وزیر اعظم عمران خاں نے سالانہ میزانیہ ترتیب دینے والے اپنے معاشی رفقا کو آئندہ بجٹ میں غریب طبقے پر کم سے کم بار ڈالنے کی ہدایت کی ہے۔ موجودہ حالات میں اس طبقے کی حالت واقعی قابل رحم ہے اور یہ حکومت کی ہمدردی کا مستحق ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ ’’بجٹ عوام دوست اور معاشی استحکام کے مقاصد پیش نظر رکھ کر بنایا جائے‘‘۔ بجٹ پیش کرنے کی تاریخ جوں جوں قریب آتی ہے مختلف طبقات کو یہ خدشات لاحق ہونے لگتے ہیں کہ بجٹ ان کی مشکلات میں اضافہ کا موجب ہو گا۔ اس سال بجٹ ایک بحرانی دور میں پیش کیا جا رہا ہے۔ عوام میں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے کئی طرح کی افواہوں کو گنجائش دی ہے۔ ان افواہوں کو کچھ سیاسی حلقے حکومت کے قدم اکھاڑنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔عوامی حلقوں میں آئندہ بجٹ کو مشکلات بڑھانے والی دستاویز تصور کیا جا رہا ہے۔ کسی ملک کی معاشی صورت حال اس کی ترجیحات کا تعین کرتی ہے۔ پاکستان کی معیشت قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ ریاست کے ذرائع آمدن محدود ہیں۔ ٹیکس جمع نہیں ہوتے۔ برآمدات تسلی بخش نہیں‘پیداواری عمل اور سرمایہ کاری بھی اطمینان بخش نہیں۔ صنعتیں بند پڑی ہیں۔ ملک کی توانا آبادی بے روزگاری کا شکار ہے۔ ملک میں صحت‘ تعلیم اور رہائش جیسی سہولیات ناکافی اور غیر معیاری ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ سابق حکومتوں نے ان مشکلات کے حل کی منصوبہ بندی کی اور نہ ہی ایسے مقامی وسائل کو فروغ دیا جو مشکلات کو معاشی بحران کی شکل میں ڈھلنے سے روک سکتے۔ ہر حکومت نے معاشی فیصلوں کے جو ماڈل متعارف کرائے ان میں سرکاری ملازمتوں کے مواقع بڑھانا‘ بینکوں کے ذریعے نوجوانوں کو قرض فراہم کرنا اور پنشنروں و تنخواہ دار طبقے کے لئے سالانہ مخصوص اضافہ شامل رہا۔ خام مال پیدا کرنے‘ اسے ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی شکل دینا۔ برآمدات کے لئے نئی منڈیاں تلاش کرنا‘ زرعی معیشت کو ٹیکنالوجی سے سہارا دینا اور نوجوان آبادی کو کاروبار کے آزاد مواقع دینا کسی حکومت کی ترجیح نہیں رہی۔ تحریک انصاف کی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد میں سب سے دلکش نعرہ تبدیلی کا ہے۔ مروجہ نظام کے ہاتھوں غریب اور محروم طبقات نے بڑے زخم کھائے ہیں۔ ریاست کے وسائل کا استعمال حکمران اشرافیہ کی بہبود پر ہوا۔ غریب افراد کو صرف سہانے خواب دکھا کر خوش کیا جاتا رہا۔ سابق حکمران جماعتوں پر مخصوص خاندان مالک بن کر قابض ہو گئے۔ پاکستان نے ان حکمران خاندانوں کی وجہ سے بدترین جمہوریت دیکھی۔ ایسی جمہوریت جہاں عام شہری بے بس اور پسماندہ ہے جبکہ حکمران اشرافیہ اور اس کے وابستگان ہر آسائش سے مالا مال‘ ایسا نہ ہوتا تو معاشی بدحالی کی وجہ بننے والے مسائل کو حل کیا جاتا۔ حکمران اشرافیہ نے ٹیکس نظام کو اس قدر پیچیدہ اور غیر موثر کردیا کہ ایف بی آر کسی صنعت کار‘ سرمایہ دار، جاگیردار اور بڑے تاجر سے ٹیکس وصول کرنے کی جرات نہیں کرتا اور وہ لوگ جو چند ہزار روپے کے تنخواہ دار ہیں ان کی تنخواہ سے باقاعدہ ٹیکس منہا کر لیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف کو ووٹ دینے والوں کے پیش نظر یہی تھا کہ عمران خان عدم مساوات پر استوار بنیادوں کو نئے درست رخ پر اٹھائیں گے۔ان سے نظام کی درستی کی امید بے جا نہیں۔ گزشتہ برس جب بجٹ پیش کیا گیا تو مسلم لیگ ن کی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر چکی تھی۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد تحریک انصاف نے دو بار نظرثانی شدہ بجٹ پیش کئے۔ تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 40فیصد کمی نے معاشی اہداف کو مشکل بنا دیا ہے۔ پاکستان کو اگلے تین برسوں کے دوران 27ارب ڈالر کے غیر ملکی قرض واپس کرنا ہیں۔ آئی ایم ایف سے نئے بیل آئوٹ پیکیج کی تفصیلات لگ بھگ طے ہو چکی ہیں اور مالیاتی ادارے کا ایگزیکٹو بورڈ جلد اس کی توثیق کر دے گا۔ برادر مسلم ملک سعودی عرب تین سال تک سالانہ تین ارب ڈالر سے زائد کا تیل ادھار پر دینے کا اعلان کر چکا ہے۔ سی پیک منصوبوں کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا چاہتا ہے۔ اس صورتحال میں آنے والا بجٹ پاکستان کی تاریخ کا مشکل ترین بجٹ ہو سکتا ہے۔ یقینا ملک کی معاشی سلامتی کو پیش نظر رکھ کر حکومت بعض مشکل فیصلے کر سکتی ہے تاہم اچھی بات یہ ہے کہ ایسے مواقع پر سول و عسکری قیادت میں جس طرح کے اختلافات ظاہر ہوا کرتے تھے اس بار ایسا نہیں۔ آرمی چیف خود اعلان فرما چکے ہیں کہ مسلح افواج گزشتہ سال کے دفاعی بجٹ کے برابر رقم سے گزارہ کریں گی۔ وزیر اعظم عمران خان نے پہلے دن سے سادگی و کفایت شعاری کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ وزیر اعظم نے ہدایت کی ہے کہ حکومتی اداروں اور دفاتر کے اخراجات کم کئے جائیں۔ ایک اندازے کے مطابق کفایت شعاری کی اس مہم سے چالیس ارب روپے سے زائد کی رقم بچ سکتی ہے۔ حکومت اچھی انتظامی صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرے۔ سیاحت‘ ہارٹیکلچر‘ زرعی ٹیکنالوجی‘ سپیس ٹیکنالوجی اور آبی ذخائرکی تعمیرکو ترجیحات بنا کر جہاں آمدن کے ذرائع بڑھائے جا سکتے ہیں وہاں روزگار کے لئے سرکاری ملازمتوں کی جگہ ذاتی کاروبار کے کلچر کی حوصلہ افزائی بھی ہو گی۔ وزیر اعظم نے اپنی معاشی ٹیم کو غریب طبقات کا خصوصی خیال رکھنے کا کہہ کر عوام کی امید ٹوٹنے نہیں دی۔ امید کی جاتی ہے کہ بجٹ میں طبقاتی بنیادوں پر وسائل کی تقسیم کا پرانا طریقہ کار اپنانے کی بجائے ایک عادلانہ سوچ اختیار کرتے ہوئے کم وسیلہ آبادی کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے میں مدد دی جائے گی۔