کل سے نئے اسلامی و قمری سال 1443ھ کا آغاز ہوگا، محرم الحرام کی شروعات اور ذوالحجہ کے آخری ایام میں ، گذشتہ کچھ عرصے سے کوئی نہ کوئی ایسا حادثہ یاسانحہ رونما ہو جاتا ہے ، جس سے ملکی استحکام اور وقا ر پر حرف اور پُر امن مذہبی ماحول بالخصوص بین المسالک ہم آہنگی اوربین المذاہب رواداری سے آراستہ ملکی ماحول متاثر ہو نے کا اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے،جسکا ایک مقصد پیش آمدہ محرم الحرام میں کشیدگی اور انتہا پسندانہ رجحانات کو تقویت ،دیگرملکی امن وامان کو سبو تاژ کرنا اور بین الاقوامی سطح پرپاکستان کے وقار اور دین اسلام کی صداقت اور حقانیت کو مجروح کرنا بھی ہوتا ہے،ایسا ہی دلخراش واقعہ گذشتہ ہفتہ موضع بھونگ ضلع رحیم یار خان میں مندر پر حملے کی صورت مں رونما ہوا،جو اسلام کی تعلیمات کے صریحاً منافی اورآئین پاکستان کی روح سے قطعاً مطابقت نہ رکھتا ہے۔ اسلام نے تو حالتِ جنگ میں بھی غیر مسلموں کے معبد وکلیسا اور عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کیا ہے،کجا زمانہ امن میں ،دن دھاڑے کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جائے ۔ اسلامی مملکت کے باشندے دو حصوں میں منقسم ہیں، ایک مسلم اور دوسرے غیر مسلم---غیرمسلم کو مزید دو حصوں میں تقسیم کیاجاتا ہے،ایک وہ جو جنگ کے بغیر سرنڈر کرگئے اور اطاعت پذید ہوئے،دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جنہوں نے جنگ میں شکست کے بعد،گھٹنے ٹیکتے ہوئے،مملکت اسلامیہ میں پُر امن شہری کی حیثیت سے سکونت اختیار کر لی ۔ یہ دنوں طبقات’’اہلِ ذمہ‘‘قرار پاتے ہیں، اسلامی مملکت میں سکونت پذیر مسلم رعایا اور غیر مسلم رعایا کی جان ،مال اور آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری اسلامی ریاست اور حکومت پر عائد ہوتی ہے ،یہ ذمہ داری صرف کہنے کی حدتک نہیں ، بلکہ عملی طور پر ان سے عہد ہ برأ ہونا، اسلامی حکومت کا دینی اور ریاستی فریضہ ہے ۔ مسلمانوں کے بار ے میں حجۃ الوداع کے موقعہ پر ،میدانِ عرفات میں،صحابہ کرامؓ کے جمِ غفیر میں،آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا :’’ا ے لوگو!تمہارے اموال، تمہاری عزتیں تم پر اسی طرح قابل ِ احترام ہیں،جس طرح یہ حرمت والا دن،یہ حرمت والا مہینہ،تمہارے اس مقد س شہر میں لائق صد عزت وتکریم ہے ۔ ( اوریہ حرمت عارضی نہیں،بلکہ یہ اس وقت تک برقرار رہے گی،جب تم اپنے رب سے ملاقات کر و گے ) بیشک تم اپنے رب سے ملاقات کرو گے ، اور تم سے تمہارے اعمال کے بار ے میں باز پرس ہوگی،جہاں تک غیر مسلم رعایا کا تعلق ہے، تو ان کی جان ،مال اور عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے،اس ہادی برحق ﷺ نے جو تاکید و ارشادات فرمائے،و ہ اسلامی سوسائٹی کے ماتھے کاجھومر ہیں ۔ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ نے، اپنے ایک صحابی عبداللہ بن ارقم،جو اہل ذمہ سے جذیہ وصول کرنے پر متعین تھے،کو اس ذمہ داری پر روانہ کرتے ہوئے فرمایا : اے عبداللہ ! کان کھول کر میری بات سُن لو ! جس نے بھی کسی معاہد یعنی اہل ذمہ پر ظلم کیا ،یا اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف دی یا اُسے نقصان پہنچایا، یا اس کی رضا مندی کے بغیر اس سے کوئی چیز لی ، تو قیامت کے روز میں اس کا گریبان پکڑوں گا ۔ حضرت نافع، حضر ت ابن عمر سے روایت کرتے ہیں ، کہ آپ نے بتایا کہ "نبی اکرم ﷺ کے اس دنیا سے تشریف لے جاتے ہوئے ،آخری بات جو ارشاد فرمائی، وہ یہ تھی کہ میں نے جن لوگو ں کے جان،مال اور آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری اُٹھائی ہے، اس کی لاج رکھنا ، اس پر آنچ نہ آنے دینا ۔" اسی طرح اسلامی ریاست کی غیر مسلم رعایا اور اہل ذمہ کو عقیدہ ومذہب کے حوالے سے مکمل آزادی عطا ہوئی ، اس آزادی کا بنیادی اور فطری تقاضہ ہے کہ انہیں اپنے طریقے اور رواج کے مطابق اپنی مذہبی عبادات بجا لانے کی اجازت ہے ۔ البتہ اس معاملے میں احتیاط اور حفاظتی پیش بندی بھی کردی گئی کہ اگر ان عبادات ورسوم کی کھلے عام ادائیگی سے کہیں نقصِ امن اور فسادات کا خطرہ یا اسلامی شعائر کی توہین کا اندیشہ ہو،تو پھر اس میں احتیاط لازم ہے ۔ ورنہ اپنی عبادت گاہوں کی چار دیواری کے اندر، ان رسوم کی ادائیگی میں کوئی قد غن یا پابندی نہ ہے ۔ گویا جب اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کو اپنے عقیدہ ومذہب پر قائم رہنے اور مذہبی عبادات ورسوم کی ادائیگی کے معاملے میں آزادی ہے ۔ تو اس آزادی کا عقلی اور فطری تقاضا ہے کہ اپنی اپنی عبادت گاہوں کے قیام واستحکام کی بھی اجازت او رحفاظت میسر ہو ۔ جس کے لیے اسلامی تاریخ کے نظائر ہماری راہنمائی کے لیے کافی ہے ۔ صد شکر کے علمائے اسلام کا ایک عظیم اجتماع د و روز قبل ، وزیر اعلیٰ پنجاب کی زیر صدارت ، دربا ر ہال ، سول سیکرٹریٹ میں منعقد ہوا ، جس میںجملہ مذہبی عمائدین نے ایک جامع اور بلیغ اعلامیے کے ذریعے، اس واقعہ کی مذمت کرنے کے ساتھ، محرم الحرام میں امن وامان کے قیام اور مجالس واجتماعات کے حوالے سے خیر اور امن ومحبت کے ابلاغ کی یقین دہانی کا اظہار کیا،حسب’’مشترکہ اعلامیہ‘‘کے ذریعے کیا :۔ ’’پاکستان میں قیام اوراس کے استحکام میں علمائے کرام اور دینی شخصیات کا کردار ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے ۔ ہم حکومت پنجاب کی وساطت سے پوری قوم کو یقین دلاتے ہیں کہ محراب ومنبر دفاع وطن اور قومی وملی سلامتی کے تقاضوں سے پوری طرح آگاہ ہے ۔ہم ضرورت پڑنے پر،پوری قوم کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح متحد ومتفق کھڑے ہوں گے ۔ جملہ مکاتب فکر کے علماء /خطباء او ر ذاکرین اپنے خطبات میں میانہ روی اور مثبت رویہ اختیار کریں گے،تاکہ فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا نہ ہو،مزید براں اسلام اپنی تعلیمات میں اہل کتاب اور غیر مسلموں سے بھی رواداری کا سبق دیتا،بلکہ ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتا ہے ۔لہٰذا علماء کرام اپنے خطبوں میں رواداری،انسان دوستی اور اتحادِ اُمت پر بھی خصوصی زور دیں گے اور باہمی افتراق سے مکمل احتراز کریںگے۔ بالخصوص محرم الحرام کے دوران امن وامان کے قیام لیے انتظامیہ سے مکمل تعاون کریں گے اور بالخصوص کوویڈ ۔19۔SOPsپر عملد رآمد کو یقینی بنائیں گے ۔تمام مکاتب فکر کے علماء اس امر پر متفق ہیں کہ کسی مسلمان کی دل آزاری نہ کی جائے ، جس کے لیے ہم سب ’’اپنے مسلک کو چھوڑو نہ اور دوسروں کے مسلک کو چھیڑو نہ‘‘کی پالیسی پر سختی سے کار بند رہیں گے ۔ ہم’’پیغامِ پاکستان‘‘کی روشنی میں ملک میں مذہب کے نام پر دہشت گردی اور قتل وغارت گری کو خلاف اسلام سمجھتے ہیں اور اس کی پُر زور مذمت کرتے ہیں ۔ ایسی ہر تقریر اور تحریر سے گریز اور اجتناب کریں گے جو کسی بھی مکتبہ فکر کی دل آزاری اور اشتعال کا باعث بن سکتی ہو ۔ اسلامی ریاست غیر مسلم شہریوں اور اہلِ ذَمّہ کے ساتھ حُسنِ سلوک کی تلقین کرتا اوربالخصوص ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتا ہے،اسکا اہتمام والتزام ہم سب پر لازم ہے ۔ بنابریں آج کا یہ اجلاس موضع بھونگ (رحیم یار خان ) میں’’مندر حملے‘‘کی مذمت کرتا ہے ۔وطنِ عزیز کے دفاع اور سا لمیت کی خاطر پاک فوج ، پولیس سمیت سیکیورٹی نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیاں لائقِ تحسین ہیں،ان اداروں نے ملکی استحکام اور امن وامان کے قیام کے لیے جو گراں قدر قربانیاں پیش کیں ،وہ ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہیں، ہم ان کی جرأت ،بسالت اور شجاعت پر ان کو سلام پیش کرتے ہیں ۔یقینا وطنِ عزیز اس وقت اپنی تاریخ کے اہم دور سے گزر رہا ہے ۔مشکل کی اس گھڑی میں ہم صبر،حوصلے اور تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے،وطنِ عزیز کو امن وسلامتی کا گہوارہ بنا کر اُسے مضبوط اور مستحکم کرنے کا عزم کرتے ہیں۔خدائے بزرگ و برتر سے دُعا ہے کہ وہ ہمارے پیارے وطن پاکستان کی حفاظت فرمائے اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو مضبوط کرنے کی ہماری ان کوششوں کو ثمر بار فرمائے ۔ (آمین )"