افسوس کہ مجلس عمل نے وہ منصفانہ مشورہ قبول نہیں کیا جو دو روز پہلے اسی کالم میں دیا گیا تھا۔ یہ کہ جس طرح تحریک انصاف نے 17ہزار کرسیاں لگا کر دعویٰ چالیس ہزار کرسیاں لگانے کا کیا، آپ بھی 34ہزار کرسیاں لگائیں اور دعویٰ 80ہزار کا کریں۔ لیکن مجلس عمل نے چالیس ہزار کرسیاں لگائیں اور دعویٰ بھی چالیس ہزار کا کیا۔ جلسہ بہت بڑا تھا اور تاریخی بھی لیکن اسے دس روز پہلے ہونے والے تحریک انصاف کے جلسے سے بڑا قرار دینے کی جسارت نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ جرأت مہنگی پڑے گی کیونکہ نوجوان پائوں دھو کر پیچھے پڑ جائیں گے اور کہیں کا نہیں چھوڑیں گے۔ جلسہ بہت بڑا تھا لیکن پنجاب کے انتخابی معرکے میں کتنا نتیجہ خیز ہو گا؟ کچھ کہنا مشکل ہے۔ پنجاب میں قابل ذکر کامیابی حاصل کرنے کے لیے مجلس عمل کو مدمقابل پارٹیوں میں سے ایک کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنا پڑے گی۔ تحریک انصاف اس سے ہاتھ نہیں ملائے گی کہ اس کی ہتھ جوڑی اندر ہی اندر پیپلزپارٹی سے ہو چکی ہے۔ مسلم لیگ(ن) سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی ہے لیکن ایسا کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ مجلس عمل نے 2002ء میں زبردست کامیابی حاصل کی تھی اور صوبہ سرحد میں حکومت بنا لی تھی۔ اب اس صوبے کا نام پختونخواہ ہو چکا ہے۔ تب اس نے اسلام کا نعرہ لگایا تھا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا یہ اتحاد دین کو تقویت دے گا اور اس نے تقویت دی۔ یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ اس سے مراد پرویز مشرف کی ذات ہے جس نے خوب تقویت پکڑی۔ قاضی حسین احمد(مرحوم) نے فرمایا، ہم قبلہ کی نگہبانی کریں گے۔ قبلہ سے مراد قبلہ و کعبہ پرویز مشرف تھے۔ بہر حال، اس وقت مجلس عمل آج کے مقابلے میں زیادہ بڑی تھی۔ جے یو پی مولانا نورانی(مرحوم) کی زیر قیادت متحد تھی، اب نہیں ہے۔ مولانا اویس نورانی کا دھڑا مجلس عمل کے ساتھ ہے۔ مولانا ابوالخیر والا دھڑا کہیں اور نکل گیا ہے۔ تب شیعہ کی اکثریت ساجد نقوی کے ساتھ تھی اور مجلس عمل میں شامل تھے۔ ساجد نقوی اب بھی مجلس عمل کے ساتھ ہیں لیکن شیعہ کی اکثریت ان کے ساتھ نہیں، اس دھڑے کے ساتھ ہے جو اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی کا اتحادی ہے۔ تب مجلس عمل پختونخواہ میں اہل مذہب کی متفقہ جماعت تھی۔ اب ایک الگ اتحاد میدان میں ہے اور مدمقابل بھی۔ دیکھیے کیا ہو۔ مبصرین کا اندازہ ہے کہ مجلس عمل پختونخوا میں اکثریت تو نہیں لے سکے گی لیکن شاید سب سے بڑی جماعت بن جائے۔ یعنی اگر یہ حکومت بنانا چاہے گی تو کسی اور کو ساتھ ملانا ہو گا۔ بلوچستان میں سنجرانی ماڈل کے باوجود یہ پہلے جیسی کامیابی حاصل کر سکتی ہے، یہ بھی مبصرین کا کہنا ہے۔ بہ مبصرین پنجاب اور کراچی میں اس کا کوئی خاص مقام نہیں دیکھ رہے، البتہ شمالی سندھ میں چند نشستوں کا امکان ضرور دیکھ رہے ہیں اور ہاں جلسے میں لاہور کے لوگ بھی تھے۔ ٭٭٭٭ ایران نے یورپی یونین کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے جوہری معاہدے کی پاسداری جاری نہ رکھی تو وہ اپنا ایٹمی پروگرام بحال کر دے گا۔ یہ انتباہ پاسداران انقلاب کے سربراہ محمد علی جعفری نے جاری کیا۔ انتباہ کے الفاظ زور دار ہیں لیکن معنے مطلب کچھ نہیں۔ یورپی برادری جوہری معاہدے کی حامی ہے اور حامی رہے گی لیکن اس کے حامی رہنے یا نہ رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پابندیوں کے حوالے سے سارا لیور امریکہ کے پاس ہے اور اس ہفتے سے پابندیاں شروع ہو رہی ہیں۔ کچھ کا سلسلہ جاری رہے گا اور ان کی تکمیل میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں لیکن ایرانی معیشت کی مزید ’’کرمبلنگ‘‘ کا عمل پہلے ہی شروع ہو چکا ہے اور یورپی یونین فرض کیجئے، پاسداری نہیں کرتی تب بھی کیا ہو گا؟ ایران کے لیے اپنا ایٹمی پروگرام اسلحی سطح پر بحال کرنا اب ممکن نہیں رہا۔ یہ امید مت رکھیے کہ روس اور چین مدد کریں گے۔ ایسا اب ممکن نہیں اور چین اور روس امریکہ سے ایسا ’’تصادم‘‘ کبھی نہیں کریں گے جس سے ان کی معیشت کو مسئلہ ہو۔ روس معاشی لحاظ سے پہلے ہی نیچے جا رہا ہے، مزید گراوٹ کا متحمل نہیں ہو سکتا اور چین اپنی تیز رفتار معاشی ٹرین کی رفتار مزید بڑھانے کا طے کر چکا ہے۔ شام میں ایرانی مفادات پر اسرائیل نے حملے کیے، روس کا ردعمل بات سلجھانے کے لیے کافی ہے۔ روس کا میزائل شیلڈ شام میں نصب ہے، وہ حرکت میں آ سکتا تھا، نہیں آیا۔ 28 طیارے لبنانی فضا کو عبور کر کے آئے۔(لبنانی حدود کو استعمال کرنا بھی ایک پیغام تھا) اور 39ایرانی اہداف کو تباہ کر دیا۔ یہ عمل دو گھنٹے تک جاری رہا۔ روس کے نوٹس میں سب کچھ تھا۔ اسرائیل نے سب سے پہلے اسی کو اعتماد میں لیا تھا اور اس سے بھی آگے یہ ہوا کہ وزیر اعظم نیتن یاہو ماسکو جا پہنچے اور پیوٹن سے ملاقات میں روسی صدر کو قائل کر دیا کہ وہ شام کو میزائل ڈیفنس کا وہ نظام فراہم نہ کرے جس کا وہ پہلے اعلان کر چکا ہے۔ ایران کو اب اپنی معاشی اور سیاسی جنگ اکیلے لڑنا ہو گی۔ ابھی دیکھنا یہ بھی ہے کہ چاہ بہار پر بھارتی سرمایہ کاری جاری رہے گی یا نہیں۔ امریکہ نے چشم پوشی کی(اس کا امکان بہر حال ہے) تو جاری رہے گی ورنہ نہیں۔ بھارت افغانستان اور ایران کو ریل لنک سے ملانا چاہتا ہے۔ اس منصوبے کا انجام بھی ابھی دیکھنا ہے۔ فی الحال ایران کو روس کی ’’چشم پوشی‘‘ کی داد دینی چاہیے۔ ٭٭٭٭ روزنامہ 92نیوز کی ملتان سے اشاعت اہل جنوبی پنجاب کو مبارک ہو۔ اخبار انتظامیہ کو بھی مبارک کہ قومی حلقہ اشاعت یوں مکمل ہو گیا۔ ملتان کو نقشہ میں دیکھیں تو یہ لانگی چیوڈ میں پاکستان کے عین وسط میں ہے یعنی اسے ملک کا مرکزی شہر کہنا چاہیے۔ طویل عرصے تک یہ شہر بین الاقوامی شاہراہ پر رہا۔ ایران سے آنے والے تجارتی اور جنگی قافلے بلوچستان سے ہو کر ملتان کا رخ کرتے اور وہاں سے ہندوستان کو بڑھتے۔ کچھ راجستھان کے راستے، کچھ شمال کو لاہور کے راستے اور جو قافلے افغانستان کے جنوب سے آتے، وہ بھی پہلے ملتان آتے، پھر ہندوستان کی طرف بڑھتے۔ اب ایک طویل مدت کے بعد یہ شہر پھر بین الاقوامی شاہراہ کا مرکز بننے والا ہے۔ موٹروے نے اسے ایک طرف سکھر کے راستے کراچی سے ملا دینا ہے جس کے بعد اس کا کراچی سے سفری فاصلہ کم ہو جائے گا۔ دوسری طرف ایک موٹروے لاہور سے آ رہی ہے۔ تیسری فیصل آباد سے اور چوتھی بلوچستان سے۔ فی الحال تو حالات کی مجبوری کی وجہ سے پاکستان کے رابطے افغانستان اور ایران سے اتنے زیادہ کھلے ہوئے نہیں ہیں لیکن جب بھی حالات ٹھیک ہوئے تو ملتان ایک بار پھر ان دونوں ملکوں سے آنے والے تجارتی اور سیاحتی قافلوں کا ’’جنکشن‘‘ بن جائے گا اور اگر جنوبی پنجاب کا صوبہ بن جاتا ہے تو اس کی اہمیت دوچند سے بھی زیادہ ہو جائے گی۔ ملتان کی عظمت رفتہ کی شکل نو میں بحالی اب زیادہ دور کی بات نہیں لگتی۔