درد‘ دیوانگی ‘ کم علمی‘ جہالت‘ ان چار عناصر میں کیسے فرق کریں کہ خبر ہو جائے کہ مریض ہے یا ہٹ دھرم‘ خیر ہٹ دھرمی بھی تو ایک مرض بذذوقی کا دوسرا نام ہے۔ ایک کہاوت ادب میں معاشرت کو سنوارتی اور بیدار کرتی آئی ہے کہ راج ہٹ‘ بال ہٹ اور تریاہٹ بری ہوتی ہیں کہ اگرراجہ کو ضد ہو جائے تو وہ بستیاں اجاڑنے کو دل کا چین سمجھتا ہے اور اگر بچے ضد پر اتر آئے تو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر میا بابا کو جھکا لیتا ہے پھر عورت اپنی ضد کو پالے تو پورا گھر کا نظام تلپٹ ہوا کرتا ہے۔ لیکن اب ایک ضد اور ہے جو ان سب سے جدا ہے اور اضدادکا مجموعہ ہے۔ اور اضداد بظاہر تو علم و دانش کے پردہ باوقار میں چھپی ہوتی ہیں‘ لیکن فی الحقیقت بے خیالی اور خود پرستی سے مرکب ہو کر خودسری کی حدود سے وابستہ ہوتی ہیں اور کچھ مذہبی خیالات کا سہارا لے کر اور نیم خواندگی کی مدھم روشنی میں جب خیالات عقیدے کے نام پر مستحکم ہوتے ہیں تو پھر ہر شخص اپنی دانائی کے غرور میں ایسی ایسی نادانیوں کا ارتکاب کرتا ہے کہ معاشرے میں عدم سکون اور مذہبی افتراق کا راستہ آسان ہو جاتا ہے اور معاشروں میں مذہبی رائے کے نام پر مذہبی فساد کا آغاز ہوتاہے۔ مسلمان قوم کے زعیم اور قائد لوگ ایسے ہیں کہ جن کے کردار کی تعریف ہر ذی شعور انسان بلا تفریق مذہب و ملت کرتا ہے۔ ایک خاموش آسیب ہے جو سال بھر ابلیسی طاقت کے نشے کو دوبالا کرتا رہتا ہے اور اپنے پھیلائو کے رقبے کا بغور جائزہ لیتا رہتا ہے۔ پھر مسلمانوں کے ان مقدس ایام میں نیم شرابور آنکھوں سے دوبارہ جائزہ برائے حرکت فساد لیتا ہے اور پھر بھر پور قوت سے اپنے ان مہروں کو جا دبوچتا ہے جن مہروں کو لوگ تقدس کی نسبت سے پہچانتے ہیں۔ نبی اکرم سید عالم ﷺ کا ماہ ولادت آتا ہے تو اس ولادت کی خوشی پر جھگڑا شروع ہوتا ہے۔ جائز ہے‘ ناجائز ہے‘ درست ہے‘ نادرست ہے‘ حرام ہے‘ واجب ہے‘ اپنے اپنے ذوق کی وکالت میں ہرمرحلہ تحریر و تقریر صرف ہوا کرتا ہے۔ مقاصد حیات کیا ہیں؟ مذہبی تقاضے کیا ہیں؟ معاشرت کا رنگ کیسا ہو؟ یہ صباحث طاق نسیان کی زینت ہیں۔ شوشہ کسی ضعیف الدماغ کہن سالہ مفکر نے چھوڑا۔ نوجوان اکابر پرستی کا دستور خود ساختہ اپنائے ہوئے اسے لے اڑے۔ بزرگ خاموش سرپرست ہیں۔ علماء تھپکی دیے جاتے ہیں۔ واعظین خوش گلو ایسی تان اڑاتے ہیں کہ حرف نغمہ تو غائب لیکن راہ فساد میں کشائش مزید ہوتی جاتی ہے۔ محرم الحرام میں اپنا اپنا انداز ہے۔ ذوق کی فراوانی ہے اور عوام کی دلچسپی کی ارزانی ہے‘ ہر طرف سے بیان و زبان کی وسعتوں کا بازار کھلا ہے۔ شب و روز کا جاری سلسلہ مذہبی سکون آوری کا سبب تو بنتا ہے لیکن دوسری جانب فساد اور افتراق کے دروازوں پر دستک بھی دیے جاتا ہے۔ہر شخص کو ایک محدود دائرے میں اپنے مذہبی جذبات کے اظہار کا حق ہے لیکن اس کا دائرہ کسی دوسرے دائرے کو پرے نہ دھکیلے۔ ماہ محرم الحرام اسلامی روایات و اقدار اور تاریخی قدیم روایات کا امین ہے لیکن ایک پہلو اجتماعی شعور اور بیداری فکر و عقیدے کا بھی ہے‘ اس ماہ مقدس میں تاریخ کی عظیم ترین قربانی برائے تحفظ دین و کردار انسانی کا عظیم تذکرہ شہادت امام حسینؓ کی شکل میں نظر آتا ہے۔ یہ انتہائی بلد عظمت قربانی بقائے اسلام کی وہ دلآویز اور مومنانہ کہانی ہے۔ جس میں محبت خدا اور بندگی رب کا وسیع ترین پیغام ہے۔ انسانیت کے بلند اخلاق اور غیرت ایمانی کے روشن میناروں کے کردار کا دائمی استعارہ ہے اس قربانی کی نیک عملی اور خوش نیتی کا انکار اپنے ضعیف الایمان ہونے کی دلیل ہے اور یہی ضعف ایمانی ہے کہ اہل بیت نبوت کے دشمنوں کو ان بلند مقامات پر رکھا جائے جہاں پر صلحائے امت اور خاصان خدا کا مقام ہے۔ یزید تاریخ اسلام پر وہ بدترین اور بدنما داغ ہے جہاں شرمندگی ہے اور منافقت کا کامل سایہ نظر آتا ہے کتنے غیر ذمہ دار اور بدباطن ہیں وہ لوگ جو محرم الحرام کے پاک ایام میں فرعونیت اور قارونیت کے تسلسل یزیدیت پر صالحیت کا نقاب شرافت ڈالنے کی شرمناک حرکت کرتے ہیں ۔سماجی ذرائع ابلاغ پر تاریخ کے روشن چہرے پر تھوکنے کا بدذوق عمل جاری ہے۔ یزید کی بہیمانہ سیرت اور غیر انسانی افعال پوری انساینت کے لیے شرمندگی ہیں۔ شراب خدائے وحدہ لاشریک نے حرام فرمائی ‘ یزید نے اس کو رواج دیا۔ علامت امارت بنا کر معاشرے میں وہ فساد برپا کیا کہ الامان‘ بدکاری اور بدکرداری اس ستم کار کا شعار حیات تھا۔ ظلم سے قتل کروانا اور شعائر دینیہ کا مذاق اڑانا اس کا مشغلہ تھا۔ نوعمر رقاصائوں کو دربار سلطنت میں زینت فحاشی بنانا بھی اس کی حکومت کا ابلیسی انداز تھا۔ بندروں کو پالتا تھا ‘بندروں کے مرنے پر ان کا سرکاری سوگ منانا بھی اسی شرالبریہ نے متعارف کروایا تھا۔ قیصرو کسریٰ کی جابرانہ حکومتوں کو اپنا پیشوائے امور سلطنت اسی نے تسلیم کیا تھا۔ یہ حکومت نہیں ایک جبرو استبداد کی چھائونی تھی۔ حرام اور حلال رشتوں کی تفریق اٹھانا بھی اس کے سیاہ کارناموں کا ایک عنوان ممتاز ہے۔ کچھ لوگوں کو اس کی شاعری میں دین‘ اخلاص‘ اسلامی حمیت اور غیرت نظر آتی ہے۔ دارجلجل کا شاعر بھی تو شاعر تھا‘ ادیب ہونا کیا شیطان رشدی کو نصیب نہیں ہے۔ بہت نادان ہیں وہ لوگ جو شعر و ادب کا سہارا لے کر دشمن تعلیمات قرآنی کا تمسخر کرنے والے کو دودھوں دھلا ثابت کرنے پر مصر ہیں۔ اس بدبخت کی باغیانہ حرکتیں اس درجہ گھٹیا ہیں کہ اس نے سیدنا امام حسین علی جدہ و علیہ السلام کے سر مبارک پر چھڑی لگا کر نہایت دل آزار شعر پڑھے تھے جن کا مفہوم یہ تھا کہ میں نے اپنے بدری واحدی اجداد کا بدلہ لے لیا اور تمہارے گھر نہ وحی آئی اور نہ نبوت۔ اسی بنا پر امام احمد بن حنبلؒ اس کو کافر کہتے تھے۔ امام حسین ؓنواسہ ٔرسول ﷺ ہیں ‘ان سے محبت شرط ایمان ہے‘ ان سے بغض سراسر ذلت و خذلان ہے۔ ان کی جنت کی سرداری مسلم ہے۔ وہ معرکہ حق و باطن میں امتیاز بین ہیں۔ ان کو ایذا دینا خاتم النبین ﷺ کو ایذاد دینا ہے۔ ان سے بے مروتی سلب ایمان کا سندیسہ ہے۔ یزیدیت اور اس کا فروغ منافقت اور اسلام دشمنی کا ایجنڈا ہے۔ حسینیت حرمت انسانی کا دائمی شیوہ ہے۔ حسینیت قرب خداوندی کی منزل بلند ہے اور رفعت انسانی کے لیے محفوظ زینہ ہے ۔ ؎ یزیدیت کا اندھیرا‘ حسینیت کی سحر یہ قافلے شب و روز ساتھ چلتے ہیں