محترمہ بے نظیر بھٹو کے11 ویں یوم شہادت پر بھی حسب روایت نوڈیرو میں بڑا جلسہ عام ہوا، سینکڑوں پرستاروں نے ان کے مزار پر پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی۔ اس مرتبہ محترمہ کی یاد پیپلزپارٹی کی سیاسی تاریخ کے کٹھن تر ین موڑ پر منائی گئی۔ پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے گرد گھیرا تنگ سے تنگ تر ہو رہا ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں اگر دس فیصد بھی صداقت ہے تو آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کا بچنا محال نظر آتا ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ جے آئی ٹی کی تشکیل جس میں آئی ایس آئی کاایک بریگیڈیئر بھی شامل ہے سے یہ توقع کرنا کہ وہ آصف زرداری کو کلین چٹ دیدے گی قرین قیاس نہیں تھا۔ پہلے تو عدالتیں خود ہی سیاستدانوں کا مکو ٹھپ دیتی تھیں۔ اب جے آئی ٹی کا قیام ایک نئی جہت ہے۔ ’پاناما گیٹ‘ کی تحقیقات کے لیے‘ نوازشریف پر الزامات کے حوالے سے بھی جے آئی ٹی بنائی گئی تھی اور یہی عمل آصف زرداری کے اومنی گروپ کے ساتھ تعلق کی تحقیقات کے لیے دہرایا گیا۔ جے آئی ٹی جس کا پنجابی مخفف ’جت‘ بنتا ہے گویا کہ یہ ہمیشہ اپنا کام کر جاتی ہے لیکن جب کسی مصلحت کا شکار ہو تو یہ جے آئی ٹی اتنی سرعت سے کام نہیں کرتی۔ مثال کے طور پر کراچی کے متنازعہ ترین پولیس افسر راؤ انوار کے خلاف تحقیقات کے لیے بننے والی جے آئی ٹی کی رپورٹ ابھی تک طاق نسیان میں پڑی ہے۔ دوسری طرف آصف زرداری اور فریال تالپور کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کی رپورٹ عدالت کے باقاعدہ ملزموں کو فراہم کرنے سے پہلے ہی سوشل میڈیا اور میڈیا پرلیک ہو گئی۔ اب وفا قی کابینہ نے آصف زرداری، فریال تالپور، بلاول بھٹو سمیت 172 افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر بھی ڈال دئیے ہیں۔ یہ بھی عجب ستم ظریفی ہے کہ سندھ کے موجودہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کا نام بھی ای سی ایل میں شامل ہے، اس کا مطلب ہے کہ یہ سندھ کے عوام کے مینڈیٹ کی توہین ہے۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری کاکہنا ہے کہ 31 دسمبر سے پہلے پہلے’’ان شاء اللہ‘‘ آ صف زرداری جیل میں ہونگے۔ یقینا آصف زرداری کو سیاسی منظر سے ہٹانے کے نتائج خاصے سنگین ہو سکتے ہیں۔ اس سے پیپلز پارٹی کی قیادت میں جو خلا پیدا ہو گا وہ بلاول بھٹو کو پرُ کرنا پڑے گا بشرطیکہ انھیں بھی نہ دھر لیا جائے۔ شاید اسی لیے بے نظیر بھٹو کی ہمشیرہ صنم بھٹو کو علامتی طور پر پارٹی کا شریک چیئرپرسن بنانے پر غور کیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کی طرف سے بھٹو خاندان پر بالخصوص اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں پر بالعموم جو ظلم وستم ڈھائے گئے، اس کے بعد پارٹی کو زندہ کرنے کا سہرا محترمہ بے نظیر بھٹو کو ہی جاتا ہے۔ جب ضیاء الحق اور ان کی باقیات اسلام کی من مانی تاویل کرتے ہوئے یہ کہہ رہے تھے کہ اسلام میں عورت کی گواہی مرد کے مقابلے میں نصف ہوتی ہے لہٰذا وہ حکمرانی کی اہل نہیں پاکستان میں ان کو 1988ء میں اسلامی دنیا کی پہلی خاتون حکمران منتخب کیا گیا۔ لیکن آرٹیکل 58۔ ٹو بی سے لیس باقیات ضیا صدر غلام اسحق خان نے جن کے پاس وزیراعظم کو برطرف کرنے کے علاوہ بھی اختیارات تھے اس وقت کی فوج اور انٹیلی جنس کی ملی بھگت سے بے نظیر حکومت کو برطرف کردیا لیکن بے نظیر 1993ء میں دوبارہ وزیراعظم بننے میں کامیاب ہو گئیں۔ ضیاء الحق کے لگائے ہوئے ایک اور پودے میاں نواز شریف نے بھی تنگ آکر بقول ان کے ڈکٹیشن لینے سے انکار کردیا ان کا بھی صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں یہی حشر ہوا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو انتہائی کہنہ مشق اور زیرک سیاسی سوچ کی حامل تھیں۔ میرا ان سے کافی قریبی تعلق تھا، انھوں نے جو نامساعد حالات دیکھے وہ بعض حوالوں سے آج کل کی صورتحال سے بھی زیادہ گھمبیر تھے لیکن اسے محترمہ کی بہادری کہیں کہ انھوں نے بڑی جرأت اور جوانمردی سے مقابلہ کیا۔ جب وہ 10 اپریل 1986ء کو طویل جلاوطنی کے بعد واپس وطن پہنچیں تو لاہور میں ان کا انتہائی والہانہ استقبال کیا گیا۔ اس وقت محمد خان جونیجو وزیراعظم تھے جنہوں نے ان کی واپسی کے لیے راستہ ہموار کیا۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے جونیجو اگرچہ ضیاء الحق کی چوائس تھے لیکن انھوں نے پارٹی لس جمہوریت میں بھی جنرل ضیاء الحق کا ربڑ سٹمپ بننے سے انکار کر دیا۔ محمدخان جونیجو کامیاب وزیراعظم ثابت ہوئے تھے۔ محترمہ کے واپس آنے کے بعد پیپلز پارٹی کی تنظیمی طور پر جو دگرگوں صورتحال تھی اس میںآئندہ انتخابات میں اس کی کامیابی کا کو ئی چانس نظر نہیں آرہا تھا۔ کیونکہ کہا یہی جاتا تھا جب تک ضیاء الحق موجود ہیں وہ کسی صورت پیپلزپارٹی کو برسراقتدار نہیں آنے دیں گے لیکن محترمہ نے ہمت نہیں ہاری۔ جب ضیاء الحق نے مئی 1988ء میں محمد خان جونیجو کو محض اس لئے کہ وہ ایک کامیاب جمہوری وزیراعظم بن گئے تھے برطرف کرنے کی فاش غلطی کی تو بے نظیر بھٹو کے دن پھر نے شروع ہو گئے۔ ضیاء الحق جو اسلام کے نام پر مکمل ڈکٹیٹر شپ نافذ کرنا چاہتے تھے نے اپنے لیے یہ عاقبت نااندیشانہ قدم اٹھاکر خود کو بندگلی میں دھکیل لیا۔ اسی بنا پر انھیں سی 130 طیارے کے پراسرار حادثے میں ایک مبینہ سازش کے تحت ہمیشہ کے لیے راستے سے ہٹا دیا گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو پیر پرستی پر بڑا یقین رکھتی تھیں، ایک ثقہ روایت کے مطابق کسی کے مشورے پر وہ بنگلہ دیش میں ایک پیر صاحب کے پاس گئیں، ان پیر صاحب نے انھیں بتایا کہ آپ تب برسراقتدار آئیں گی جب آم پھٹیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ ضیاء الحق کے طیارے میں رکھی گئی آم کی پیٹیوں میں بم رکھے گئے تھے جو پھٹ گئے۔ اس کے بعد بے نظیر بھٹو دومرتبہ وزیراعظم بنیں۔ جب وہ این آر او کے بعد 18 اکتو بر 2007ء کو کراچی پہنچیں تو ان کا والہانہ استقبال ہوا لیکن سازشیوں نے انھیں کارساز کے قریب مارنے کی پوری تیاری کر رکھی تھی۔ وہ خود تو معجزانہ طور پر بچ گئیں لیکن 180 کارکن جاں بحق ہو گئے یہ ان کے لیے بہت بڑی وارننگ تھی کہ پرویز مشرف اور طالبان انھیں مبینہ طور پر زندہ نہیں چھوڑیں گے اور بالآخر وہی ہوا 27 دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ کے جلسے سے نکلتے ہی انھیں دہشت گر دوں نے آ لیا۔ ستم ظریفی ہے کہ 26 اور 27 دسمبر کی درمیانی شب اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم تاج نے انھیں منانے کی بہت کوشش کی کہ آپ لیاقت باغ نہ جائیں کیونکہ آپ کی زندگی کو شدید خطرہ ہے لیکن وہ خطرات کی پروا کیے بغیر نہ صرف جلسہ گاہ گئیں بلکہ بعد میں بلٹ پروف گاڑی کی چھت کھول کر کھڑی ہو گئیں اور دہشت گردوں کا نشانہ بن گئیں۔ ان کی شہادت کے بعد جب میں زرداری سے تعزیت کے لیے نوڈیرو گیا تو وہ مجھے ایک کمرے میں لے گئے اور لنچ کے بعد ایک بریف کیس لے آئے۔ آصف زرداری نے محترمہ کے ہاتھ سے لکھی ہوئی وصیت پڑھائی جس کے مطابق وہی ان کے سیاسی اور ذاتی جانشین نامزد کیے گئے تھے، شاید میں واحد صحافی تھا جس نے یہ وصیت نامہ خو ددیکھا، میں ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ تو نہیں ہوں، لیکن وہ بے نظیر بھٹو کی ہی تحریر تھی بعدازاں لوگوں نے قیاس آرائیاں کیں کہ یہ وصیت جعلی ہے، اس وقت بلاول کی عمر19برس تھی تومحترمہ کے پاس کیا چارہ کار تھا ،ان کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی لیکن اگلا پروگرام لگتا ہے کہ وہاں سے بھی اسے فارغ کردیا جائے۔ آصف زرداری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پرطبل جنگ بجاتے ہوئے کہا کہ لاڈلے کے پھٹے ڈھولوں نے ہمیں پھر للکارا ہے، ہم ان کے نئے ہتھکنڈوں سے نہیں ڈرتے، ایسے ہتھکنڈوں کا پہلے بھی مقابلہ کیا ہے اور آئندہ بھی کریں گے، بلاول بھٹو زرداری کو یہ لوگ کیا ڈرائیں گے، وہ میرا اور بی بی شہید کا بیٹا ہے جب کہ جیالے ان سے اکیلے ہی مقابلہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں ٹی وی پر بکواس کرنے کے سوا کچھ نہیں آتا تاہم ہم اس حکومت کو ٹھپے مار کر نکالیں گے، ہم جمہوری طریقے سے مقابلہ کرکے ان سے دوبارہ حکومت حاصل کریں گے، حکومت نے جس طریقے سے لڑنا ہے لڑلے۔ زرداری صاحب اور برخوردار بلاول یقیناً ایسی ولولہ انگیز تقریریں کر کے اپنے ورکرز کا حوصلہ بلند رکھنا چاہتے ہیں لیکن زمینی حقائق ایسے بنتے جا رہے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان صاحب کیلئے میدان صاف کرنے والے چین سے نہیں بیٹھیں گے۔