شاعر مشرق علامہ اقبال کے جس مضحکہ خیز مجسمے نے سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ بپا کیا اسے بالآخر ہٹا دیا گیا ہے۔ پارک کے جس پھولوں بھرے قطعے میں یہ دیو ہیکل مجسمہ بنایا گیا تھا۔ وہاں پی ایچ نے پارک کے چند مالیوں کی ڈیوٹی لگا رکھی ہے کہ ہر سوال کرنے والے کو اس پیرائے میں جواب دینا ہے۔آج صبح واک کرتے ہوئے اس قطعے کی جانب گئے تو دیکھا وہاں کچھ مالی موجود ہیں‘ ایک کے ہاتھ میں گھاس سے خشک پتے صاف کرنے والا لمبا سا جھاڑو ہے۔ دو تین مالی پھولوں کی کیاری کی سیوامیں مصروف ہیں جبکہ ایک قدرے زیادہ شاطر‘ مالی جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے بظاہر ان کی نگرانی پر مامور لگتا تھا۔ وہ مجسمہ کدھر گیا علامہ اقبال کا؟ ہمارے اس سوال پر جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے کھڑا ہوا شخص فوراً بولا‘ پتہ نہیں میڈیا کو کیا مسئلہ ہوا تھا کہ خواہمخواہ کا شور مچا کر مجسمے کے خلاف خبریں لگانا شروع کر دیں۔ دس مہینے ہو گئے تھے تب تو کسی کو نظر نہیں آیا ویسے بھی ابھی ہم اس پر کام کر رہے تھے۔ ابھی تو اس کی فینل(فائنل) ٹچنگ ہونی تھیکہ میڈیا پیچھے پڑ گیا اور کچھ نظر نہیں آتا ان کو‘ میڈیا کی اس ساری کارگزاری اور مجسمے کو ہٹانے کے حوالے سے وہ خاصا خفا دکھائی دیا۔ یہ مجسمہ کس نے بنایا تھا۔ میں نے سوال کیا تو‘ لمبے جھاڑو سے خشک پتے گھاس سے نکالتے ہوئے وہ پتلا اور لمبا مالی بڑے دلگیر لہجے میں بولا’’ہم نے خود بنایا تھا جی اپنے ہاتھوں سے‘‘اچھا تمہیں کیسے پتہ تھا علامہ اقبال بھی کوئی شخصیت ہیں؟کیوں نہیں پتہ جی ہمیں۔ ہمارے شاعر مشرق ہیں پاکستان کا خواب دیکھا تھا اس نے اور بنانے میں کیا مشکل تھی۔ہم نے سامنے تصویر رکھ کر بنایا تھا۔میں نے یہ عقیدت بھرا جواب سن کر ہنسی بمشکل ضبط کی۔ تو پھر ہٹایا کیوں۔ میرے میاں صاحب نے سوال کر دیا۔ کہتے تھے کہ اقبال کی شکل صحیح نہیں بنائی۔ تصویر سے ملا لیں بے شک ایسی ہی تھی۔ بس ابھی تو فینل(فائنل ) ٹچنگ رہتی تھی۔تو تمہیں اتنی عقیدت تھی اقبال سے کہ مجسمہ بنا کر لگا دیں۔ یہ خیال کیسے آیا۔؟ بس ہم نے سوچا کہ پارک کا نام گلشن اقبال ہے تو پھر ان کا مجسمہ بھی یہاں لگانا چاہیے۔ہم نے تو جی سارا خرچہ مالیوں نے مل کر اپنی جیب سے کیا ہے؟‘‘وہ بظاہر انچارج نما مالی بولا۔‘‘ اتنا بڑا مائونٹ ایورسٹ جتنا مجسمہ اپنی جیب سے کیسے بنا لیا؟اس سوال کے جواب میں ایک مالی بولا وہ دیکھیں سامنے کی دیواریں نئی بنیں تو پرانی اینٹیں ہم نے ساری جمع کر لیں۔ اس سے بنایا ہے؟ ایک دفعہ پھر ہنسی ضبط کرنا پڑی۔مجھے اس معصومانہ گفتگو میں مزا آ رہا تھا۔ سو ایک اور سوال کر دیا۔بھئی اتنی اینٹوں سے مجسمے تو نہیں بنتے اور پھر اینٹیں ہی تھوڑی استعمال ہوئی ہیں۔ باقی کا سامان کہاں سے آیا۔؟جب ہم مجسمہ بنا رہے تھے تو آپ جیسے لوگ بہت خوش ہوتے تھے کہ اقبال کا مجسمہ بن رہا ہے۔ تو خوش ہو کر کسی نے دو بوری سیمنٹ کی دے دی کسی نے سریا دے دیا کسی نے کچھ مدد کر دی بس جی اسی طرح تیار ہو گیا۔