مئی کا وسط آ چکا ہے اور ابھی تک نہ تو املتاس پہ توجہ دے پائی ہوں اور نہ ہی مجید امجد کو یاد کیا کہ مئی کی گیارہ تاریخ ہی تھی جب یہ شعر کہنے والا اس جہان سے رخصت ہوا تھا کہ : میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا اپریل کے ٹھنڈے میٹھے مہینے کے بعد مئی میں موسم گرما کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ ہوا میں حدت بڑھ جاتی ہے اور ہوا کی یہی حدت املتاس کی شاخوں پر زور جادو جگاتی ہے یوں بہار گزرنے کے بعد‘ املتاس کی بانہیں زردگہنوں سے بھر جاتیں ہیں۔ یہ انسان کے لئے قدرت کا ایک بے ہا تحفہ ہی تو ہے کہ بہار گزرنے کے بعد بھی املتاس ہمارے منظر کو پر بہار رکھتا ہے۔مگر اس بار وبا کی ایسی افتاد پڑی کہ خوف سے محصور گھر دلوں پر بہار دستک دیے بغیر ہی گزر گئی۔ ہم سب اپنے اپنے گھروں کے قیدی بنے‘ بہار کا استقبال اس طرح نہ کر سکے جو اس کا حق تھا۔ خوش رنگ پھول شاخوں پر کھلتے رہے اور ہمیں احساس دلاتے رہے کہ کارخانہ قدرت میں کہیں کوئی ردوبدل نہیں۔ بہار اپنے وقت پر آنگنوں میں اتری ہے ہاں مگر اس بہار سے پہلے گھروں آنگنوں سڑکوں اور شاہراہوں خوف اور ہراس کی حکمرانی تھی۔بہار گزر گئی‘ گرمی نے قدم جمانے شروع کر دیے ہیں۔ ہوا میں حدت بڑھی تو املتاس کے پھول کھل اٹھے ہیں۔ مگر زندگی میں یہ کیسی مصروفیت در آئی ہے کہ مئی کا وسط آ چکا اور میرا دل زرد پھولوں کی خوش منظری سے خالی ہے ادھر مجید امجد کی شب رفتہ کھونے اور سطرسطر میں بکھری ہمہ گیر اداسی کو اپنے دل میں اتارے بھی زمانہ ہوا۔ شب رفتہ میں ہے کوئی ایسا سحر جو آپ کے دل کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔مجید امجد کا یہ شعر پڑھ کر مجھے ایسا لگا جیسے‘زرد املتاس کو دیکھ کر کہا گیا ہو: یہ زرد پنکھڑیاں ‘ جن پہ کہ حرف حرف ہوں میں ہوا ئے شام میں مہکیں اگر جو تو چاہے یوں لگتا ہے کہ مجید امجد نے اپنے مصرعوں اور اپنی نظموں کو زرد املتاس سے تشبیہ دی ہو۔اپنی نظموں کو اپنی داستان عجز کہنے والا مجید امجد‘ زندگی اور اس سے جڑے حالات واقعات کو جس آئینے سے دیکھتا تھا۔ وہ آئینہ پھر کسی تخلیق کار کو میسر نہ آ سکا۔ اس لئے مجید امجد‘ بے مثل ہی رہا۔مجید امجد کے اسلوب کو کاپی کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن لگتا ہے۔زندگی کے کیسے کیسے منظر ان کی شاعری میں پناہ لیتے ہیں۔ کسی بہار کی چڑیا کو نئی رتوں کی بنجارن کہنے والا۔ کبھی کسی بھکارن کو اپنی نظم کا کردار بنانے والا۔ خزاں کے ایک سوکھے ہوئے پتے کو دیکھ یہ آرزو کرنے والا کہ کاش وہ خزاں کا یہ سوکھا ہوا پتا ہوتا کہ ہوا کے ایک جھونکے سے ٹوٹ کر ان پازیبوں والے پائوں کے دامن میں گر پڑتا۔ مجید امجد کی شاعرانہ نگر گلی کے پان فروش پر پڑتی ہے۔تو ’’پنواڑی‘‘ جیسی لازوال نظم تخلیق کرتا ہے اور ہر منظر کے مقابل زندگی کی ناہمواری‘ کج روی اور بے ثباتی کو رکھ کر ایک آفاقی سچ کو نظم کا حصہ بنا دیتا ہے’’پنواڑی‘‘ کا ایک بند دیکھیے: کون اس گتھی کو سلجھائے دنیا ایک پہیلی/دو دن ایک پھٹی چادر میں دکھ کی آندھی چلی/دو کڑی سانسیں لیں‘ دو چلموں کی راکھ انڈیلی/پھر اس کے بعد نہ پوچھو کھیل جو ہونی کھیلی/پنواڑی کی ارتھی اٹھی بابا اللہ بیلی احساس کی آنچ پر ہمہ وقت سلگتا ہوا انوکھا تخلیق کار‘ بیلوں کے چھکڑوں کے پیچھے پیچھے زخمی پائوں کی آہٹ سننے والا شاعر۔ مجید امجد بلا شبہ یکتا اور بے مثال ہے۔ڈاکٹر خورشید رضوی نے ’’بازدید‘‘ میں مجید امجد کے بارے میں ایک کمال کا خاکہ تحریر کیا ہے۔منٹگمری (ساہیوال) میں گزرے ہوئے وہ قیمتی شب روز جب وہ طالب علم تھے اور انہیں اس بے مثل شاعر کو قریب سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔ وہ لکھتے ہیں کہ بہت کم شعرا کو اپنا کلام پڑھتے ہوئے اس حد تک ڈوب سکتے ہیں جس حد تک مجید امجد ڈوب جاتے تھے۔ خفیف سی جنبش سر‘ ایک چراغ کی لرزتی ہوئی لو جیسی مسکراہٹ کے ساتھ وہ اپنا کلام یوں پڑھتے جیسے گوتم کو گیان نصیب ہو رہا ہو۔جب نظموں کے اس گوتم پر یہ مصرعے اترتے ہوں گے تو پھر کیا عالم ہوتا ہو گا اس کے گواہ تو منٹگمری کے سرکاری کوارٹر کے درو دیوار ہوں گے جہاں زندگی کی آخری سانس تک مجید امجد نے قیام کیا اور اپنی ابدی آرام گاہ کی طرف رخصتی سے پہلے اپنے آبائی شہر جھنگ کی طرف سفر کیا۔ جاوید قریشی سابق چیف سیکرٹری پنجاب جو شعر و ادب سے شغف رکھتے اور خود بھی شعر کہتے تھے۔ ان دنوں منٹگمری(ساہیوال) میں ڈپٹی کمشنر تعینات تھے۔ مجید امجد کی جسد خاکی کو عجب بے سروسامانی کے عالم میں سرکاری طور پر جھنگ بھجوانے کا اہتمام انہوں نے کیا۔ حیرت ہے کہ کوئی ایمبولینس تک دستیاب نہ ہو سکی اور میت ٹرک میں روانہ کر دی گئی۔ ان کے مکان سے غیر مطبوعہ غزلوں کے مسودے جاوید قریشی نے اکٹھے کئے اور ان کو چھپوانے کا اہتمام کیا کتاب کا نام رکھا شب رفتہ کے بعد۔نارسانی کا شدید احساس شاعر کو تمام عمر دامن گیر رہا۔ نہ رخصت مقام ہے۔ نہ شہرت دوام ہے۔ اور کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد۔ میری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول!مئی کا وسط ہو چکا۔ املتاس کا زرد جادو ‘ درختوں پر اپنی بہار دکھا رہا ہے۔ ہم ہیں کہ مصروفیت کا لایعنی بار شب و روز ڈھوتے ہیں اور ان پیلے پھولوں کی خوش منظری سے اپنے دل کو شاد کام نہیںکرتے۔کل میں نے سڑک کے کنارے لگے املتاس کے ایک تنہا درخت کو دیکھا پھولوں سے بھرا ہو۔ جس کے عقب میں گلشن اقبال پارک تھا۔ کورونا کی افتاد کے دنوں میں باغ کے اندر داخلہ بندہے ۔ میں جانتی ہوں اس پارک کے کونے میں ایک سرسبز گوشہ جس کے چاروں اطراف املتاس کے درختوں کی قطاریں ہیں۔مئی کا وسط ہے اور وہ املتاس پھولوں سے بھر چکے ہوں گے پھولوں سے لدے ہوئے درخت اداس ہوں گے کہ باغ میں کیسا سناٹا ہے۔ انہیں سراہنے والے انسان کہاں گئے۔وبا کا موسم نہ جانے کب ختم ہو گا۔ کب پارک کھلیں گے؟ کب ان درختوں سے ملاقات ہو گی۔ جن سے ملاقات کبھی ایک معمول ہوا کرتا تھا اور کب املتاس کے ان پھولوں کی اداسی دور ہو گی۔ سر دست نارسائی کے احساس میں لپٹا مجید امجد کا یہ شعر پڑھیے: اور اب یہ کہتا ہوں یہ جرم تو روا رکھتا میں عمر اپنے لیے بھی تو کچھ بچا رکھتا!