31۔جنوری بھی گزر گیا‘ عمران خان نے استعفیٰ دیا نہ حکومت میں کمزوری اور اندرونی انتشار کے آثار نظر آئے۔ پی ڈی ایم البتہ داخلی خلفشار کا شکار ہے۔ مریم نواز شریف‘ مولانا فضل الرحمن اور بلاول بھٹو کے بارے میں جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ وہ ایک ہی صفحے پر ہیں وہ بے خبر ہے یا عارضۂ نسیاں کا شکار۔ استعداد سے زیادہ و بڑے ہدف کا تعین اور تعاقب بالعموم انسان کو شرمندگی سے دوچار کرتا ہے مگر پی ڈی ایم کی تجربہ کار‘ حکمرانی کے اسرار و رموز سے آشنا قیادت کو یہ بات کیوں سمجھ نہ آئی‘ اپنی استعداد کار اور مدمقابل کی قوت و صلاحیت کا درست اندازہ کیوں نہ لگا سکی؟ کرپشن اور طویل مگر بُری طرز حکمرانی کے الزامات کے بوجھ تلے دبی اپوزیشن خوش فہمی کا شکار تھی یا وہ کسی جال میں پھنسی؟ یہ طے ہونا ابھی باقی ہے ۔بجا کہ عمران خان اڑھائی سال میں کوئی معرکہ نہیں مار سکے‘ وزیر اعظم کی ناقص ٹیم نے اپنے مداحوں اور خیر خواہوں کو مایوس کیا اور مہنگائی و بدامنی سے عوام پریشان ہیں مگر یہ مایوسی اور پریشانی اپوزیشن کے لئے زادراہ کا کام دے سکتی ہے ؟مسلم لیگ (ن) ‘پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام گزشتہ پینتیس سال سے کسی نہ کسی انداز میں جن کے ہاتھ میں قومی وسائل اور ملکی اختیار و اقتدار کی باگ ڈور رہی وہ عوام اور اقتدار کی منتقلی میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی قوتوں کو قائل کر سکتی ہیں کہ وہ عمران خان کو چلتا کریں اور انہیں چوتھی یا پانچویں باری دیں؟ یہ وہ سوال ہے جس پر گہرے غور و فکر کے بغیر پی ڈی ایم کی قیادت نے عمران خان سے استعفے کا مطالبہ کیا اور ڈیڈ لائن مقرر کر دی۔ چند سال قبل فواد چودھری نے جنرل پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ کو خیر باد کہہ کر پیپلز پارٹی جوائن کی تو میں نے استعفے کا سبب معلوم کیا‘ بولے ’’جب پرویز مشرف نے وسیع تر مشاورت اور ملکی حالات کا درست اندازہ لگائے بغیر وطن واپسی کی تاریخ دی تو یہ فیصلہ میرے لئے ناقابل قبول تھا‘ میں نے جنرل صاحب سے کہا‘ کیا مقررہ تاریخ کو آپ واقعی وطن واپسی کا ارادہ رکھتے ہیں؟میرا استدلال یہ تھا کہ دوران اقتدار آپ نے ایم ایم اے سے 31دسمبر 2004ء تک وردی اتارنے کا تحریری وعدہ کیا جس کے ایفا کی نوبت نہ آئی۔ آپ ایک وعدہ شکن شخص کے طور پر سامنے آئے‘ اب آپ نے قوم اور اپنے کارکنوں کو وطن واپسی کی تاریخ دی ہے جو ایک دن آ جائے گی پھر آپ کیا کریں گے؟ نہیں آئے تو عوام اور کارکنوں کے سامنے شرمندہ ہم ہوں گے‘‘۔ اپوزیشن نے وزیر اعظم کو 31جنوری مستعفی ہونے کی ڈیڈ لائن دی جو گزر چکی‘ اب اپوزیشن کے پاس اپنے استعفے جمع کرانے‘ لانگ مارچ اور دھرنا دینے کی آپشن بچی ہے ‘ایک ایسی آزمائش جس پر پی ڈی ایم کی جماعتوں کا پورا اُترنا مشکل ہے۔ پی ڈی ایم کی جماعتیں نعرہ تو ’’ووٹ کی عزت ‘‘اور’’ سول بالادستی ‘‘کا بلند کرتی ہیں مگر حکومت کو گرانے کے لئے مدد کی طلب گار اس اسٹیبلشمنٹ سے ہیں جس کے خلاف میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن نے علم بغاوت بلند کیا اور گوجرانوالہ و کوئٹہ میں دل میں چھپی ساری نفرت اگل دی‘ 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو باری باری یہ کھیل کھیلتے رہے‘ اسٹیبلشمنٹ بھی کبھی بیرونی دبائو پر بلیک میل ہوئی‘ کبھی