مجرم کو پروٹوکول دینے کے سلسلے کا آغاز ابلیس سے ہوتا ہے، شیطانِ مردود کے لیے اختیارات کا یہ پروٹوکول اللہ تعالیٰ کی جانب سے تھا، لیکن اس پروٹوکول کے اندر ایک تنبیہ، ایک آزمائش، ایک کشمکش بھی پوشیدہ تھی کہ جو بھی اس رجیم کے بہکاوے میں آکے اس کے راستے پہ چلے گا ، اسے جہنم کا ایندھن بنا دیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے تک جب شرافت و عدالت کا احترام اور خدا کا تھوڑا بہت خوف لوگوں کے دلوں میں باقی تھا، شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں مجرم کے لیے ایک ہی پروٹوکول رائج تھا کہ اس کا سر مونڈ کے منھ کالا کیا جاتا، ہاتھ پُشت پہ باندھے جاتے، گلے میں جوتوں کا ہار پہنا کے، کسی مریل سے گدھے پہ منھ پُشت کی طرف کر کے بٹھایا جاتا، مبادا گدھا ہی اسے دیکھ کے اس قبیح مشقت سے انکار کر دے!! پھر اسی حالت میں مجرم کو گلی گلی گھما کے لوگوں کو دکھایا جاتا کہ یہ ہے وہ بد بخت، جس نے سماج کے طے شدہ اخلاقی، قانونی اور معاشرتی اصول و ضوابط کی خلاف ورزی کی جرأت کی ہے۔ اس سزا کے بعد مجرم یا تو خود ہی علاقہ بدر ہو کے پوری زندگی کسی اجنبی جگہ پہ گزار دیتا، یا اپنے ہی لوگوں کے بیچ منھ چھپا کے، گردن جھکا کے، شرمندگی کے واضح احساس کے ساتھ گزر بسر کرتا رہتا۔ ایسی معاشرتی سزا کے بعد اس شخص کے قریبی اعزہ اور دوست بھی عمر بھر اس سے سیدھے منھ بات نہ کرتے، معروف شاعر قتیل شفائی نے اس کیفیت کو کتنے عمدہ انداز میں بیان کیا ہے: ؎ وہ مِرا دوست ہے ، سارے جہاں کو ہے معلوم دغا کرے وہ کسی سے اور شرم آئے مجھے زندگی انھی سنہری ضوابط کے تحت رواں دواں تھی کہ پھر سیاست دان آ گئے۔ انھوں نے جرم کو ایسے ایسے انوکھے نام دیے ، گندی بوتلوں کے اوپر ایسے ایسے رنگین لیبل لگائے، ہر بری حرکت کو اتنا گلوری فائی کیا کہ رفتہ رفتہ لوگوں میں احساسِ جرم کا تناسب کم ہوتے ہوتے معدوم کی سطح تک پہنچ گیا۔ اپنی پیٹھ پہ سواری کرا کے عبرت دلانے والا گدھا قصائیوں کے ہاتھ بیچ ڈالا گیا۔ اندھی، کانی، لُولی، لنگڑی جمہوریت کے نام پر لوٹ مار کے ایسے ایسے طریقے ایجاد کیے کہ انسانیت بھی شرمندہ ہو گئی۔ بے وقوف، جاہل، بھوکے، عقل سے عاری اور بھلکڑ عوام کو کہیں روٹی، کپڑا، مکان اور کہیں قیمے والے نان کا جھانسہ دے کے ، پورے قومی خزانے کو حلوائی کی دکان سمجھ کے نانا، نانی، دادا، دادی کے فاتحہ میں جھونک ڈالا، اگر کسی نے اس سنگین بد دیانتی کا احساس دلانے کی کوشش کی تو اپنی روایتی چالاکی سے کام لیتے ہوئے سیاسی انتقام کا رَولا ڈال دیا۔ شاعرِ مشرق کا پیرِ رومی کی معیت میں مختلف آسمانوں کی سیر کرتے کرتے جب دوسرے آسمان پہ ابلیس سے آمنا سامنا ہوا تو وہ ابلیس کے بکھرے بال، مندا حال اور بانکے دیہاڑے دیکھ کے حیران رہ گئے۔ پوچھنے پر ابلیس نے بتایا کہ اب زمین پر میری ضرورت ختم ہو گئی ہے، میرا ہر کام حضرتِ انسان نے مجھ سے بہتر انداز میں سنبھال لیا ہے۔ اس ابلیسی سلسلے کی تازہ ترین مثال خاندانِ شریفیہ کی اس بی بی کی نَیب میں پیشی کی ہے، جس نے اپنے زمانۂ طالب علمی، پسند کی شادی اور بیرونی فنڈ ہڑپ کرنے سے لے کے ’’میری لندن تو کیا، پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں‘‘ تک جھوٹ، فریب، عیاری، مکاری، دھونس، دھاندلی کے سارے ریکارڈ قائم کیے ہوئے ہیں۔ ابھی تو مسئلہ چار سو چالیس کنالوں کا تھا، بات تو سیدھی سی تھی کہ آپ نیب کو جا کے بتا دو کہ ’’میری لندن تو کیا، پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں‘‘ لیکن وہ تیز طرار بی بی جانتی ہے کہ بات اتنی سیدھی نہیں ، یہ مسئلہ چار سو چالیس سے شروع ہو کے چار سو بیسی کی طرف جائے گا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ قانون کی اس اینٹ کا جواب غیر قانونی پتھروں، فائرنگ اور غنڈہ گردی سے دیا جائے۔ عدالتوں پہ حملے کرنے کی خاندانی رِیت کو نئے سرے سے زندہ کیا جائے۔ ججوں کو بہلانے، پھسلانے کے ساتھ ساتھ ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ ماند نہ پڑنے دیا جائے۔ اپنی پھولن دیوی والا طنطنہ قائم رکھا جائے۔ اوپر سے ان کے سیاسی مزارعین، اخلاقی یتیم اور لوٹ مار کے بھائی وال طرح طرح کی کہانیاں گھڑنے میں مصروف ہیں، جن کا لُبِ لباب کھینچ تان کے یہ بنتا ہے کہ حکومت نے مریم پہ حملہ کرا کے اسے عدالت میں پیش ہونے سے اس وجہ سے روکا ہے کہ کہیں وہ نیب میں جا کے لوٹ مار کا سارا پیسہ یک مُشت جمع کروا کے سرخ رو نہ ہو جائے!! اس پر مجھے یونیورسٹی کے زمانے کا وہ دوست یاد آ گیا، جسے ہم نے ایک بار کسی سخت بات پہ کہہ دیا کہ ’’یار بدتمیزی کی بھی حد ہوتی ہے‘‘ وہ فوراً پلٹ کے بولا: تم بکواس کرتے ہو، حد تمیز، غیرت،اصول اور معقولیت کی ہوتی ہے، بدتمیزی، بے غیرتی، بے اصولی اور حرام زدگی کی کوئی حد نہیں ہوتی!!! دوسری جانب ’’ نَیب کی کیا مجال‘‘ والے لوٹ مار اور ثبوت مٹانے کے بے تاج بادشاہ کی ڈراما سیریل بھی جاری ہے، جو قانون کو ہر طرح کا جُل دینے میں ماہر ہیں۔ جب کوئی بس نہ چلے تو اپنے موجودہ حلیفوں کا ایجاد کیا ہوا بیماری کا پتہ کھیلنے لگتے ہیں۔ پھر یہ بھی اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اس ملک میں ہر مجرم عدالت میں پیش ہوتے ہوئے یوں وکٹری کا نشان بنائے گا، جیسے ابا جی کا منعقد کردہ ورلڈ کپ جیت کے آ رہا ہے۔ کسی نے کیا سچ بات کہی ہے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے کہ جس کا نمک بھی اپنا ہے اور نمک حرام بھی اپنے !! کوئی ان سے پوچھے کہ بھائی تم لوگ اتنے بیمار، لاچار، موت سے دوچار ہوتو لوٹ مار کا پیسہ، جو موت کے بعد تمھارے گلے کی ہڈی بن جائے گا، قومی خزانے میں جمع کرا کے دونوں جہان میں خلاصی کا بندوبست کیوں نہیں کر لیتے؟ لیکن کسی نے سچ کہا ہے کہ ایسے لوگوں سے اللہ توبہ اور معافی کی توفیق چھین لیتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں ہمارا خیال تو یہ ہے کہ وطنِ عزیز میں ایک ایسا سخت قسم کا قانون وضع کیا جانا چاہیے کہ جس کے تحت کسی بھی قومی، اخلاقی، بد معاملگی یا لوٹ مار کے مجرم کو کسی بھی عدالت میں ایک بندہ ساتھ لانے کی اجازت بھی نہ ہو۔ قانون کی راہ میں حائل ہونے والی ہر بلا کو برابر کا مجرم گردانا جائے۔ ہمارے خیال میں عدالتی نظام کی سستی کے ساتھ ساتھ عدل و سزا کے راستے میں حائل ہونے والی ایک چیز میڈیا بھی ہے، جو قومی خزانے کے ان سانپوں کو قدم قدم ہیرو بنانے میں لگا رہتا ہے۔ ملزموں اور مجرموں کی میڈیا کوریج پہ مکمل پابندی ہونی چاہیے۔ چہرے پہ شرمندگی تو خیر ضمیر یا غیرت سے آتی ہے، لیکن احساسِ تنہائی تو جبری طور پر بھی پیدا کیا جا سکتا ہے!!! ٭٭٭٭٭