چولستان کے عالمی شہرت یافتہ فنکار کرشن لعل بھیل گزشتہ روز رحیم یارخان میں فوت ہو گئے ، بلا شبہ ان کی وفات پورے وسیب کیلئے صدمے کا باعث ہے ۔ کرشن لعل بھیل نے اپنی آواز اور اپنے ثقافتی انداز سے پوری دنیا کو متاثر کیا اور ان کا فن چولستان کی پہچان بنا ۔ کرشن لعل بھیل نے چاروں صوبوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ انڈیا ، دبئی سمیت بہت سے دیگر ملکوں میں پرفارم کر کے پاکستان کا نام روشن کیا ، ان کی زبان سرائیکی اور مارواڑی تھی، وہ اپنی زبان میں بھجن بھی گاتے تھے ، ہندو مذہب کے بھیل طبقے سے ان کا تعلق تھا، کرشن لعل بھیل نے محترمہ بینظیر بھٹو ، صدر مشرف، صدر زرداری ، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ، وزرائے اعلیٰ اور ملک کی دیگر اعلیٰ شخصیات کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کر کے داد و تحسین وصول کی ۔ اپنی دھرتی ، اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے ان کو اس قدر پیار تھا کہ وہ سرائیکی ثقافتی پروگراموں کے ساتھ ساتھ سرائیکی صوبے کی تحریک کے پروگراموں میں بھی شریک ہوتے ۔ راقم الحروف بندہ ناچیز سے دوستی اسی بناء پر تھی ۔ کرشن لعل بھیل نے بہت سے انٹرنیشنل کلچرل فیسٹیول کے ساتھ ساتھ اندرون ملک لوک ورثہ ، پی این سی اے ، الحمرا ،ملتان / ڈی جی خان / بہاولپور آرٹس کونسلز، میں بارہا اپنے فن کا مظاہرہ کر کے داد و تحسین وصول کی ،اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اوپن ایئر تھیٹر لاہور میں آل پاکستان میوزیک کانفرنس میں چولستان کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ رفیع پیر تھیٹر ورکشاپ لاہور میں بھی اپنے وسیب کی نمائندگی کا فریضہ سر انجام دیا ۔ مجھے یاد ہے کہ ریڈیو پاکستان ملتان کی بالائی منزل پر بننے والے ملتان پی ٹی وی سنٹر کے افتتاح کے لئے صدر مشرف آئے ہوئے تھے ، بہت سے فنکار تھے مگر اپنے خوبصورت چولستانی لباس اور اپنے مخصوص انداز سے حاضرین کو سب سے زیادہ متاثر کرشن لعل بھیل نے کیا اور صدر مشرف نے ان کو بہت داد دی ۔ کرشن لعل بھیل گائیک ہونے کے ساتھ ساتھ موسیقار بھی تھے اور بہت سے شاگرد ان کے پاس گائیکی کے علاوہ موسیقی کا فن سیکھنے آتے ۔ ان کو بہت سے ایوارڈ اور اعزازات حاصل ہوئے ، ریڈیو پاکستان بہاولپور میں ان کی ڈبل اے کلاس تھی ۔ کرشن لعل بھیل کیلئے وزیراعلیٰ سے امداد کی درخواست اس بناء پر کر رہا ہوں کہ میں نے گزشتہ روز کے کالم میں لکھا تھا کہ فنکاروں کی امداد احسن اقدام ہے اور ان کو عید یا ان کی وفات سے پہلے ملنا چاہئے ۔ اگر مرنے کے بعد ان کو ملا تو اس کا کیا فائدہ ؟ کرشن لعل بھیل کا تعلق رحیم یارخان کے چولستانی علاقے سے تھا ۔ وہ کچھ عرصے سے گردوں کے مرض میں مبتلا تھے اور ہرہفتے وہ گردے واش کراتے ، ان سے آخری ملاقات بہاولپور آرٹس کونسل اور بہاول کلب بہاولپور میں ہوئی ، جہاں کمشنر بہاولپور آصف اقبال چوہدری نے چولستان جیپ ریلی کے موقع پر چولستان میوزیکل نائٹ منعقد کرائی تھی ۔ اس موقع پر کرشن لعل بھیل نے ملاقات کے دوران کہا کہ میں نے اپنے فن کے ذریعے ملک کی خدمت کی ہے ، دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے ، میں بیمار ہوں گردوں کا مسئلہ ہے ، اگر بیرون ملک نہیں تو کم از کم حکومت پاکستان میں کسی اچھے ہسپتال میں میرا علاج کرائے ۔ ہم نے جھوک سرائیکی کے توسط سے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ تک ان کی فریاد پہنچائی مگر علاج نہ ہو سکا ۔ یہ صرف کرشن لعل بھیل کے ساتھ ایسا نہیں ہوا بلکہ وسیب کے تمام فنکاروں کے ساتھ ایسا ہوتا آ رہا ہے ، چولستان کے ایک اور بہت بڑے فنکار فقیرا بھگت کو بھی یرقان ہوا ، ہماری ہزار اپیلوں کے باوجود ان کا علاج بھی سرکاری خرچ پر نہ ہوا اور وہ بھی سسک سسک کر آنجہانی ہو گئے ۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ چولستان کے دونوں فنکاروں کی موت مئی کے مہینے میں ہوئی ہے ، فقیرا بھگت 11 مئی 1999ء کو فوت ہوئے اور کرشن لعل بھیل کی تاریخ وفات 7 مئی 2020ء ہے ۔ کرشن لعل بھیل 1965ء کو لعل ناتھ کے گھر پیدا ہوئے ، ان کا نام کرشن جی تھا ، جبکہ ان کی پہچان کرشن لعل بھیل کے نام سے ہوئی ۔ ان کا پورا ثقافتی گروپ تھا ، جس میں مائی دادلی اور دیگر فنکار بھی شامل تھے ، وہ جہاں جاتے اپنے فن کے ذریعے مجمعے پر چھا جاتے ۔ چولستانی گائیکی ان کی پہچان تھی ، وہ سرائیکی مارواڑی کے ساتھ ساتھ سندھی اور پنجابی میں بھی عارفانہ کلام گاتے تھے ۔ چولستان سے ان کو عشق تھا ، ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ جس طرح خواجہ فرید نے چولستان سے محبت کی ہے ہم بھی اسی طرح محبت کرتے ہیں کہ خواجہ فرید ہمارے روحانی پیشوا ہیں ۔ آج ان کی وفات کے بعد یاد آ رہا ہے کہ جس طرح چولستان اور چولستان کے لوگ محرومیوں کا شکار ہیں ، اسی طرح چولستان کے فنکار بھی محروم ہیں ۔ لاہور کے میاں برادران قریباً 40 سال بر سر اقتدار رہے ، ہم نے بہت کچھ لکھا ، انہوں نے وسیب کو محروم رکھنے کے سوا کچھ نہ کیا، مگر آج تونسہ اور میانوالی بر سر اقتدار ہے ، اگر آج بھی مسئلے حل نہیں ہوتے تو اس سے بڑھ کر بد قسمتی اور کوئی نہیں ہو سکتی ۔ کرشن لعل بھیل چک 112چولستان کے رہائشی تھے ، بھیل نگر ضلع رحیم یار خان میں بھی ان کا گھر تھا ، لیکن وہ گھر پر بہت کم ملتے اور پروگراموں کے سلسلے میں اکثر باہر رہتے ، بہاولپور میں ملاقات کے دوران کرشن لعل نے بتایا کہ میں بہت خوش ہوں کہ کمشنر بہاولپور نے مجھے انعام سے نوازا ہے اور ہمارے پورے گروپ کو ثقافتی کپڑے بنوا کر دیئے ہیں ، ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ثقافتی لباس بہت پرانا ہو چکا تھا ، اور اتنے پیسے نہیں تھے کہ ہم نیا لباس بنواتے ، میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اتنے بڑے فنکار ہیں ، آپ کو معقول معاوضہ ملتا ہو گا تو اس پر کرشن لعل نے کہا کہ بہت دولت دیکھی ہے ،میرے پاس بہت پیسہ آتا ہے مگر میں ضرورت مندوں میں خرچ کر دیتا ہوں ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں نے بہت دنیا دیکھی ہے ، اندرون ملک کے ساتھ ساتھ بیرون ملک بھی بہت پروگرام کئے ہیں، اب مجھے شہرت کی بھی ضرورت نہیں لیکن میری خواہش ہے کہ جس طرح آپ نے عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی ، میڈیم ثریا ملتانیکر اور دیگر فنکاروں کے اعزاز میں الحمراء میں تقریبات منعقد کی ہیں ، اسی طرح ایک تقریب اس فقیر کے ساتھ بھی ہو جائے ، میں نے ان سے وعدہ کیا مگر افسوس کہ کورونا کا عذاب نازل ہوا اور ہم اپنا وعدہ نہ نبھا سکے ، اسی بناء پر کرشن لعل بھیل کی روح سے شرمندہ ہیں ۔