ڈر لگتا ہے۔ مجھے ڈر لگتاہے۔ ڈر اس لئے لگتا ہے کہ پاکستان خطے کا اہم ملک بننے جا رہا ہے، بلکہ بن گیا ہے۔تو خوشی کی بات ہونا چاہیے اور مجھے شیخ رشید کی طرح لڈیاں ڈالنا چاہیے اور اپنے سیاسی مخالفوں کو ڈرانا چاہیے کہ سمجھ جائو کہ ہم کتنے اہم ہو گئے ہیں۔تم کیا چھوٹی چھوٹی سیاست میں پڑے ہوئے ہو۔ اسی لئے ڈر لگتا ہے۔ یعنی یہ کہ اس اہم صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمارے ہاں کوئی مستحکم حکومت نہیں ہے۔میں نے مستحکم کا لفظ سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے‘میں نالائق یا نااہل کا لفظ بھی استعمال کر سکتا تھا۔اس لئے نہیں کہ میں اس حکومت کو اس طرح نااہل کہنا چاہتا ہوں، جس طرح حزب اختلاف کہتی ہے بلکہ شاید یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم سیاسی طور پر غیر مستحکم اور نااہل ہیں۔اس لحاظ سے کہ ہم اس سنہری سیاسی موقع سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔جب بھی ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے اور ہماری اہمیت بڑتی ہے تو اس کا ہمیں فائدہ پہنچنے کے بجائے اتنا نقصان پہنچا ہے۔ہماری اس اہمیت کی وجہ سے ہمیں کونے سے لگا دیا جاتا ہے۔چلئے باقی باتیں چھوڑیے ‘نائن الیون کے بعد ہم اہم ہوئے تھے تو کیا ملا ہم کو۔ہمیں کٹھ پتلی یا آلہ کار بنا کر رکھ دیا گیا۔ دیوار کیا گری مرے کچے مکان کی یاروں نے مرے صحن کو راستہ بنا لیا دیوار نہیں گری تھی‘ہمیں بتایا گیا ہے ہمارے لئے نئے مواقع کی راہیں کھلی ہیں۔پھر ہم عالمی طاقتوں کا راستہ بن گئے۔سچ مچ راستہ بن گئے۔امریکہ اور مغرب کی فوجیں مار دھاڑ میری شاہراہوں سے گزر کر میرے اس پڑوسی کو تاراج کرتی رہیں، جس کی آزادی کے لئے ہم نے اس کا ساتھ دیا تھا۔روس کے خلاف اس کی جنگ میں اپنا وجود خطرے میں ڈالا تھا۔اب ہماری ہی سرزمین سے اڑ اڑ کر غبارے اس دھرتی کو اور اس کے سپوتوں کو نشانہ بناتے رہے۔اس کے بدلے میں ہمیں کیا ملا۔سوائے بدنامی اور مخالفانہ پروپیگنڈے کے۔دشمن کو ہمارے سروں پر اسی سرزمین پر لاکر بٹھا دیا گیا۔ہم نے درمیان میں ذرا مزاحمت کی‘آنے جانے کا راستہ بند کیا۔پھر آخر میں ہوائی اڈے بھی لے لئے مگر ہم ان اڈوں کو خالی نہ کرا سکے ،جو ہمارے اس پیارے ہمسائے کی سرزمین پر بزور ہمارے خلاف دہشت گردی پھیلانے کے لئے بنائے گئے تھے۔ہمیں ملا کیا‘اس جنگ کے اخراجات کے نام پر چند سکے یا اس ملک سے بے گھر ہونے والوں کی امداد کے نام پر تھوڑی بہت امداد۔کیا ملا ہم کو۔ اس سے پہلے بھی کیا ملا تھا ہم کو۔ایسا نہ کیجیے۔ہم نے پی ایل 480کے نام پر گندم‘خشک دودھ اور بٹر آئل کی خیرات پائی‘ہاںبعض اہم باتیں بھی ہوئیں۔ہماری دفاعی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں۔مگر یہ دفاعی ضروریات جس مقصد کے تحت تھیں وہ کبھی حاصل نہ ہو پایا۔کشمیر کے بارے میں ہمیں لالی پاپ ہی دکھایا جاتا رہا۔ہم نے اس زمانے میں بھی اپنی سرزمین سے امریکی جاسوسی طیاروں کو پرواز کی اجازت دے کر اپنا نام خروشیف کی ریڈ لسٹ میں شامل کر لیا۔دنیا ہمیں امریکہ اور مغرب کا پٹھو کہتی تھی۔کبھی ہم نے تخمینہ لگایا‘اس سب کے بدلے ہمیںملتا کیا رہا۔ہمارے سلامتی کے بعض تقاضے پورے ہوتے رہے۔مگر ہم نے اپنی سکیورٹی کا نظام جس دشمن کے خلاف بنایا تھا‘دوسری طرف اس کی جھولیاں بھری جاتی رہیں۔ہم تہی دست ہی رہے۔بازو ہمارے شمشیر زن بن گئے‘مگر یہ شمشیر ہمارے کس کام آئی، صرف یہ کہ ہم اپنا دفاع کر پائے‘کس کے خلاف جس کو ہمیں دفاعی طور پر مضبوط کرنے والوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔اب بھی کیا ملا۔کہتے ہیں اس نے اپنی طرف سے بڑی دو ٹوک شرائط رکھی تھیں۔افغانستان میں ہمارے دشمن بھارت کو کوئی کردار نہیں دیا جائے گا۔جو ویسے بھی نہ تھا۔ مگر وہ دیا گیا۔ہم نے کہا کہ وہ جو شمال کی طرف لگ رہتے ہیں، روسیوں کے خلاف لڑائی میں، جب ہم اور آپ ایک تھے وہ ہمارے مخالف تھے۔