقم کے سہارے گزاری۔ اخراجات کو کبھی اس سے بڑھنے نہیں دیا۔