‘‘ پھر ان میں سے ایک میرے زیادہ سوال کرنے پر بولا کہ آپ کا ضرور یوٹیوب پر ویڈیو چینل ہے۔ اس لئے آپ انٹرویو کر رہی ہیں۔ ابھی ہم جواب دینے ہی والے تھے کہ جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ انچارج نما مالی بولا‘ میرا تو خود یوٹیوب پر چینل ہے۔گارڈننگ ود فلاں فلاں۔ ساری دنیا مجھے جانتی ہے۔‘‘بھائی بات تو آپ کی درست ہے اقبال کے مجسمے آپ بنا لیتے ہیں۔ یو ٹیوب پر چینل چلاتے ہیں۔ تخلیقی صلاحیتیں تو آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔ مالیوں کی میڈیا بریفنگ سے لطف اندوز ہو کر ہم کچھ دیر واک کرتے رہے اور یاد کرتے رہے کہ مارچ 2020ء کے لاک ڈائون سے پہلے جب یہ شاہکار تعمیر کیا جا رہا تھا تو ہم نے اسے لمحہ لمحہ بنتے‘ بگڑتے ٹوٹتے اور پھر بنتے دیکھا ہے۔ اینٹوں سے بھری ہوئی ٹرالیاں کھڑی ہوتیں تھیں باقاعدہ مجسمہ بنانے کے لئے ایک ٹیم ہائر کی گئی تھی۔ جن کے کام سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا معیار کیا تھا۔ لیکن اس خفت کو جس انداز سے پارک انتظامیہ اور پی ایچ اے نے بے چارے مالیوں کے سر منڈھا ہے اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات اور نہیں ہو سکتی۔ اس سے بھونڈا مذاق نہیں ہو سکتا۔جن مالیوں کو وقت پر تخواہ نہ ملتی ہو وہ اپنی جیب سے اقبال کا مجسمہ بنائیں گے۔؟اپنے آپ کو بچانے کے لئے جن افسران بالا نے یہ بھونڈی کہانی گھڑی ہے انہیں عوام کے سامنے لائیں۔ قومی خزانے کا لاکھوں روپیہ بے ہیئت مجسمے کو بنانے اور پھر گرانے پر لگا۔ اس ایک واقعے سے اندازہ لگائیں کہ کار سرکار کس انداز میں چلائے جا رہے ہیں۔ اقبال کے اس بدہئیت مجسمے نے کچھ روز سوشل میڈیا پر طوفان بپا کئے رکھا۔ ہر خاص و عام کی توجہ اس جانب مبذول رہی۔ ڈاکٹر معین نظامی نے ایک مضمون فیس بک پوسٹ کی طرح لکھا او کیا کمال لکھا۔ اس میں انہوں نے لکھا کہ کاش کوئی قادر الکلام شاعر ان تاثرات کو نظم کر سکے جو اقبال کی مفطرب روح اور فنون لطیفہ کے شائقین پر گزر رہے ہوں۔ اس خواہش نما دعا کا جواب امریکہ میں مقیم قادراکلام شاعر خالد عرفان نے دیا ہے ہر پہلو سے تاثرات کو کمال انداز میں نظم کیا ہے۔چند شعر دیکھیے: مجسمہ ہے بِنا زیب اچکن و جامہ تڑپ تڑپ اٹھے باغ ارم میں علامہ وہ کہہ رہے ہیں لاہور بلدیہ والو تم اپنا ذوقِ فنون و ادب بدل ڈالو کیا ہے نقش نگاری کو بدنما تم نے بنا دیا ہے مرے شا ہیں کو ہما تم نے اگر یہ پارۂ فن ہے تو آذری کیا ہے ’’مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے‘‘ ؟اصل المیہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ہنگامہ بپا کرتی قوم کے احساس زیاں کی اڑان محض مجسمہ اقبال کے بے صورت ہونے تک محدود ہے۔ چلتے چلتے ایک آخری بات‘ صبح کی سیر کے بعد پارک سے نکل رہے تو ایک عمر رسیدہ خاکروب صفائی میں مصروف تھے۔ ایسے ان سے بھی یہ سوال کر دیا کہ ’’او اقبال دا مجسمہ کتھے گیا اے؟ بابا جی صفائی کرتے کرتے بے نیازی سے بولے۔’’افسراں بنایا سی افسراں ای ڈھا چھڈیا اے‘‘