دنیا جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گری ہوئی تھی اورعقل و خردکے ہوتے ہوئے انسانیت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی تھی۔ روحانیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں تھی۔ بالخصوص دنیائے عرب تو اس تھرڈ کلاس سوسائٹی کا منظر پیش کررہی تھی جہاں کمزوروں اور ناداروں کو انسان ک ہی نہیں سمجھا جاتا تھا ،ساری طاقت طاقتوروں کے پاس تھی۔جب تمام حدود سے تجاوز فخر اور شرف ٹھہرا اور خوئے ابلیسی انسانیت کی طرف منتقل ہونے لگی اورجب اشرف المخلوقات کا حسین لقب بھی انسان کے لئے نامناسب ٹھہرا تو رب کائنات کی حکیم ذات کو اس بیمار معاشرے اور قابل رحم سماج پر ترس آیا اور آنے والے تمام زمانوں کی ہمیشہ کی مسیحائی کے لئے اپنے آخری رسول حضور ختمی مرتبت حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا۔آپﷺ کی مبارک پیدائش ساڑھے چودہ سو برس قبل بارہ ربیع الاول کو حضرت عبداللہ اورحضرت آمنہ کے گھر ہوئی۔ لاریب، آپ ﷺ کی بعثت اس دنیا کے لئے اللہ کی ایک ایسی رحمت بن کر اتری جس کے طفیل اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو ایک مرتبہ پھر ذلت سے نجات دے کر شرف و عظمت سے نوازا۔ کائنات کی سب سے عظیم ترین ہستی ہونے کے باوجود آپ ﷺ آپ کیپہچان درویشی اور عاجزی تھی اور ایک ایسے ناز پرور تھے جن کا حلقہِ خدام اور غلاموں سے ہر وقت خالی رہتا تھا۔جو شکم مبارک کو غذا سے سیر کرنے کی بجائے پتھر باندھنے سے بہلاتے تھے،جو یتیموں کا مولیٰ تھا، غریبوں کی مرادیں برلانے والے اور خطاکاروں کو معاف کرنے والے تھے۔ جن کے وعظ سے مس خام کندن بن گئے اور آپ کے شفقت بھرے رویے نے غیروں کو بھی اپنا دلی غلام بنا لیا ۔بقول حالی مس خام کو جس نے کندن بنایا کھر ا اور کوٹا الگ کر دکھا یا اعلیٰ اخلاق اور حمیدہ اوصاف کی رفعتوں پر متمکن اس بشر ِاطہرﷺ کے بارے میں خود ذات خداوندی شہادت دیتی ہے کہ ’’انک لعلیٰ خُلق عظیم‘‘ بلاشبہ، آپ اخلاق کے بلند مرتبے پر فائز ہیںــ۔ خود آپ ﷺفرماتے ہیں کہ ’’میں حُسن اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں‘‘۔ قرآن کی گواہی سے قطع نظر آپ ﷺکی تریسٹھ سال پر مشتمل مکی اور مدنی زندگی گوا ہ ہے کہ سردار مرسلین ﷺ کی ذات شریفہ وفا کا پیکر، صبر کا کوہسار، بردباری اور درگزر کا پتلا، استغناء و قناعت کا بحر بیکراں اور شرم وحیا کی ایک بے مثل نمونہ تھی۔دین متین کی تبلیغ و ترسیل کے بارگراں کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے آنجناب ﷺنے ایسے دلربا اور نفیس طریقے کو اپنا وطیرہ بنایا جس سے بلا کے شقی القلب اور ہٹ دھرم انسانوں کے دل بھی دفعتاً مسخر ہو جاتے تھے۔ یہ آپ ﷺ اعلیٰ اخلاق ہی کا کرشمہ تھا کہ لوگ گروہ درگروہ اسلام کے حلقہ بگوش ہوتے رہے اور اس مکمل ضابطہ حیات کو آگے لے جانے میں آپ ﷺکے ہم سفر بنتے۔ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ رسالت مآب ﷺکے لائے ہوئے دین کے سامنے لوگوں کا سرتسلیم خم کرنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ آپ ﷺ خود بھی اس عملی نمونہ پیش کرکے بتادیا کہ ’’یوں‘‘۔