اپنے مخفی مقاصد کے لئے استعمال اور بسا اوقات اس نے جمہوری دیوتائوں کو ٹشو پیپر کے طور پر برتا اور پھینک دیا‘1988ء سے 2013ء تک کی تاریخ کسی سے مخفی نہیں‘ پہلی بار عسکری قیادت اپنا آئینی کردار یعنی منتخب حکومت کی اطاعت‘ نبھا رہی ہے جس پر اپوزیشن پریشان اور صبح‘ دوپہر شام جمہوریت کی مالا جپنے والے دانشور و تجزیہ کار حیران ہیں‘ ذہنی و علمی بددیانتی کا یہ عالم ہے کہ عسکری اداروں کے اس کردار کی تحسین کرنے کے بجائے تبرّا تولا جا رہا ہے گویا 1988ء ’1990ء ‘ 1993ء ‘ 1997ء اور1999ء میں جو کچھ ہوا درست تھا ۔جنرل راحیل شریف 2014ء میں اگر عمران خان کی بات مان لیتے‘ میاں نواز شریف کو استعفے پر مجبور کرتے تو یہ غلط ہوتا لیکن 2020ء میں یہ درست ہے کیونکہ تب استعفے عمران خان طلب کر رہا تھا اب میاں نواز شریف مولانا فضل الرحمن اور ہمنوا مانگ رہے ہیں۔بریں عقل و دانش ببایدگریست اپوزیشن نے حکومت اور عسکری قیادت کے لئے جو جال بچھایا وہ اب اس کے اپنے گلے کا طوق بن چکا ہے مور اوور کے طور پر عمران خان نے سینٹ میں اوپن بیلٹنگ کا پتہ پھینک دیا ‘ میثاق جمہوریت میں دونوں بڑی جماعتیں اوپن بیلٹنگ کی حمایت کر چکی ہیں‘ حکمران جماعت کے پاس اختیارات و وسائل کی کمی نہیں‘ اگر اپوزیشن اوپن بیلٹنگ بل کی حمایت نہیں کرتی تو خفیہ رائے شماری میں حکمران جماعت کی نشستیں بڑھنے کا اندیشہ ہے جس پر اپوزیشن شور بھی نہیں مچا پائے گی کہ اس نے عمران خان کی تجویز نہیں مانی‘ شفافیت کا موقع گنوا دیا‘ یہ بے چاری اگر آئینی ترمیم کی حمایت کرے تو یہ عمران خان کی اخلاقی جیت ہو گی جو حضرت مولانا کو منظور نہ مریم نواز کو پسند‘ غرض دوگو نہ عذاب است جان مجنوں را‘ بلائے صحبت لیلیٰ و فرقت لیلیٰ۔ بعض دوست اعتراض کرتے ہیں کہ سیاستدانوں کو ماضی کا طعنہ دے کر مطعون کیا جاتا ہے اور جمہوریت کو بدنام‘ دلیل مضبوط ہے مگر پی ڈی ایم کی تین بڑی جماعتوں میں سے کسی ایک کی قیادت کے بارے میں کون دل پر ہاتھ رکھ کر وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ وہ ماضی سے چھٹکارا پانے اور آئندہ راہ راست پر چلنے کا ارادہ رکھتا ہے‘ اپنے ساتھیوں کو جل دینے پر تیار نہیں ؟کیا آج میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو سودے بازی کا موقع ملے تو وہ آصف علی زرداری کی سیاست اور مولانا کی دستار فضیلت بیچنے میں ایک لمحے کی تاخیر کریں گے؟ کیا محمد زبیر درپردہ ملاقاتوں میں میثاق جمہوریت پر دستخط کرانے کے لئے کوشاں تھے یا شریف خاندان کے لئے مراعات کے طلبگار؟ آصف علی زرداری اور مولانا کیا ایسا ہی کوئی موقع ضائع کریں گے؟ جواب نفی میں ہے تو پھر حقیقت سے آنکھیں چرانے اور بار بار کے آزمائے ہوئوں کو آزمانے کا فائدہ ؎ کون ہے جس نے مے نہیں چکھی کون جھوٹی قسم اٹھاتا ہے میکدے سے جو بچ نکلتا ہے تیری آنکھوں میں ڈوب جاتا ہے آج کل میاں صاحب‘ مریم نواز اور مولانا کی تقریروں میں وہ تلخی اور ترشی عنقا کیوں ہے جو گوجرانوالہ اور کوئٹہ کے جلسوں کا طرہ امتیاز تھی اور تینوں اپنے برخوردار بلاول بھٹو کے مفاہمتی بیانیے کی خاموش تائید پر کیوں مجبور ہیں؟ یہ سو ملین ڈالر کا سوال ہے مگر ایسے سوالات سے بی جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے لہٰذا چپ ہی بھلی ع مجبور ہیں اف اللہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے!