جون ایلیا نے کہا تھا: میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں نہ جانے یہ شعر مجھے ٹرمپ کے حوالے سے کیوں یاد آیا۔ وہ مغربی دنیا میں بھی ایک تماشے کے طور پر دیکھا اور سمجھا جاتا ہے اور تماشا ہو تو تماشائی بہت ہیں۔ یا یوں کہیں کہ خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے۔ کچھ انہیں لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں۔ ٹرمپ کو ہمیشہ عجیب و غریب حرکتیں کرتے دیکھا گیا کہ جسے سفارتی آداب تک نہیں آتے۔ کبھی گروپ فوٹو کھنچواتے وقت کسی سربراہ کاندھے سے پکڑ کر پیچھے دھکیل کر خود کھڑا ہوگیا۔ بعض محافل میں تو وہ مجھے Bull in China Shop کے مصداق لگتا ہے۔ خیر میرا کالم ہرگز ہرگز ٹرمپ پر نہیں۔ میں تو رائج بدتمیزی اور غیراخلاقی رویوں کے بارے میں لکھنے بیٹھا تھا تو ایک خبر سامنے آ گئی کہ آپ گوگل پر لفظ ایڈیٹ Idiot لکھیں تو فوراً ٹرمپ کی تصویر سامنے آ جاتی ہے۔ مزے کی بات یہ کہ موصوف احمق لگتے بھی ہیں۔ کہتے پوری قوم نے متفقہ طور پر اسے احمق کا خطاب دیا ہے۔ کسی پر کیا ہنسیں ہماری اپنی حالت اس سے کہیں بری ہے۔ ہمارے ہاں سیاستدان جو خطابات و القاب استعمال کرتے ہیں اس کے سامنے احمق جیسے الفاظ تو نہایت بے ضرر اور معصومانہ لگتے۔ آپ انہیں سمجھنے کے ہومیو پیتھک الفاظ کہہ سکتے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے اس خبر کو دیکھیے کہ جس میں مولانا فضل الرحمن، پرویز خٹک اورایاز صادق کو ناشائستہ الفاظ کے حوالے سے نوٹس ملا ہے۔ ایک عالم دین ہیں، دوسرے دھان پان کے پی ٹی آئی کے مہذب رہنما ہیں اور تیسری شخصیت واقعتاً رکھ رکھائو والی ہے۔ میرا خیال ہے ن لیگ میں وہ ایک باوقار قسم کے آدمی ہیں۔ آخر ان سب کو کیا ہوگیا۔ اس ضمن میں شاعر بھی تو حد کرتے ہیں۔ حافظ شیرازی کہتے ہیں: بدم گفتی و خورسندم، عفاک اللہ نکو گفتی زبان تلخ می زیبد لب لعل شکر خوار بہرحال محبوب کا معاملہ اور ہے۔ ادھر تو دشمن کو گالی دی جاتی ہے اور پھر دو ٹوک انداز میں دی جاتی ہے۔ بات بہت آگے بڑھ گئی ہے۔ مثلاً آج اتفاق سے ایک مضمون ریحام خان پر سوشل میڈیا پر فلوٹ ہوا۔ بس یوں سمجھ لیں کہ کسی نے گندے جوہڑ میں اتنے پتھر پھینکے کہ اس کا پانی چھینٹے بن کر کناروں سے باہر آ گیا۔ انسان عرق ندامت سے شرابور ہو جاتا ہے۔ جس میں حیا نہیں رہی تو پھر وہ جو کچھ مرضی کرتا رہے۔ سچی بات یہ کہ اس جملے کی صحیح سمجھ مجھے اب آئی کہ ریحام نے تو سربازار گند پھینکا اور اس کا نتیجہ دیکھنے لگی۔ پھر وہاں گندگی باقاعدہ روڑی بن گئی۔ اس گند کے تعفن سے لوگوں کا دم گھٹنے لگا۔ یہ خوبصورت خاتون مسلسل ہنستی ہوئی چمکداردانتوں کے ساتھ ہنس رہی ہے۔ کوئی دیکھنے والا اندازہ نہیں کرسکتا کہ بعض اوقات خوبصورتی کے اندر بھی کتنا گند چھپا ہوتا ہے۔ وہی کہ دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور۔ ہم نتائج و عواقب سے بے خبر ہوتے ہیں۔ اصل بات کچھ یوں ہے کہ روش چل نکلی ہے کہ ہم اپنی عزت دوسرے کی تذلیل کرکے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔دوسرے کو کم تر گھسیٹا اور کمینہ ثابت کرکے خود کو اجاگر کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ آخر یہ سب کیا ہے۔ یہ باقاعدہ ایک بیماری ہے، جہالت ہے اور نحوست ہے۔ یہ بات کچھ زیادہ نمایاں اس وقت ہوئی جب میں درس میں بیٹھا رشید احمد انگوی کی زبان سے تفسیر سن رہا تھا۔ آدمی قرآن کی تنبیہہ سن کر تو سن ہی ہو جاتا ہے۔ مفہوم کچھ یوں تھاکہ اللہ فرماتے ہیں خرابی اور ہلاکت ہے ان لوگوں کے لیے جو طعنہ دیتے ہیں اور غیبت کرتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جو اشاروں کنایوں سے یا منہ در منہ یعنی سامنے روبرو کسی کی تضحیک کرتے ہیں، ذلیل کرتے ہیں یا کسی کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ دوسرے کی غیر موجودگی میں اس کی کردار کشی کرتے ہیں یا کسی کو رسوا کرتے ہیں یا الزام تراشی کرتے ہیں۔ پھر کہا کہ ان کے لیے ہلاکت ہے جو مال جمع کرتے ہیں اور پھر انہیں گن گن کر رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مال انہیں بچا لے گا۔ اصل میں ایسے لوگ مال کی محبت کو جاں گزیں کرچکے ہیں۔ ان کے دل میں پیسے کی محبت ہے وہ سارا وقت اس کو بڑھانے اور گننے میں لگ رہتے ہیں۔ میں سوچنے لگا کہ ہمارا حال تو اس سے بھی آگے کا ہے کہ وہ لوگ جو دن رات ملک کو لوٹنے میں لگے ہوئے ہیں، محلات خریدتے ہیں، غیر ملکی بینکوں میں کئی کئی اکائونٹس کھولے ہوئے ہیں اور ان کے اللے تللے ایک طرف۔ انہیں تو اپنے پیسے گننے کی بہت فرصت نہیں ہے یا پھر ان کے بس میں ہی نہیں ہے۔ ان کے بچے ان سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ وہ پیسے کی محبت میں ملک تک چھوڑ چکے۔ اپنے باپ کی مدد کرنے سے معذور ہیں۔ ان کے دل مال کی دولت سے چور ہیں۔ وہ بڑے بڑے چاچائوں کو کچھ نہیں سمجھتے۔ بڑی بڑی مونچھوں والے بھی ان بچوں کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں اور وہ اس تذلیل میں عزت محسوس کرتے ہیں۔ ان کے دل میں بھی تو وہی دولت کی محبت ہے۔ وہ اوپر سے ذلیل ہوتے ہیں اور پھر وہی حشر وہ اپنے کمیوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کو کمی بھی انہوں نے بنا رکھا ہے۔ ہم یہ بھی نہیں سمجھتے کہ ایک دوسرے کو ذلیل کرنے میں کوئی بھی تو عزت دار نہیں رہتا۔ کسی کو طعنہ یا گالی دے کر ہم اس کو دعوت دیتے ہیں کہ آئو مجھ پر لعنت بھیجو۔ شاید ہم نے یہ مشہور ہونے کا انداز اپنایا ہے۔ وہی کہ جو نتیجہ نکلتا ہے: ہر طرف اک شور برپا اور لوگوں کا ہجوم ہم نے گویا شہرسارا اپنی جانب کرلیا اب دیکھئے جب شہبازشریف یہ فرماتے ہیں کہ عمران کے جلسے کی کرسیاں اس کے دماغ کی طرح خالی ہیں تو جواب میںعمران خان انہیں عقل مند کہیں گے؟ ہوسکتا ہے وہ یہ کہہ دیں کہ میرے دماغ میں اس کے دماغ کی طرح بھوسہ نہیں بھرا ہوا۔ محترمہ بختاور نے بھی ارشاد کیا ہے کہ عمران خان سیاست سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔ اب دیکھئے جواب میں پی ٹی آئی کے ٹائیگرز کیا کچھ نہیں کہیں گے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر بختاور چھا جائے گی۔ وہی کہ اپنی عزت اپنے ہاتھ میں۔ شاید ہم پست ترین مقام پر چلے گئے ہیں۔ وہی کہ سب سے بڑا ذہن نظریے کی بات کرتا ہے، اوسط ذہن واقعات اور پست ذہن شخصیات کو ڈسکس کرتا ہے۔