آج مائیکل ہارٹ، ولیم مور، تھامس کارلائل، کیرن آرمسٹرانگ، جان گلب اور پرنگل کینیڈی وغیرہ جیسے غیر مسلم لکھاری بھی یہ لکھتے نہیں کتراتے کہ ’’انسانیت کے اس بلند قامت رہنما اور پاکیزہ کردار پیامبر نے دین اسلام کا وہ عملی نمونہ پیش کیا ہے جن کا اعتراف کرنا ہمارا فرض اور اس سے آنکھیں چرانا سراسر زیادتی ہیــ‘‘۔ اسلام پر تحقیق کرنے والے مشہور محققہ کیرن آرمسٹرانگ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ’’محمد ﷺکو حقیقی معنوں میں صفر یا نقطہ آغاز سے بنیادی اور روحانی نظریے کے لئے کام کرنا پڑاتھا جب آپ نے اپنا مقدس مشن شروع کیا ۔ دنیا ئے عرب توحید کے تصور کوتسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھی، اس قسم کی وحشی سوسائٹی اور جارح قوم میں ایک ایسی کوشش بہت خطرناک تھی، اور محمد ﷺ وہ خوش نصیب تھے جو ایسے ماحول میں زندہ رہے اور اپنے وصال سے قبل ہی عصبیت کے ریشوں کو کاٹ ڈالا‘‘۔مائیکل ہارٹ اپنی کتاب میں رقمطراز ہیں کہ ’’میں نے رسول اکرم ﷺ کو سب سے اونچے مقام پر دیکھا اور اس کا اعتراف کیا اور آپ کو انسانی تاریخ کی عظیم ترین اور سب سے متاثر کن شخصیت مانا‘‘۔سرولیم ’’لائف آف محمد‘‘ میں آپ ﷺ کے جمال کا خدوخال پیش کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’’ان کی گہری کالی آنکھوں کی گہرائی میں جو احساسات تھے اور ان کے چہرے پر جو مسکراہٹ تھی، وہ انتہائی مقناطیسی کشش کے حامل تھی، جسے دیکھ کر پہلی نظر میں کوئی اجنبی شخص ان کا گرویدہ ہوجاتاتھا۔ ان کا روشن چہرہ ایسا لگتاتھا جیسے سورج کی شعاعیں ان کے چہرے سے پھوٹ رہی ہوں‘‘۔ میجر اے لیونارڈ ’’اسلام اور اس کی اخلاقی وروحانی اقدار‘‘ نامی کتاب میں آقائے نامدارﷺ کے بارے میں اعتراف کرتاہے کہ ’’اگر کبھی کسی شخص نے اس صفحہ ہستی پر خدا کو پایا ہے، اگر کبھی کسی شخص نے اپنی تمام زندگی کی خالصتاً اور پاک جذبے سے خدا کی راہ میں وقف کردی ہے تو وہ بلاشبہ عرب کے پیغامبرِخدا محمدہی ہیں‘‘۔مہندر سنگھ بیدی جیسے شعراء تو آپﷺکی قابل رشک زندگی سے اتنے متاثر ہوئے ہیں کہ یہ دعویٰ کیے بغیر نہیں رہ سکے: عشق ہوجائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں صرف مسلم کا محمدپہ اجارہ تو نہیں افسوس کامقام تو یہ ہے کہ آج ہم صرف بارہ ربیع الاول جیسے مخصوص ایام میں اپنے دلوں کو اس ذات پاکﷺ کی یاد سے بہلاتے ہیں جو حقیقت میں عملی وفا کا تقاضا کررہی ہے۔ آج مراکش سے لے کر مصراور سوڈان تک، ترکی سے جزیرہ نما عرب اور فلسطین، شام، عراق، یمن اور ایران تک اور پاکستان سے ڈھاکہ تک مسلم امہ جس زبوں حالی اور مصائب سے گزر رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ آپ ﷺ کی پاکیزہ زندگی کے طریقوں سے روگردانی ہے۔حیف، جس عشق کے طفیل ہمارے اسلاف کو قرون اولیٰ میں دنیا کی امامت نصیب ہوئی تھی، اس عشق کی آگ آج ہمارے سینوں میں بجھ چکی ہے اوراس میں فقط حرص وہوس اور حب ِ دنیا انگڑائیاں لے رہی ہیں۔جس خودی نے ہمارے اسلاف کو سب کچھ سے استغنا بخشی تھی، وہی خودی اب ہمارے اندر بانجھ چکی ہے اور اس کی جگہ احتیاج، درماندگی اور مادہ پرستی نے لی ہے، اقبال نے بجا کہاہے؛ بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہے