میں ملک کی معیشت کے بارے میں متفکر ہوں۔ وگرنہ رانا مشہود کے مسئلے پر ضرور لکھتا۔ اس میں ایسی کون سی بات ہے جس کے بارے میں یہ کہا جائے کہ اس سے ملک کا استحکام متزلزل ہو جائے گا۔ اس ملک میں بہت سے ایسے واقعات ہو چکے ہیں جن کے حوالے سے ذرا شدید ردعمل ظاہر کیا گیا۔ ڈان لیکس اور اس سے پہلے وہ بیان جس پر مشاہد اللہ خاں کو مستعفی ہونا پڑا۔ بعد میں رائے بنتی ہے کہ پہلے تو ایسی کوئی بات ہی نہ تھی کہ اس پر شور پڑتا‘ دوسرا یہ کہ ان کے پیچھے کچھ کچھ سچائی تھی۔ مگر ان میں کوئی سٹیٹ سیکرٹ نہیں تھا جو فاش ہو گیا ہوں۔ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ رانا مشہود کا بیان بچگانہ ہے۔ اگرچہ ان میں بعض باتیں مزے کی ہیں۔ مثلاً یہ کہ لینے گھوڑے گئے تھے‘ نکلے خچر۔احتیاط بھی ملاحظہ فرمائیے یہاں گدھوں کو بیچ میں نہیں لایا گیا۔ اسے زیادہ سے زیادہ آپ حمزہ شہباز کی طرح پھلجھڑی کہہ سکتے ہیں۔ اس کو اتنی دور تک لے جانے اور اسے انتہائی سنجیدہ معنی دینے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ریاست کا کوئی راز فاش ہو گیا ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی بہت حساس ہو گئی ہیں اور ریاستی ادارے بھی نازک مزاج نہیں‘ یہی کہہ سکتا ہوں۔ ایک بات البتہ مجھے سمجھ نہیں آ رہی اقتدار کے ایوانوں میں اس پھلجھڑی سے زلزلہ کیوں آ گیا۔ ارے بھئی‘ وہ بھی ڈرے ہوئے ہیں۔ کیا ہوتا ہے وہ سسمک سینٹر وہ زلزلہ پیما وہاں ارتعاش محسوس ہوا ہے۔ خواہ مخواہ ان کے چہرے فق ہوئے پڑے ہیں۔ شہباز شریف کی پریشانی بھی سمجھ آتی ہے۔ کیا عرض کروں‘ ان کی مشکلات کا کوئی اندازہ کر سکتا ہے۔ بس اس بات پر ’’مٹی‘‘ ڈالیے‘‘اور آگے بڑھیے۔ ملک کو کوئی خطرہ نہیں۔ بہت سی باتیں جو ہم چھپانا چاہتے ہیں‘ سب کو معلوم ہوتی ہے۔ تشویش کی کوئی بات نہیں۔ ہاں‘ البتہ جس بات پر تشویش ہونا چاہیے وہ ہماری معاشی صورت حال ہے۔ گزشتہ دو چار دنوں میں ایسی کئی خبریں آتی ہیں جو نہ صرف یہ بتاتی ہیں کہ ہم اپنی معیشت کی سمت کا ابھی تک تعین نہیں کر سکے بلکہ اس حوالے سے لاف زنی میں مبتلا ہیں۔ میں کوئی فقرے سازی کے موڈ میں نہیں‘ وگرنہ اس مسئلے پر ایسے ایسے لطیفے سرزد ہو رہے ہیں کہ ہنسی بھی آتی ہے اور رونا بھی۔ کوئی چیز واضح نہیں۔ ہمارا دکھ یہ ہے کہ ہم نے اپنی معاشی حکمت عملی کو خارجہ پالیسی سے اس طرح نتھی کر دیا ہے کہ ڈر لگتا ہے کہ‘ ہم اپنی گاڑی کو کسی پہاڑ سے ٹکرا نہ دیں۔ یہ خطہ ایک بہت بڑی تبدیلی سے گزر رہا ہے۔ چین ایک قوت بن کر نہ صرف ابھر رہا ہے‘ بلکہ ہم سے اس کی مثالی دوستی ہے۔ یہاں تک کہ وہ امریکیوں سے کہتے ہیں ہمارے لیے پاکستان ایسے ہے جسے تمہارے لئے اسرائیل۔ بعض ماہر بھی کہتے ہیں چین کے کسی دوسرے ملک سے ایسے تعلقات نہیں ہیں جیسے پاکستان سے۔ یوں لگتا ہے‘ ہم ان تعلقات کو بگاڑنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ ہم نے سی پیک پر ایسا ہنگامہ کیا گویا یہ کوئی 1۔سامراجی سازش ہے‘ نئی ایسٹ انڈیا کمپنی ہے۔ ہمیں لوٹنے کا حربہ ہے۔ 2۔گزشتہ حکومت کی حماقتوں میں سے ہے۔ اس نے غلط ترجیحات طے کیں‘ اب ہم انہیں بدلیں گے‘ وگرنہ قرضوں کے بوجھ تلے دب جائیں گے۔3۔ ہم عالمی دبائو کی وجہ سے یا ملکی حالات کی وجہ سے اسے ختم نہیں کر سکتے تو اس کی رفتار کو سست کر دینا چاہیے اس حوالے سے ہم نے بڑے بڑے بزر جمہر اکٹھے کر رکھے ہیں۔ ہم نے عاطف میاں جیسے ماہرین معاشیات ڈھونڈے تو وہ بھی اسی لابی کے‘ ہم نے دائود رزاق جیسے وزیر منتخب کئے تو وہ بھی اس خطے میں امریکی مفادات کے سب سے بڑے علمبردار۔ ہم نے بیان بازی کے لیے انتخاب کیا تو خسرو بختیار جیسے ترجمان کا۔ فرماتے ہیں‘ ہم امپورٹڈ فیول پر اب بجلی کے کارخانے نہیں لگائیں گے۔ درست‘ بالکل درست‘ بتائیے‘ انرجی کی وہ کون سی مقامی پراڈکٹ تھی جو گزشتہ 5سال میں بجلی بنانے کے لیے استعمال ہوتی۔ کہا جا رہا ہے تھر کا کوئلہ جو ہے۔ بھئی اس کوئلے کا تذکرہ ہم گزشتہ 25‘30برس سے سن رہے ہیں۔ کبھی جرمن آتے‘ کبھی چینی قدم رنجہ فرماتے۔ کبھی ہم اپنے ایٹمی سائنسداں ثمرمبارک مند کو یہ ذمہ داری سونپتے۔ کبھی یہ خبر آتی۔ یہ کوئلہ کس معیار کا ہے۔ اسے صرف اسی جگہ استعمال کیا جا سکتا‘ وہ بھی گیس کی شکل میں بدل کر۔ کبھی یہ خبر دی جاتی‘ اس کے لیے بہت لمبا چوڑا انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر 5,4برس کے بعد سیاسی بیان بازی شروع ہو جاتی۔ کبھی صوبہ اس پر اپنا حق جتاتا‘ کبھی وفاق اسے اپنا استحقاق بتاتا۔ ابھی یہاں سے بجلی پیدا کرنے میں مزید چند برس چاہئیں۔ قیصر بنگالی نے بتایا کہ 5سال میں خطے کی قسمت بدل جائے گی۔ سلام کوٹ نام کا ایک شہر آباد ہو جائے گا۔ جتنی تیزی سے بجلی گھر لگے ہیں۔ پہلے کوئلے سے ‘ پھر گیس سے۔ ہاں‘ گیس بھی یہاں نہ تھی۔ کبھی ایران سے آ رہی تھی کبھی تائپی کا منصوبہ تھا۔ مگر ہمیں نتائج چاہئیں تھے نتائج۔ قطر سے گیس کا معاہدہ ہوا۔ اس گیس کو منتقل کر نے کے لیے ٹرمینل کی تعمیر ہوتی ہے۔ یہ کوئی معمولی پراجیکٹ نہیں تھا۔میں نے ابھی کہا تھا‘ہم نے گزشتہ حکومت پر الزام تراشی میں خارجہ پالیسی کو بھی ملوث کر لیا ہے۔ قطر سے جھگڑا ہے۔ وہاں سے گیس کیوں آئی اور بھی معاملات ہیں‘ ہم نے دیکھا قطر کی نمبر پلیٹوں والی گاڑیاں ایک فیکٹری میں کھڑی ہیں۔ فیکٹری سیف الرحمن کی ہے۔ جھٹ چھاپا مار دیا۔ یہ سیف الرحمن نواز شریف کا دوست ہے۔ پورٹ قاسم کے بجلی گھر کے لیے قطری سرمایہ لانے کا ذمہ دار ہے۔ یہ گویا موجودہ حکومت کی نظر میں شریفوں کا فرنٹ مین ہے۔ پارلیمنٹ میں رپورٹ پیش ہو گئی کہ قطر سے گیس خرید کر پاکستان نے کس طرح اربوں کا فائدہ اٹھایا۔ ہم ہیں کہ لگے ہوئے ہیں بے تکی لٹھ بازی کرنے میں۔ مشرق وسطیٰ میں ہم نے اپنے دوستوں کے ساتھ عجب کیا ہے۔ یہ قطر کی کہانی ہے۔ سعودی عرب کے حوالے سے ہم بے پرکی اڑا رہے ہیں۔ پہلے خبر آئی کہ سعودی عرب 10ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ بس ڈار بوریوں میں بھر کر چلا آ رہا ہے۔ سی پیک میں شراکت دار بن رہا ہے۔ گوادر میں آئل ریفائنری لگائے گا۔ تیل ادھار دے گا۔ ظاہر ہے اس کا مطلب ہے کہ چین‘ سعودی عرب کو سی پیک میں حصہ دار بنانے کو تیار ہو گیا ہے اور سعودی عرب کا حلیف امریکہ بھی اس پر راضی ہے۔ طرح طرح کے تجزیے ہونے لگے۔ کیا سچ مچ خطے میں اتنی بڑی تبدیلی آ رہی ہے۔ ایسی تبدیلی جس پر شاید ایران کو بھی کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ اب اطلاع آئی ہے کہ کوئی تیسرا شراکت دار نہیں‘ بلکہ ہم کئی ملکوں کو دعوت دے رہے ہیں کہ وہ آ کر سرمایہ کاری کریں۔ سعودی عرب ہی نہیں‘ دوسرے ملک بھی دھڑا دھڑ سرمایہ اٹھائے چلیں آئیں گے۔ خدا کرے ایسا ہو‘ مگر اس میں اور شراکت داری میں بہت فرق ہے۔ اقتصادی نکتہ نظر ہی سے نہیں‘ خارجہ حالات کے بھی حوالے سے۔ ہم کیا کر رہے ہیں۔ ہمیں کچھ پتا نہیں کہ ہمیں کس سمت چلنا ہے۔ حالات ہمیں سنبھالے ہوئے ہیں۔تاریخ کی قوتیں ہمارے ساتھ ہیں۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ خدا کے فضل سے ہم سے کوئی ایسی غلطی نہیں ہو گی جو سب کچھ تلپٹ کر دے‘‘ وگرنہ ہم کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ چین نے دو ٹوک لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ ہم انہی منصوبوں پر عمل کریں گے جو چل رہے ہیں یا جو پاکستان کی حکومت چاہے گی۔ معیشت ان کی ہے‘ اس لیے انہیں ہی فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ خیال رہے کہ چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے حوالے سے اب سٹریٹیجک پارٹنر شپ کا لفظ استعمال ہو رہاہے۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ آج کل یہ لفظ جہاں بولا جاتا ہے‘ اس کا مطلب سلامتی اور دفاع میں شراکت داری ہے۔ اب اسے دفاعی معاہدہ نہیں کہا جاتا۔ یہ زمانے کے اپنے لفظ ہوتے ہیں۔ ایک زمانے میں روس جب کوئی ایسا معاہد کرتا تو اسے دوستی کا معاہدہ کہا کرتا تھا۔مطلب یہ کہ چین سے ہمارے تعلق اب ایسے نہیں جسے سرسری لیا جائے۔ یہ ہماری سلامتی کا بنیادی معاملہ ہے اور معاشی ترقی کا بھی مجرب نسخہ۔ اس وقت ہماری خارجہ حکمت عملی اور معاشی منصوبہ بندی ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہم اسے کہیں اندرونی سیاست کی بھینٹ نہ چڑھا دیں۔ اس موقع پر مجھے اسحاق ڈار بھی یاد آ رہے ہیں۔ عدالت نے ان کی جائیداد قرق کرنے کا حکم صادر کر دیا ہے۔ میں نے رات ان کے انٹرویو ٹی وی سنے ہیں۔ جہاں تک قانونی معاملات کا تعلق ہے‘ مجھے اس پر کچھ نہیں کہنا۔ مگر اس کی تو اجازت ہے کہ ان کے زمانے کی اقتصادی پالیسیوں کا تجزیہ کہا جائے۔ مجھے تو خیر یہ بھی یقین نہیں آتا کہ چارٹرڈ اکائونٹنٹ اتنا غیر ذمہ دار ہو گا کہ اس نے اپنے حسابات میں ایسے سوراخ چھوڑ رکھے ہوں کہ اس پر ہاتھ ڈالا جا سکے۔ یہ پورا مقدمہ جس میں نواز شریف کو بھی نااہل کیا گیا‘ اب تاریخ کے سپرد ہے۔ اسحق ڈار بھی اسی تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس وقت مجھے اس پر کوئی بات نہیں کرنا‘ البتہ ان معاشی پالیسیوں کی طرف اشارہ کرنا ہے جو ان کے زمانے میں ملک میں نافذ رہی ہیں۔ اس بارے میں اسحق ڈار صرف دو بار بولے ہیں۔ ایک بار جب مفتاح اسمٰعیل نے روپے کی قیمت کم کی اور کچھ نئے اقدامات اٹھائے دوسری بار وہ اب بولے ہیں‘وگرنہ وہ خاموش تھے۔ اس وقت صاف نظر آ رہا تھا کہ عالمی اقتصادی اسٹیبلشمنٹ کا دبائو رنگ دکھانے لگا ہے۔ ملک کی کشتی ڈیڑھ ‘ دو سال کے سیاسی بحران کی وجہ سے گرداب میں تھی۔ سٹاک مارکیٹ جو 52ہزار تک جا پہنچی تھی۔40ہزار پر آ گری تھی۔ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے تھے‘ بحران کی وجہ سے ملک کے اندر سے کوئی 15ارب ڈالر باہر چلا گیا تھا۔ صاف نظر آتا تھا کہ بنک کی شرح سود میں اضافہ ہو گا جو اب کر دیا گیا ہے۔ ہماری ریٹنگ عالمی اداروں نے کم کرنا شروع کر دی تھی۔اب تو خیر مثبت سے منفی ہو گئی ہے۔ حالات خراب ہونا شروع ہوئے تھے حکومت نے بعض تبدیلیاں کیں۔ اسحق ڈار جو لندن میں خاموش بیٹھے تھے۔ وہ چیخ اٹھے کہ اگر وہی پالیسیوں پر عمل جاری رہتا تو ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ لگ رہا تھا‘ ہم ادھر جا رہے ہیں۔ نگران حکومت نے تو اس طرف ڈگ بھرنا شروع کر دیے۔ صاف کہا شرح نمو کو 6.2فیصد سے کم کر کے 5.5فیصد کرنا پڑے گا۔ آج عالمی ادارے بتا رہے ہیں یہ شرح نمو اس سال 4.7فیصد ہو گی اور آئندہ برس 4.3۔فیصد بار بار عرض کر رہاہوں ترقی معکوس ہو گی۔ ہم نے 2020ء تک غربت اور مہنگائی پر قابو پانے کا جو منصوبہ بنایا تھا۔ وہ ٹھپ کر دیا جائے گا۔ میں شور مچاتا رہا یہ سی پیک کو بھی خراب کریں گے۔ میں نئی حکومت کی نیت پر شک نہیں کرتا۔ مگر مجھے ڈر ہے کہ ہماری معیشت ایسے معیشت دانوں کے ہاتھ میں آ گئی ہے جو بالکل مختلف تصورات رکھتے ہیں۔ شوکت عزیز سے لے کر آج تک میں ہر وزیر خزانہ میں کیڑے نکالتا رہاہوں۔ اسحق ڈار پر بھی حرف زنی کی ہے۔ مگر اب مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم بہت بڑی غلطی نہ کر بیٹھیں۔ مجھے ڈر لگتا ہے۔ سچ کہتا ہوں۔ مجھے ڈر لگتا ہے۔