پہلے تو اٹارنی جنرل آف پاکستان محترم خالد جاوید خان اور چارو ں صوبوں کے صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز سے معذرت ۔ ۔ ۔ مگر فوری طور پر اسی معصومانہ محاورے کے علاوہ دوسرا کوئی محاورہ ذہن میں نہیں آیا۔ ۔ ۔ مگر 20اپریل کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد اور اُن کی بنچ کے دیگر برادر جج صاحبان کے سامنے صورت ِ حال ہی کچھ ایسی تھی ۔محترم چیف جسٹس اور برادر جج صاحبان وفاق اور چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز سے گزشتہ دو ماہ سے جاری کورونا وائر س سے متاثرہ مریضوں اور اس حوالے سے حکومتی اقدامات پر ایک کے بعد دوسرا سوال کررہے تھے۔۔تو دوسری جانب وفاق اور اپنی اپنی حکومتوں کے یہ تنخواہ دار نمائندے صم ’‘ بکم’‘ کی مجسم تصویر بنے کھڑے تھے۔ اگر کسی سوال کا جواب بھی آتا تو چار لفظوں میں۔ ۔ ۔ اسی خوف سے کہ اس سوال کے جواب میں حکومت کے دفاع میں وہ جو کچھ کہیں گے۔ ۔ ۔ اُس میں جو پوری تیاری سے ’’مقدمہ‘‘سننے والے چیف اور دیگر جج صاحبان جو جوابی سوال کریں گے ،اس کا اُن کے پاس کوئی جواب ہی نہیں ہوگا کیونکہ بقول شاعر ِ عوام حبیب جالبؔ : مدار جن کا ہے نوکری پہ وہ لوگ تو نوکری کریں گے معذرت کے ساتھ ہمارے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے یہ ایڈووکیٹ جنرل صاحبان ۔ ۔ ۔ سرکار کے تنخواہ دار ملازم ہوتے ہیں ۔حکومت کی کارکردگی کی کارگزاری ،مبینہ کرپشن کے حوالے سے ان کا صرف ایک ہی کردارہوتا ہے کہ ایوان ِ وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے سکریٹریوں کے سکریٹریز نے جو بریفنگ دی اسے قانونی موشگافیوں سے عدالت کے سامنے پیش کردیں۔بدقسمتی سے یہ اٹارنی جنرلز اپنے پروفیشن کے حوالے سے بڑے پائے کے وکیل ہوتے ہیں۔مگر ایک با ر پھر مزید معذرت اور بدقسمتی سے بصد احترام یہ کہنا پڑے گا کہ ’’اٹارنی جنرل‘‘ جیسے انتہائی اہم اور مقتدر عہدے کو بھی سیاست کی نذر کردیا گیاہے۔ ماضی میںہم نے دیکھا ہے کہ ہماری بری بھلی سویلین ،فوجی حکومتیں ایسے سینئر ریٹائرڈ ججوں اور وکیلوں کو اٹارنی جنرل کے عہدوں پر فائز کرتی تھیں کہ جو اپنی ٹیم کے ساتھ مدلل دلائل اور دستاویز ات کے ساتھ حکومتوں کا دفاع کرتے تھے۔ ۔ ۔ اعلیٰ عدالتوں کے معزز جج صاحبان اختلافِ رائے کے باوجود ان اٹارنی جنرلز کی علمیت ،قابلیت اور دلائل کو دیکھتے ہوئے انہیں بڑے سکون اور احترام کے ساتھ سنتے تھے۔ مجھے مرحوم جسٹس ریٹائرڈ فخرالدین جی ابراہیم یاد آرہے ہیں۔جنہیں محض کورٹوں اور باروں میں ہی نہیں ،بعض اوقات جج صاحبان بھی ’’فخرو بھائی‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔اور پھر فخرو بھائی کی جرأت اور علمیت دیکھیں کہ جب سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں اٹارنی جنرل نامزد ہوئے اور غالباً کوئی چند ہفتے ہی گذرے ہوںگے ۔ ۔ ۔ کہ کسی ’’اصولی‘‘ بات پر محترمہ سے اختلاف ہوگیا۔ حکومت کا دفاع کرنے کے بجائے اپنا استعفیٰ انہیں بھجوادیا۔سندھ کی گورنری ملی ۔مگر گورنر عشرت العباد کی طرح دہائی اوپر گورنر بننے کا ریکارڈ قائم نہیں کیا۔ اس عہدہ ٔ جلیلہ پر بھی مشکل سے مہینے گزارے ہوںگے ۔ محترم خالد جاوید خان سے پہلے ہمارے کراچی کے ریٹائرڈ جسٹس انور منصور خان نے بھی جب صدر ِپاکستان ڈاکٹر عارف علوی کے ایک حکم کا دفاع نہ کرنے کے بجائے گھر جانے کو ترجیح دی ۔ ۔ ۔ اس سے قبل بھی ن لیگ کی حکومت کے دور میں وہ سال دو پہلے مستعفی ہوچکے تھے۔خالد جاوید خان موجودہ اٹارنی جنرل میرے انتہائی محترم دوست اور پیپلزپارٹی کے بانی رکن پروفیسر این ڈی خان کے صاحبزادے ہیں۔وکیل کی حیثیت سے یقینا و ہ پروفیشن میں عزت و احترام سے دیکھے جاتے ہیں۔پھر کم از کم اس پر تحریک انصاف کی حکومت کو داد دینی پڑے گی کہ اپنی بدترین مخالف پارٹی کا خاندانی اور ہائی سیاسی پس منظر رکھنے کے باوجود اُس نے خالد جاوید خان کو اُس عہدے پر فائز کیا گیا۔جو سرکاری پروٹوکول میں پانچویں اور چھٹے نمبر پر آتا ہے۔ یہ لیجئے۔ ۔ ۔ فرصت کے دنوں میں ’’توازن‘‘ نہیں رکھ پا رہا۔ اُس کا شاخسانہ دیکھیںکہ بات شروع کی تھی چیف جسٹس محترم سے جو 20 اپریل کو وفاق اور صوبوں کے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرلز سے اُن کی حکومتوںکی کورونا وائرس سے نمٹنے کے حوالے سے کارکردگی اور کارگذاری کا حال احوال لے رہے تھے۔کئی گھنٹوں کی کارروائی کے دوران چیف صاحب کے بیانیہ کی ،جو شہ سرخی بنا، وہ تین لفظوں میںیہ تھا کہ ’’ حکومتی کام شفاف نہیں‘‘ ۔ ۔ ۔ ایک ایسے وقت میں جب ساری حکومت کورس کی صورت میں اپنے ہم وطن اور دوست ملکوں کے سامنے امداد کی طلب گار ہے، اشتہار میں اپیلیں اور چینلوں پر گھنٹوں کی ٹیلی تھان ہورہی ہیں ۔ ۔ ۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا یہ بیان حکومت کے کپتان وزیر اعظم پاکستان اور صدر ِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے لئے کتنا شرمندگی کا باعث ہے ۔ اور اس سے کورونا وائرس سے جو ہماری حکومت لڑ رہی ہے ۔ ۔ ۔ اُس سے اُسے کتنا بڑا نقصان پہنچے گا ۔ ۔ ۔ کیا وزیر اعظم اور اُن کی ٹیم کو اس کا احساس اور ادراک ہے۔ ۔ ۔ ؟ یقینا پھر معذرت کے ساتھ ،شاید نہیں۔ ۔ ۔ بلکہ ہرگز نہیں۔ ۔ ۔ چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کا یہ بیان کہ ’’وفاق اور صوبوں کی طرف سے مستحقین میں تقسیم کی گئی امداد کا صاف حساب نہیں ،قرنطینہ مراکز میں حالات غیر انسانی ہیں ‘‘ ۔ ۔ ۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے رمضان شریف سے پہلے ایک اور اہم سوال اٹھایا کہ زکوٰۃ اور مزارت کے فنڈ سے انتظامی اخراجات کیسے ادا کئے جاسکتے ہیں۔چیف صاحب کا مزید فرمانا تھا کہ وفاقی حکومت صوبوں کو جو زکوٰۃ دیتی ہے ،کیا وہ مستحقین تک پہنچتی ہے؟ چیف جسٹس آف پاکستان اور ان کی بینچ نے کورونا وائرس میں امدادی کام اور عطیات کے حوالے سے جو آبزرویشن دی ہیں۔ ۔ ۔ اگر کالم کی تنگی نہ ہوتی تو لفظ بہ لفظ اتار دیتا۔مگر چیف جسٹس سے بصد احترام ،کیا یہ مناسب اور بہتر نہیں کہ ان تنخواہ دار اٹارنی جنرلز کو سپریم کورٹ میں طلب کیا جائے کہ جو منتخب نمائندے کی حیثیت سے براہ راست اس کے ذمہ دار ہیں۔ ۔ ۔ ٭٭٭٭٭