انہیں اقتدار میں نہیں لایا جائے گا۔یہ کام بھی ہوا۔بانکا مشرف بس دیکھتا ہی رہ گیا۔قومے فروختندوچہ ازاں فروختند۔اس پورے عرصے میں ہماری معاشی ترقی کی رفتار رکی رہی۔ لوگوں نے طعنے دینا شروع کر دیے کہ ہم ایک سکیورٹی ریاست ہیں‘فلاحی ریاست نہیں۔کیا یہ ملک صرف اپنی حفاظت کرنے کے لئے بنایا گیا ہے اور یہاں عوام کے فائدے کی کسی بات کی ضرورت نہیں ہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ ہم معاشی اور سیاسی دونوں لحاظ سے بے حال ہوتے گئے اور آج بھی ہوتے جا رہے ہیں۔ ڈر لگتا ہے کہ ہم اہم ہوتے جا رہے ہیں۔ ڈر یوں لگتا ہے کہ اس بار پھر ہماری اہمیت سلامتی کے تقاضوںکے مطابق زیادہ ہے۔اس لئے ہمارا آئی ایس کا چیف افغانستان جاتا ہے جہاں امریکی خفیہ ادارے کا چیف بھی موجود ہے۔وہ تو بھارت بھی جاتا ہے۔پھر پاکستان آ کر وہ ہمارے آرمی چیف سے ملاقات کرتا ہے۔تینوں سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ظاہر ہے امریکہ کا مطمع نظر کیا ہے۔اسے افغانستان سے شکست ہوئی ہے مگر وہ اس سرزمین سے جانا نہیں جاتا۔اس لئے اعلان کیا ہے کہ ہم اس لئے یہاں سے فارغ ہوئے ہیں کہ ہمیں چین سے مقابلہ کرنا ہے اور روس سے بھی‘چین سے مقابلے میں وہ ہم سے تو کچھ تقاضا نہیں کر رہا۔کیوں نہیں کر رہا ہو گا۔اسے سی پیک سے خوف ہے اور وہ چین کے مقابلے میں ہمارے دشمن بھارت کو پھر افغانستان میں کھڑا کرنا چاہتا ہے اور یہ سب باتیں بنیادی طور پر امریکہ کے لئے سلامتی کے تقاضے ہیں جبکہ جو صورت حال پیدا ہو رہی ہے‘اس میں ہم سیاسی اور اقتصادی فائدے بھی حاصل کر سکتے ہیں۔پرانا آر سی ڈی بعد میں ای سی او بن گیا تھا۔صرف تین ملک تھے ایران‘ترکی ‘پاکستان قدرت نے کمال دکھایا اس میں وسط ایشیا کی چھ ریاستیں اور افغانستان بھی شامل کر لیا گیا۔چین اورروس پہلے ہی شنگھائی تنظیم کی صورت میں مستقبل کی منصوبہ بندی کر رہے تھے، ہم بھارت کے ساتھ اس میں شامل ہو گئے اور بہت خوش تھے۔اب ہم کہاں کھڑے ہیں تین سال سے سی پیک کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کئے ہوئے ہیں۔اب حالات بدلے ہیں تو دوبارہ چین یاد آ رہا ہے۔اس سے ہمیں جو فائدہ پہنچا تھا وہ تو ہم نے روک دیا تھا اب یہ سب خطے کے لئے ناگزیر ہیں۔ اور اگر غور کریں تو خطے کے سلامتی کے تقاضے بدل گئے ہیں۔کیا ہم اس کا ادراک کر سکیں گے۔حکومت یا سیاسی بندوست نااہل اور غیر مستحکم ہے اور ہماری سلامتی کے تقاضوں کی تاریخ ہمیں اب بھی امریکہ کا اسیر کئے ہوئے ہے۔اب اڈے دینے لینے کی ضرورت نہیں۔ضرورت ہوتی تو میں نے کہا کہ حکومت کمزور ہے اور بے تعلق۔اس وقت irrelevantکا یہی ترجمہ ذہن میں آیا جو کافی نہیں ہے۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ ہم اہم ہو گئے ہیں۔جانے پھر ہم الّو نہ بنا لئے جائیں۔یاد رکھئے‘پاکستان کو باقی رہنا ہے اور انشاء اللہ رہنا ہے تو اصل چیز یہاں کے عوام ہیں۔فیصلہ یہ کرنا ہے کہ ہمیں اس سے کیا ملے گا یا ہم صرف ڈرتے رہیں گے۔کہیں ہمسائے کی زمین ہمارے خلاف استعمال نہ ہو‘ کہیں دشمن پھر ہمارے بازو مروڑنے کے لئے ہم پر مسلط نہ کر دیا جائے بلکہ کہیں وہ ہماری سرحدوں پر ہمیں گیدڑ بھبھکیاں نہ دینے لگے۔ہماری سلامتی کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ ہم مضبوط ہوں‘عوام خوشحال ہوں‘کوئی ہماری طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے۔ہماری سلامتی یہ ہے کہ دشمن ہم سے ڈرے نہ کہ ہمیں ڈراتا رہے اور غراتا رہے۔ جب سی پیک عروج پر تھا تو میں بار بار کہتا تھا‘ہم تاریخ کے درست رخ پر ہیں‘ہمیں غلط رخ پر مڑنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ہم راستہ بھٹک بھی گئے اور اس بھٹکے پر خوش تھے۔دوبارہ آئی ایم ایف کی جھولی میں تھے۔کیا ہم اس اقتصادی سامراج سے آزاد ہو سکتے ہیں اور سیاسی سامراج سے بھی۔یہ بات ہماری سلامتی کی سب سے بڑی علامت ہو گی۔